دو سو سے زائد برس پہلے جب 17 اکتوبر 1817 کو سید احمد بن متقی خان دلی میں پیدا ہوئے تو یوں کہیے کہ ایک پرانی روایات میں جنم لیا اور پرورش کے ساتھ ساتھ تعلیم بھی روایتی ہی رہی۔ خواص کے لیے متعصب تھے، لکھنا لکھانا بھی ماضی سے جڑا تھا اور انداز تحریر بھی مشکل اپنایا مگر پھر ان کی زندگی یکسر بدل گئی۔
تنقید برداشت کی، طعنے اور فتوے سہے مگر جدیدیت، مفاہمت، بول چال کا انداز اور مقصدیت سب اُن کا میدان ٹھہرے اور انھیں سرسید احمد خان کے نام سے جانا جانے لگا۔ دروں بینی اور انھیں متاثر کرتے دیگر واقعات کے ساتھ ساتھ ان میں یہ انقلاب بپا کرنے کا بڑا سہرا شاعر بے بدل مرزا اسد اللہ خان غالب کو جاتا ہے۔
کایا کلپ کی یہ کہانی سرسید کی پیدائش اور بچپن ہی سے شروع کرتے ہیں۔ تب مغل حکمرانی آخری سانسیں لے رہی تھی۔ شاہ عالم ثانی کی وفات کے بعد ان کے بیٹے اکبر شاہ تخت شاہی پر متمکن تھے۔ باپ کی طرح بے اختیار اور برائے نام حکمران کہ اصل اختیارات انگریزوں کے پاس تھے۔
الطاف حسین حالی سر سید کی سوانح حیات ’حیات جاوید‘ میں لکھتے ہیں: ’سر سید احمد کے والد کو اکبر شاہ کے زمانے میں ہر سال تاریخ جلوس کے جشن پر پانچ پارچہ اور تین رقوم جواہر کا خلعت عطا ہوتا تھا مگر اخیر میں انھوں نے دربار کو جانا کم کر دیا تھا اور اپنا خلعت سر سید کو، باوجود یہ کہ ان کی عمر کم تھی، دلوانا شروع کر دیا تھا۔‘
سر سید کہتے تھے کہ ایک بار خلعت ملنے کی تاریخ پر ایسا ہوا کہ والد بہت سویرے اُٹھ کر قلعے چلے گئے اور میں بہت دن چڑھے اُٹھا۔ ہر چند بہت جلد گھوڑے پر سوار ہو کر وہاں پہنچا مگر پھر بھی دیر ہو گئی۔ جب خلعت پہن کر میں نے دربار میں جانا چاہا تو دربار برخاست ہو چکا تھا اور بادشاہ تخت پر سے اُٹھ کر ہوادار پر سوار ہو چکے تھے۔ بادشاہ نے مجھے دیکھ کر والد سے، جو اس وقت ہوادار کے پاس ہی تھے، پوچھا کہ ’تمہارا بیٹا ہے؟‘
انھوں نے کہا، ’حضور کا خانہ زاد۔‘ جواہر خانہ کے داروغہ کو کشتئ جواہر حاضر کرنے کا حکم ہوا۔۔۔ بادشاہ نے مجھے اپنے سامنے بلایا اور کمال عنایت سے میرے دونوں ہاتھ پکڑ کر فرمایا کہ ’دیر کیوں کی؟‘ حاضرین نے کہا ’عرض کرو کہ تقصیر ہوئی‘ مگر میں چپکا کھڑا رہا۔’جب حضور نے دوبارہ پوچھا تو میں نے عرض کیا کہ ’سو گیا تھا،‘ بادشاہ مسکرائے اور فرمایا ’بہت سویرے اُٹھا کرو‘ اور ہاتھ چھوڑ دیے۔ لوگوں نے کہا ’آداب بجا لاؤ’‘ میں آداب بجا لایا۔ بادشاہ نے جواہرات کی معمولی رقمیں اپنے ہاتھ سے پہنائیں۔۔۔ اس زمانے میں میری عمر آٹھ، نو برس کی ہو گی۔‘سرسید کے ابتدائی تعلیمی مراحل بھی اسی طور سے طے پائے جو مسلمان اشرافیہ کی روایت تھی۔ لڑکپن اور جوانی بھی ویسی ہی گزری جیسی اس دور میں ’بے فکر امیر زادوں کی‘ گزرتی تھی۔بقول حالی ’سر سید کا عنفوان شباب نہایت زندہ دل اور رنگین صحبتوں میں گزرا تھا، وہ راگ رنگ کی مجلسوں میں شریک ہوتے تھے۔ دلی میں بسنت کے میلے، جو موسم بہار کے آغاز میں درگاہوں پر ہوتے تھے، وہاں جاتے تھے۔ خود ان کے نانا خواجہ فرید کی قبر پر چونسٹھ کھمبے میں جو بسنت کا میلہ ہوتا تھا اس میں وہ بھائیوں کے ساتھ منتظم و مہتمم ہوتے تھے۔‘بڑے بھائی کا انتقال سرسید کی زندگی میں پہلی بڑی تبدیلی کا باعث بنا۔ حالی لکھتے ہیں ’بھائی کے مرتے ہی ان کا دل رنگین صحبتوں سے بالکل اچاٹ ہو گیا، لباس اور وضع میں جو اس وقت بانکپن سمجھا جاتا تھا یک قلم ترک کر دیا۔ سر گھٹوا لیا، ڈاڑھی چھوڑ دی، پائنچے متشرع کر لیے، کرتا پہن لیا، رنگین طبع نوجوانوں کی صحبت رفتہ رفتہ کم ہونے لگی۔‘سرسید نے بھی اپنی ایک تحریر میں جوانی کی اس لغزش کی طرف اشارہ کیا ہے۔ وہ قوم کی غفلت و بدمستی کا ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں ’ہم بھی اسی رنگ میں مست تھے، ایسی گہری نیند سوتے تھے کہ فرشتوں کے بھی اٹھائے نہ اٹھتے تھے۔ کیا کیا خیالات ہماری قوم کے ہیں جو ہم میں نہ تھے اور کون سی کالی گھٹائیں ہماری قوم پر چھا رہی ہیں جو ہم پر نہ چھائی ہوئی تھیں۔ جب رند تھے تو فرہاد سے بڑھ کر تھے۔ جب زاہد خشک تھے تو نہایت ہی اکھڑ تھے۔ جو صوفی تھے تو رومی سے برتر تھے اور اپنی قوم کے غم خوار۔‘والد کی وفات کے وقت اُن کی عمر 22 سال تھی۔ اس وقت ان کے خالو خلیل اللہ خاں صدر امین دلی میں تھے۔ یہ بھی ان کے پاس بطور سر رشتہ دار ملازم ہو گئے۔ اس کے بعد آگرے کے کمشنر کے دفتر میں نائب منشی ہوئے۔ سنہ 1841 میں منصفی کا امتحان پاس کر کے مین پوری میں جج بن گئے اور پھر ترقی کرتے ہوئے ’جج سمال کاز‘ (منصف عدالت خفیفہ ہو گئے)۔ اس حیثیت سے فتح پور سیکری، دلی، روہتک، بجنور، مراد آباد، غازی پور، علی گڑھ اور بنارس میں تھوڑا تھوڑا عرصہ رہے۔حالی کے مطابق ’سرسید کا بیان ہے کہ جب میں دلی میں منصف تھا تو میری والدہ (عزیز النسا ) کی نصیحت تھی کہ جہاں تم کو ہمیشہ جانا ضرور ہے وہاں کبھی سواری پر جایا کرو اور کبھی پیادہ پا جایا کرو۔ زمانے کا کچھ اعتبار نہیں، کبھی کچھ ہے اور کبھی کچھ۔ پس ایسی عادت رکھو کہ ہمیشہ اس کو نباہ سکو۔ چنانچہ میں نے جامع مسجد اور خانقاہ میں جانے کا یہی طریقہ رکھا تھا کہ اکثر پیدل اور کبھی کبھی سواری پر جاتا تھا۔‘والدہ کی ایسی تربیت کی کئی مثالیں ’حیات جاوید‘ میں ملتی ہیں۔
