اپنی مصروفیت کی وجہ سے میں کل سینیٹر اعظم سواتی کی پریس کانفرنس نہ دیکھ سکا۔ کافی دیر بعد سوشل میڈیا دیکھا اور اُن کو روتے ہوئے اپنی روداد سناتے سنا تو جیسے دل بیٹھ گیا۔ جو کچھ انہوں نے کہا وہ کسی بھی فرد کو افسردہ اور رنجیدہ کرنے کیلئے کافی تھا۔
اُن کا کہنا تھا کہ نامعلوم نمبر سے اُن کی بیٹی کو سواتی صاحب کی اپنی اہلیہ کے ساتھ ذاتی ویڈیو بھیجی گئی۔بعد ازاں ایف آئی اے کی طرف سے کہا گیا کہ جس ویڈیو کی سواتی صاحب بات کر رہے ہیں وہ جعلی ہے اور اُسے کسی نے جعلی طور پر بنا کر ڈارک ویب پر ڈالا ہے۔ سواتی صاحب پہلے ہی ایک سنگین الزام لگا رہے ہیں کہ حال ہی میں گرفتاری کے دوران اُن کو برہنہ کیا گیا،اس معاملے کی بھی تحقیقات ہونی چاہئیں۔
سوشل میڈیا پر ہی کچھ لوگوں نے اعظم سواتی صاحب کے ایک پرانے انٹرویو کے اس حصہ کو چلایا، جس میں وہ مریم نواز صاحبہ کے اس الزام پر کہ’’ اُن کی قید کے دوران اُن کی چھپ کر ویڈیوز بنائی گئیں‘‘ کہہ رہے تھے کہ مریم نواز جھوٹ بولتی ہیں، اُنہیں یہ الزام لگانے پر شرم آنی چاہئے، یہ بکواس ہے۔ سواتی صاحب نے مریم صاحبہ کے لئے’بدکردار‘ کا لفظ بھی استعمال کیا۔
ممکن ہے اب سواتی صاحب ایسی بات اپنے مخالفین کے متعلق نہیں کریں گے کیوں کہ مبینہ طور پر اُن پر جوگزری ہے وہ انتہائی قابلِ افسوس اور قابلِ مذمت ہے۔ ایجنسیوں کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ اُن کے پاس کئی سیاستدانوں، ججوں وغیرہ کی متنازعہ ذاتی ویڈیوز موجود ہیں۔ اُن پر یہ بھی الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ ایسی ویڈیوز بنواتی بھی ہیں تاکہ ضرورت کے وقت اُنہیں استعمال کیا جا سکے۔
دینی لحاظ سے یہ بڑے گناہ کا کام ہے جب کہ ویسے بھی یہ انتہائی غیر اخلاقی کام ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ سیاست سے باہر نکلنے کی کوشش میں ہے، یہ ضروری ہے کہ ہماری ایجنسیاں بھی اپنا قبلہ درست کریں اور کسی ایسے اقدام میں شامل نہ ہوں جو غیر قانونی ہو، غیر اخلاقی ہو اور گناہ کا کام ہو۔
ویسے بھی پاکستان کو کئی اندرونی اور بیرونی سازشوں اور خطرات کا سامنا ہے جس کیلئے ہماری ایجنسیوں کی پوری توجہ اپنے اصل کام کی طرف ہونی چاہئے۔ سیاستدانوں اور حکمرانوں کو بھی سبق سیکھنا چاہئے، جو حکومت میں تو ان ایجنسیوں سے اپنے اپنے سیاسی مفادات کے لئے کام لیتے ہیں لیکن اپوزیشن میں جا کر یا حکومت سے باہر نکلنے کے بعد اُن کے ایسے کاموں پر تنقید شروع کردیتے ہیں، ایسا نہیں ہونا چاہئے۔
اخلاقی اقدار کی حفاظت سب پر لازم ہے۔یہ نہیں ہونا چاہئے کہ اپنے مخالف کے متعلق تو غیر اخلاقی عمل پر خاموش ہو جائیں یا اُسے جھوٹ اور بکواس گردانیں اور جب اپنےیا اپنے کسی ساتھی کے ساتھ ایسا ہو تو اُسے بُرا سمجھا جائے اور اُس پر آواز اُٹھائی جائے۔ پاکستان کو اپنی سمت درست کرنی ہے تو اپنے اخلاقی معیار اور کردار کو بہتر بنانا پڑے گا۔ بُرائی کو بُرائی جاننا ہو گا اور اگر ہمارے ادارے ایسے کام میں ملوث ہیں تو اُنہیں ایسے عمل سے باز رکھنے کے لئے سب کو مل کر ایک ہی پالیسی پر عمل پیرا ہونا ہو گا۔
ہماری ایجنسیاں اگرچہ سیاسی اور دوسرے متنازعہ معاملات کی وجہ سے بدنام ہیں لیکن اُن کا پاکستان کی سکیورٹی اور تحفظ، دشمن ممالک کی سازشوں کو کچلنے اور دہشت گر دی کے خاتمہ کے لئے کردار ناقابلِ فراموش ہے۔ ہماری ایجنسیوں کے کئی اہلکاروں نے ملک کی سلامتی اور سکیورٹی کےلئے اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا۔ یہ پاکستان، ہمارے اداروں، سیاست اور ایجنسیوں کے اپنے مفاد میں ہے کہ ہم ان اداروں کو اُس متنازعہ کردار سے باز رکھیں جو اُن کی بدنامی کا باعث بننے کے ساتھ ساتھ سیاست، حکومت اور پاکستان کو نقصان پہنچاتا ہے۔
تحریر: انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