ایک دن خیال آیا وہ قبائلی لوگ، جو اپنی ذات ادھوری مان کے چلتے ہیں، کسی اور کی تلاش میں، جو ان کی تکمیل کا باعث ہو، انہیں کیا ذات کاگمشدہ حصہ ملتا ہو گا؟ پھر ایک خیال چلا، ہزاروں لوگ ملے، ہزاروں فریب۔
ایک ہی تکرار
کیا یہ ہو تو ذات مکمل لگتی ہے؟
جواب خلا، جواب ندارد۔
اور پھر تم دکھے۔
ٹوٹے پھوٹے، آدھے ادھورے، بچے کھچے، تن کا ماس کھلا کھلا کے تم ہڈیوں کا بنجر تھے، آنکھوں میں وحشت تھی اور چہرہ ویسا ہی بےرونق، جیسا بے محبتوں کا ہوتا ہے۔
تمہارا میرا غم سانجھا تھا، مجھے تمہارے غم سے محبت ہوئی۔
ایک خواہش تھی کہ بہت سے بچے ہوں اور تمہیں دیکھا تو وہ بچے بلکنے لگے، جیسے انہیں اس باپ کی شفقت چاہیے تھی۔ میں نے انہیں سمجھانے بجھانے کی کوشش کی کہ وہ کچھ دنوں کا مسافر ہے۔ تازہ دم ہو کے اپنا راستہ لے لے گا۔
مگر وہ بچے، ابنِ مریم جیسے تھے، جنہیں دنیا میں لانے کو کسی جسمانی رفاقت کی حاجت نہ تھی۔
وہ بچے میرے خواب تھے، وہ خواب میرے بچے تھے۔
اور پھر مجھے تم سے محبت میں شدت لانی پڑی کہ تم ان بچوں کو بے آسرا نہ چھوڑ دو۔
ایک دن ایک بلکتا بچہ نظر آیا، جس کے کپڑے پھٹے، ناک بہہ رہی تھی۔ وہ میلے میں اپنی ماں کو ڈھونڈ رہا تھا۔ میں نے اس کے بال سنوارے، منہ صاف کیا اور گال پہ بوسہ دیا۔ وہ مجھ سے لپٹ گیا اور مجھے ماں پکارتا رہا۔ میری چھاتیاں دودھ سے بھر گئیں اور دیکھتے دیکھتے ان سے دودھ رسنے لگا۔
میں نے اسے اپنی چھاتیوں سے لگایا تو وہ صدیوں کا بھوکا دودھ پینے لگا اور پھر ایک عورت آن پہنچی۔ اس نے مجھ سے چھین کر بچہ الگ کیا اور اپنے ساتھ لے گئی۔
بچے نے ایک مرتبہ میری طرف مڑ کے نہ دیکھا، جہاں زاد۔
میری چھاتیوں میں دودھ زہر بننے لگا کیونکہ میں دھتکار دی گئی تھی۔ ایک مرتبہ پھر، وہ درد میرے سینے میں بیٹھ گیا اور پکنے لگا۔ پکتے پکتے وہ ایسی نفرت بنا، جس کی تہہ میں محبت تھی۔
ایک دن میں نے اپنا آپ آئینے میں دیکھا۔ میری دائیں آنکھ، بایاں نتھنا اور بائیں طرف کا ہونٹ موجود نہ تھا۔ پھر ایک روز تم نظر آئے۔ تم مکمل تھے مگر مجھے ادھورے لگے۔
میں نے اپنا وجود تم سے بانٹا تا کہ ہم دونوں کی تکمیل ہو سکے مگر تم اپنا ظاہر اوڑھے ہوئے تھے۔ تمہارا باطن کہیں گروی رکھا ہوا تھا۔ ساہوکار قسط مانگنے آنے والا تھا، سو تم نے اپنا آپ مجھ سے الگ کیا اور چل دیے۔ میں نے شیشہ دیکھا تو میری دائیں آنکھ بھی نہ تھی، صرف دایاں ہونٹ رہ گیا تھا۔ اب مجھے کچھ نظر نہ آتا تھا۔
میں نے تمہارا انتظار کرنا شروع کر دیا۔ تا کہ تم آؤ اور میرا حصہ کم سے کم مجھے لوٹا دو۔ اب میری محبت تمہارا بنجر انتظار بن گیا تھا اور میں ہمیشہ سے زیادہ خالی ہو گئی۔
رخصت ہوتے سمے تم نے پگڑی باندھنے کو پونی مجھ سے کرائی۔ کسی نے دروازے پہ دستک دی تو تمہارا دھیان پل بھر کو بھٹکا، میں نے فوراً چپکے سے تمہاری پگڑی کے ساتھ اپنا گھر باندھ دیا تھا۔
پھر تم چلے گئے اور میرا گھر بھی پردیس چلا گیا۔
جانے کے بعد میں نے لاکھ مٹی، گارا، چونا، اکٹھا کر کے گھر بنانا چاہا مگر کبھی چونا کم پڑ جاتا یا کبھی مٹی گندھ نہ پاتی اور پھر زمانے کی گرمی انہیں تڑک گئی۔ اب میرے پاس کوئی اور چارہ نہ تھا کہ میں تمہاری محبت میں مقید رہتی۔ شاید کسی روز تمہیں ترس آئے اور تم میرا گھر لوٹا دو۔ سو میں وہیں بیٹھ گئی، مجبور اور محبوس۔
میرے پاس محبت کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔
کہتے ہیں بہت سی شراب پی چکنے کے بعد ایک ایسا مقام آتا ہے، جہاں اپنا وجود اپنا نہیں لگتا، اپنے ہاتھ پیر غیر محسوس ہوتے ہیں۔ ایسے وقت میں، میں اپنی ٹھوڑی پہ دائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی رکھتی ہوں، وہ لمحہ پھر سے جینے کو، جو تمہارا ساتھ بتایا تھا۔ وہ لمس مجھے بیگانہ تو لگتا ہے مگر وہ تمہاری حدت اور خوشبو سے عاری ہوتا ہے۔
اب ایسے لمحے کو اپنے سامنے پانے کو مجھے تمہارا انتظار گوارا تھا، سو میں نے اس انتظار کو محبت کا نام دے دیا۔ میرا انتظار محرم رہے، میرا اپنا رہے۔ وہ انتظار محبت کا روپ دھار گیا۔
ایک پوہ بہت طوفان آیا، بارش آندھی بھی خوب چلی۔ ٹاہلی پہ ایک آہلنے میں بوٹ اکیلا تھا، جو طوفان کے تھپیڑے برداشت نہ کر سکا اور وہ زمین پہ گر گیا۔ اس کی ماں اسے واپس آہلنے لے جانے سے قاصر تھی یا انکاری، یہ تو نہیں معلوم، مگر وہ بےآسرا بوٹ وہیں پڑا رہا، ٹھٹھرتا، بھوکا، جاں بلب۔
تم اپنے دھیان چل رہے تھے کہ تمہیں ٹھوکر لگی اور تمہارا دھیان اس بوٹ پر گیا۔ تم نے اسے ہاتھوں میں اٹھا لیا۔ اپنے ہاتھوں کی حدت سے اسے سکون بخشا، اناج کھلایا اور آسرا دیا۔ ابنِ مریم کا سا معجزہ تھا، جان عطا کرنے والا۔ جونہی وہ بوٹ زمین پہ رکھا تو اس نے اپنی زندگی کی پہلی پرواز بھری، آسمانوں میں۔ اب وہ آہلنے کا محتاج نہ رہا تھا اور پھر اس پہ تمہاری ثنا پڑھنی لازم ٹھہر گئی۔ دوبارہ زندگی میں ملاقات کا امکان نہ تھا، سو اس نے اپنے گیتوں میں تم سے ملاقاتیں کرنے کا عہد کیا اور تم اس کے سینے میں گیت بن گئے۔ یہ گیت تمہاری محبت تھی، تمہاری محبت میرا گیت تھی۔
یومِ الست کو جب تم سے رب نے اپنے ہونے کی گواہی مانگی تو تم نے کوئی جواب نہ دیا۔ دوبارہ سوال ہوا تو ایک آنسو تمہارے گال پہ لڑھک آیا۔ آخری مرتبہ سوال ہوا تو تم نے دیوانہ سا جواب دیا، جا جا اپنا کام کر۔ یہ تمہارا محبت سے محرومی کا گلہ تھا۔ تم کافر ٹھہرے تھے۔ اس جہان میں میری تلاش وہ کافر تھا، جو روز اول سے بے محبتا ہونے پہ معتوب ٹھہر گیا تھا یا معتوب ہونے پہ شاید بےمحبتا ٹھہر گیا تھا۔
ایک روز عصر کی زرد دھوپ میں ایک دیوانہ بھکاری نظر آیا۔ یہ وہی معزول تھا، نامراد اور بدبخت۔ اب اس کے جسم پہ پھوڑے بن آئے تھے، جن سے پیپ رس رہی تھی۔ زخموں پہ مکھیاں بیٹھی تھیں، جنہیں وہ اڑا بھی نہ رہا تھا۔ جھولی میں دھرے ہاتھ مگر وہ بھیک نہ مانگ رہا تھا اور میں نے اسے پہچان لیا۔ یہ وہی تھا، بےمحبتا۔
جب الست کے دن میری باری آئی تھی تو کاتب نے میرے ہاتھ محبت کا نسخہ تھما دیا تھا، اس کی دوا کرنے کو۔ میں وہیں بیٹھی رہی، اپنی جھولی میں سر دیے، لاکھ احتجاج کرتی کہ مسیحا نہ کرو مگر میری ایک نہ سنی۔
اس جہان میں تم سے مل لی، تمہارا دوا دارو کر دیا، تم شفایاب ہو گئے۔ میں نے الست سے لے کر اب تک صدیوں کی محبت دنوں میں کی اور دہائیوں کی قربت چند ساعتوں میں طے کی۔
برسوں کی بےتکلفی چند پلوں میں پائی اور کچھ ہی دنوں میں ان گنت قہقہوں سے جھولی کو بھر لیا۔
تم اٹھ کھڑے ہوئے، پھر سے نامراد ہونے کو اور میں وہیں اندھیری گلی میں بیٹھی رہ گئی، اپنا نسخہ لیے کہ پھر ملو تو مسیحائی کر سکوں۔
اس مسیحائی کو محبت کا رتبہ ملا۔ مگر یہ شاید تمہارے سوال کا جواب نہیں۔ جواب نے ہزار چکر کاٹ کر بھی ایک سوال کو ہی کندن کیا کہ تم سے محبت کیوں ہے؟
تحریر: خدیجہ اعظم