مکاتبات وغیرہ اردو میں لکھنے شروع کیے اور چونکہ وہ جس طرف متوجہ ہوتے تھے، اپنا کوچہ الگ نکال کر رہتے تھے، اس لیے انھوں نے تمام ہم عصروں کے برخلاف مکاتبے کو مکالمہ کر دیا۔‘’اکثر جگہ واقعات کو اس بے ساختگی سے ظاہر کیا کہ واقعے کی تصویر آنکھوں کے سامنے پھر جاتی ہے۔ اس لحاظ سے یہ کہنا بے جا نہیں کہ اردو انشا پردازی کا آج جو انداز ہے اور جس کے مجدد اور امام سرسید مرحوم تھے اس کا سنگ بنیاد در اصل مرزا غالب نے رکھا تھا۔ سرسید کو مرزا سے جو تعلق تھا، وہ ظاہر ہے۔ اس لیے کچھ شبہ نہیں ہو سکتا کہ سرسید ضرور مرزا کی طرز سے مستفید ہوئے۔‘شبلی کہتے ہیں کہ سرسید نے مشکل سے مشکل مسائل کو اس وضاحت، صفائی اور دل آویزی سے ادا کیا ہے کہ پڑھنے والا جانتا ہے کہ وہ کوئی دلچسپ قصہ پڑھ رہا ہے۔سرسید کی تحریروں میں جا بجا ظرافت اور شوخی بھی ہوتی ہے لیکن نہایت تہذیب اور لطافت کے ساتھ۔ مولوی علی بخش خاں صاحب مرحوم جو سرسید کے رد میں رسالے لکھا کرتے تھے، حرمین شریفین گئے اور وہاں سے سرسید کی تکفیر کا فتویٰ لائے۔
اس پر سرسید ایک موقع پر تہذیب الاخلاق میں لکھتے ہیں: ’جو صاحب ہماری تکفیر کے فتوے لینے کو مکہ معظمہ تشریف لے گئے تھے، ہمارے کفر کی بدولت ان کو حج اکبر نصیب ہوا۔‘مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر کے زمانے میں ابوالفضل نے ایک کتاب آئین اکبری لکھی تھی۔ اس کتاب میں اس زمانے کے دستور، قوانین، شرح محصولات، لگان اور اشیا و اجناس کے مقرر کردہ نرخ وغیرہ تھے۔ سنہ 1855 میں سرسید احمد خان نے اس کتاب کی تصحیح کی اور اس پر حواشی کے اضافے کے بعد اسے دوبارہ چھاپنے کا ارادہ کیا۔ سرسید نے مرزا غالب سے اس پر تقریظ لکھنے کی درخواست کی۔ماہر غالبیات اور نقاد ڈاکٹر سلیم اختر اپنے مضمون ’غالب اکیسویں صدی میں‘ لکھتے ہیں: ’غالب کی شاعری کے فکری محاسن میں سے دو امور خصوصی توجہ چاہتے ہیں ایک اپنے زمانے کے لحاظ سے زندگی کے جدید تقاضوں کا ادراک اور اس سے جنم لینے والی مستقبل بینی کا احساس اور دوسرے زیست اور مظاہر زیست کے بارے میں عقلی رویہ جو کبھی غم کے بارے میں بصیرت دیتا ہے کبھی تشکیک پر مبنی ذہنی رویہ جنم دیتا ہے تو کبھی ذہن میں سوالات پیدا کرتاہے۔۔۔ ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے۔۔۔؟‘’سرسید ہمارے ہاں جدیدیت کے اولین معمار کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں لیکن سرسید سے کہیں پہلے غالب کو ہوا کے رخ کا اندازہ ہو چکا تھا۔۔۔ غالب نے فارسی میں جو منظوم تفریظ لکھی اس میں سرسید کو ’مردہ پرور دن مبارک کارنیست‘ کی تلقین کرتے ہوئے ان ایجادات کی اہمیت کا احساس کرایا جو انگریزوں کے زیر اثر فروغ پا رہی تھیں اور نئی زندگی کی نوید تھیں۔