ایران کے دارالحکومت تہران میں واقع تعلیمی جامعات میں دوبارہ مظاہروں کا آغاز ہوا تو ایرانی پاسداران انقلاب نے طلبہ و طالبات کا محاصرہ کرنے کے لیے کارروائی کا آغاز کیا۔سوشل میڈیا پر جاری ہونے والی رپورٹس میں پاسداران انقلاب کے مسلح اہلکار طلبہ پر حملہ کرتے ہوئے واضح نظر آتے ہیں۔
ایران کے انٹرنیشنل نیٹ ورک کے مطابق سکیورٹی نے دارالحکومت کی سوہنک یونیورسٹی کو بھی گھیرے میں لے لیا۔ اس پرطلبا کو شہریوں اور اپنے خاندانوں کو آکر محاصرہ توڑنے کی درخواست کرنا پڑی۔
تہران یونیورسٹی کے کالج آف ٹیکنالوجی میں مظاہرین نے ایران کے سپریم لیڈر خامنہ ای کے خلاف نعرے بازی کی۔ "فالج زدہ ہاتھ کا مالک ، شیراز حملے کا ذمہ دار اور مقتولین کا قاتل جیسے نعرے سنائی دیے۔
دریں اثناء دارالحکومت کی امیر کبیر یونیورسٹی میں مظاہرے پھوٹ پڑے اور مظاہرین نے خامنہ ای کے خلاف نعرے بھی لگائے۔ کرج کی الخوارزمی یونیورسٹی میں بھی طلباء نے مظاہرہ کیا۔
شمال مشرقی شہر مشہد میں بھی صورتحال مختلف نہیں ہے، جہاں پاسیج فورسز اور شہری لباس میں ملبوس سکیورٹی فورسز نے فردوسی یونیورسٹی کے طلباء پر حملہ کیا۔ یہ یونیورسٹی حکومت کے خلاف طلباء کے احتجاج کا مرکز رہی ہے۔
ناروے میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم "ہینکاؤ” کے مطابق ایران سکیورٹی فورسز نے کردستان یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز کے طلباء کی قریبی رہائش گاہ پر فائرنگ کی۔ اس کے علاوہ، سنندج (مغربی) میں کوتھر ہسپتال کے باہر جمع ہونے والے درجنوں لوگوں پر گولیاں چلائی گئیں جو دیواندرا میں محسن محمدی نامی ایک شہری کے چہلم پر جمع تھے۔اس موقعے پرمظاہرین نے "آمر مردہ باد” کے نعرے لگائے۔
ایران کی انسداد فسادات پولیس نے 28 سالہ محمدی کو 19 ستمبر کو دیواندرا شہر میں ہونے والے مظاہروں کے دوران گولی مار کر زخمی کردیا تھا۔ اگلے دن وہ کوثر اسپتال میں دم توڑ گیا تھا۔