‘بقول اویس قرنی کے یہ تقریظ غالب کی عصری حسیت اور قومی شعور کو سمجھنے کیلیے پورا دفتر ہے۔ اس زمانے تک مسلمانوں کے تعلیم یافتہ طبقے اور خواص میں کوئی نمایاں بیداری یا ایسا قومی شعور نظر نہیں آتا۔ اس لحاظ سے غالب کو برصغیر کے مسلمان مفکرین کا فکری امام کہا جا سکتا ہے۔تقریظ غالب نے 38 اشعار میں لکھی تھی جس میں انھوں نے کہا کہ پدرم سلطان بود کے مقولہ پر عمل مردہ پرستی کے مترادف ہے۔ انھوں نے انگریزوں کی ہمہ جہت ترقی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ان سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔لب لباب یہ تھا کہ اپنا وقت اکبر کے آئین پر ضائع نہ کرو اور یہ کہ اب کا زمانہ جدیدیت کا ہے اور آئین تو اب کلکتے میں بنتا ہے۔ غالب نے لکھا کہ اصل کمال تو ان لوگوں کا ہے جنھوں نے سائنسی طریقہ کار کو اپنایا ہے اور جو ایسے دخانی جہازوں میں سفر کرتے ہیں جن پر ہوا کے چلنے، نہ چلنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
غالب نے سر سید کو نصیحت کی کہ وہ ماضی پرستی ترک کر کے مستقبل کا سوچیں۔ انھوں نے سر سید کو سمجھایا کہ انھیں انگریزوں سے یہ سبق سیکھنا چاہیے کہ وہ کس طرح فطرت کی طاقتوں کو مسخر کر کے اپنے اجداد سے کہیں آگے نکل گئے ہیں۔انھوں نے اس پوری تقریظ میں انگریزوں کی ثقافت کی تعریف میں کچھ نہیں کہا بلکہ ان کی سائنسی دریافتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مختلف مثالوں سے یہ بتایا ہے کہ یہی ان کی ترقی کا راز ہے۔ یہ تقریظ غالب کی فارسی کلیات میں دیکھی جا سکتی ہے۔سرسید نے غالب کی اس تقریظ کے بغیر آئین اکبری شائع کر دی اور کچھ دن تک دونوں میں خط لکھنے کا سلسلہ بھی منقطع ہو گیا۔ تقریظ کی واپسی کے لیے سرسید نے غالب کے نام جو خط لکھا وہ اب ناپید ہے تاہم اس رابطے کو بحال ہونا تھا سو ہو کر رہا۔سر سید کا کہنا ہے: ’جب میں مراد آباد میں تھا، اس وقت مرزا صاحب، نواب یوسف علی خاں مرحوم سے ملنے رام پور گئے تھے۔ ان کے جانے کی تو مجھے خبر نہیں ہوئی مگر جب دلی کو واپس جاتے تھے، میں نے سنا کہ وہ مرادآباد میں سرائے میں آ کر ٹھہرے ہیں۔ میں فوراً سرائے میں پہنچا اور مرزا صاحب کو مع اسباب اور تمام ہم راہیوں کے اپنے مکان پر لے آیا۔‘
جب سے سر سید نے تقریظ کے چھاپنے سے انکار کیا تھا وہ مرزا سے اور مرزا ان سے نہیں ملے تھے اور دونوں کو حجاب دامن گیر ہو گیا تھا اور اسی لیے مرزا نے مراد آباد میں آنے کی ان کو اطلاع نہیں دی تھی۔الغرض جب مرزا سرائے سے سرسید کے مکان پر پہنچے اور پالکی سے اُترے تو ایک بوتل ان کے ساتھ تھی انھوں نے اس کو مکان میں لا کر ایسے موقع پر رکھ دیا جہاں ہر ایک آتے جاتے کی نگاہ پڑتی تھی۔ سر سید نے کسی وقت اس کو وہاں سے اُٹھا کر اسباب کی کوٹھڑی میں رکھ دیا۔ مرزا نے جب بوتل کو وہاں نہ پایا تو بہت گھبرائے۔سرسید نے کہا: ’آپ خاطر جمع رکھیے، میں نے اس کو بہت احتیاط سے رکھ دیا ہے۔‘مرزا صاحب نے کہا: ’بھئی مجھے دکھا دو، تم نے کہاں رکھی ہے؟‘ انھوں نے کوٹھڑی میں لے جا کر بوتل دکھا دی۔ آپ نے اپنے ہاتھ سے بوتل اُٹھا کر دیکھی اور مسکرا کر کہنے لگے کہ، ’بھئی ! اس میں تو کچھ خیانت ہوئی ہے۔ سچ بتاؤ، کس نے پی ہے، شاید اسی لیے تم نے کوٹھڑی میں لا کر رکھی تھی، حافظ نے سچ کہا ہے:واعظاں کایں جلوہ در محراب و منبر میکنندچوں بخلوت میروند آں کارِ دیگر میکنند(ترجمہ: وہ محراب اور منبر کے سامنے تبلیغ کرتے ہیںجب تنہا ہوتے ہیں تو وہ کچھ اور کرتے ہیں)سرسید ہنس کے چُپ ہو رہے اور اس طرح وہ رکاوٹ جو کئی برس سے چلی آتی تھی، رفع ہو گئی، مرزا دو ایک دن وہاں ٹھہر کر دلی چلے آئے۔سنہ 1857 کے ہنگامے کے بعد غالب کی نصیحتوں میں سے ایک نصیحت پر عمل کرتے ہوئے سر سید نے سنہ 1862 میں سائنٹیفک سوسائٹی کا آغاز کیا اور پھر علی گڑھ تحریک کی ابتدا ہوئی۔کئی برسوں کے بعد سر سید نے حرکت زمین کے خلاف اپنی کتاب اور اس میں درج دلائل کو غلط قرار دیتے ہوئے اپنے مقالے سے برات ظاہر کی۔ ماہر طبیعات پرویز ہود بھائی لکھتے ہیں کہ ایک دن ریورنڈ جے جے مور نے انھیں تجویز دی کہ وہ ’میکانیات‘ کی کتاب فارسی سے اردو میں ترجمہ کریں۔اس تجربے کے بعد سر سید نے کئی دیگر سائنسی کتب کا ترجمہ بھی کیا اور ان کی اس خوبی کے سبب انگریز حکومت نے انھیں ایک بہترین مترجم کے طور پر قبول کر لیا۔ اس کا دوسرا فائدہ یہ بھی ہوا کہ سر سید سائنس کے بنیادی اصولوں سے بھی آشنا ہوتے چلے گئے۔سر سید کے نظریے کے مطابق مسلمانوں کی بقا اور خوشحالی کے لیے سائنس اور جدید تعلیم کے سوا اور کوئی راستہ نہیں۔ مفاہمت اور صلح پسندی کی بنیاد حقیقت پسندی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ مسلمانوں کی حالت بغاوت سے تبدیل نہیں ہو سکتی بلکہ پہلے تعلیمی اور معاشی طور پر مضبوط ہونا چاہیے۔
سر سید نے پہلا کام تو یہ کیا کہ جنگِ آزادی (جسے انگریز غدر کہتے تھے) کی وجوہات کا احساس دلانے اور مسلمانوں پر غدر کے الزام کا دفاع کرنے کے لیے سنہ 1859 میں ایک کتاب ’اسباب بغاوتِ ہند‘ لکھی۔انھوں نے یہ کتاب ارکانِ پارلیمنٹ تک بھجوائی اور مسلمانوں پر لگے جھوٹے الزامات کا دفاع کیا۔ اس الزام سے بچانے کے لیے انھوں نے کئی کتابیں لکھیں جن میں ’تاریخ سرکشی بجنور‘ اور ’رسالہ لائل محمدنز آف انڈیا‘ وغیرہ اہم ہیں۔ اس دور میں انھوں نے ’تاریخ فیرزو شاہی‘، ’تبین الکلام‘، ’سائنسٹیفک سوسائٹی اخبار‘ (جو بعد میں ’علی گڑھ انسٹیٹیوٹ گزٹ‘ ہو گیا) اور ’رسالہ احکام طعام اہل کتاب‘ وغیرہ بھی لکھیں۔سنہ 1869 میں سرسید اپنے بیٹے سید محمود (جو بعد میں الٰہ آباد ہائی کورٹ کے جج مقرر ہوئے) کے ہمراہ انگلستان گئے۔ آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹیوں کے نظامِ تعلیم کا مشاہدہ کیا اور وہاں کے تعلیمی نظام سے بہت متاثر ہوئے۔ انھوں نے ہندوستان میں اسی طرز کی یونیورسٹی اور کالج قائم کرنے کا ارادہ کیا۔انگلستان سے واپسی ہوئی تو سر سید نے سنہ 1870 میں رسالہ ’تہذیب الاخلاق‘ لکھا جس میں انھوں نے مسلمانوں کے ان معاشرتی پہلووں کی نشان دہی (جن کی اصلاح کرنا مقصود تھی) کرتے ہوئے مسلمانوں کو تلقین کی کہ وہ اپنی خامیوں کو فوری دور کرنے کی کوشش کریں۔انگلستان سے واپسی کے بعد سر سید نے مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لیے ’انجمن ترقی مسلمانانِ ہند‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔ ملک کے طول و عرض سے چندہ جمع کیا اور حکومت سے امداد کی درخواست بھی کی۔ سنہ 1875 میں انجمن ترقی مسلمانان ہند نے علی گڑھ میں ’ایم اے او (محمدن اینگلو اوریئنٹل) ہائی سکول‘ قائم کیا۔اس ادارے میں جدید اور مشرقی علوم کی تدریس کا بندوبست کیا گیا۔ سنہ 1877 میں اس سکول کو کالج کا درجہ دے دیا گیا جس کا افتتاح لارڈ لٹن نے کیا۔ سنہ 1898 میں اسے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا نام دیا گیا۔سنہ 1878 میں سرکاری ملازمت چھوڑنے کے بعد 27 مارچ 1898 کو وفات تک تعلیمی، سماجی اور سیاسی مشاغل ہی میں زندگی گزاری۔ وہ علی گڑھ کالج کی مسجد کے احاطے میں دفن ہیں۔مولوی محمد امین زبیری کی کتاب ’تذکرہ سرسید‘ میں غلام رسول مہر لکھتے ہیں: ’سرسید نے پوری تحریک میں ایثار، بے نفسی اورقربانی کے ثبوت پیش کیے۔ حد یہ ہے کہ لوگوں نے علی گڑھ کالج کو ان کے نام سے منسوب کرنا چاہا تو انکار کر دیا۔‘یوم بانی کو ان کے نام منسوب کرنا چاہا تو صاف کہہ دیا ہمیں انگریزی رسم کی تقلید کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ بانی کا نہیں کالج کے قیام کا دن منایا جائے۔ کالج کا بڑا دروازہ ان کے نام سے منسوب کرنے کی تجویز ہوئی تو فراہمی سرمایہ کی حد تک خاموش رہے۔ جب سرمایہ فراہم ہو گیا اوردروازہ بن گیا تو اپنا نام لکھوانے سے صاف انکار کر دیا اور یہ عبارت لکھوائی ’قوم نے قومی بھلائی کے لیے یہ کالج بنوایا۔
بشکریہ: وقار مصطفی
بی بی سی اردو