یہ چند سطور مجھے اس لیےلکھنی پڑ رہی ہیں کہ شہریوں کے (بشمول میرے) نقل و حرکت پر رکاوٹیں تھیں، بغیر اجازت میری وڈیو بنائی گئی اور مفروضوں کی بنیاد پر اس پر تشریحات کی گئیں۔
انسانی تکریم اور نقل و حرکت کی آزادی ہر شہری کے بنیادی حقوق ہیں (آئینِ اسلامی جمہوریۂ پاکستان، دفعہ 14 او ر دفعہ15)۔ میں کبھی کسی کو باور نہیں کراتا ہوں کہ میں عدالتِ عظمیٰ کا جج ہوں اور عدالتِ عظمیٰ آتے جاتےمیں عدالتی لباس میں نہیں ہوتا اور نہ ہی میرے ساتھ کوئی باوردی سپاہی ہوتا ہے۔ مگر کسی بھی پاکستانی شہری کی طرح اپنے کام کی جگہ تک سہولت کے ساتھ پہنچنا اور اسی طرح گھر واپس جانا میرا بھی بنیادی حق ہے۔
8 نومبر 2022ء کو جب میں صبح عدالتِ عظمیٰ کی طرف جارہا تھا، تو ساری ٹریفک روک دی گئی تھی اور دریافت کرنے پر بتایا گیا کہ "صدر صاحب کےلیے روٹ لگایا گیا ہے”۔ سیکڑوں گاڑیاں روکی گئیں، جن میں یقیناً ہزاروں افراد تھے۔ صبح کے وقت یہ سارے لوگ اپنے دفاتر، کاروبار، تعلیمی اداروں، ہسپتال یا دیگر ضروری کاموں کےلیے جارہے ہوں گے۔ مجھے یہ دیکھ کر نہایت افسوس ہوا کہ ایسا اسلامی جمہوریۂ پاکستان میں ہورہا ہے جس کے آئین میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حکمرانی کا اقرار کیا جاتا ہے اور جس کا مقصدِ وجود بانیِ پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح نے یوں بیان کیا تھا:
"ہماری اپنی ریاست ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ جس میں ہم آزاد لوگوں کی طرح جی سکیں اور سانس لے سکیں۔۔۔ اور جہاں اسلامی سماجی عدل کے اصولوں پر آزادی سے عمل ہو۔”
اور مزید فرمایا تھا:
"ہمیں اپنی ساری توجہ مکمل طور پر لوگوں، اور بالخصوص غریبوں کی بھلائی پر مرکوز کرنی چاہیے۔”
عدالتِ عظمیٰ میں تقریباً 10 گھنٹے کام کرنے کے بعد کل شام جب میں حسبِ معمول اپنی رہائش گاہ کی طرف پیدل روانہ ہوا اور ہمیشہ کی طرح ایک عام شہری کی حیثیت سے سادہ لباس میں تھا (نہ کالا کوٹ اور نہ کالی ٹائی) اور کسی باوردی سپاہی کو ساتھ لیے بغیر تو میں نے دیکھا کہ شاہراہِ دستور کی دائیں طرف کی سڑک بند کردی گئی تھی کیونکہ کچھ درجن سرکاری ملازمین احتجاج کررہے تھے؛ اور بائیں طرف کی یک طرف سڑک کو دو طرفہ بنادیا گیا تھا، مگر اس دو طرفہ سڑک میں بھی بہت ساری گاڑیاں، جن میں اکثریت سرکاری گاڑیوں کی تھی (جیسا کہ ان کے نمبر پلیٹ سے ظاہر تھا) دونوں طرف کی پیلی لکیروں پر پارک کی گئی تھیں حالانکہ پیلی لکیروں پر پارکنگ ممنوع ہے۔ میں نے ایک شہری کی حیثیت سے ڈی آئی جی آپریشنز اور ڈپٹی کمشنر جو موقع پر موجود تھے، سے دریافت کیا کہ انھوں نے اپنی اور دوسروں کی گاڑیوں کو غیر قانونی طور پر کیوں پارک کیا ہے جبکہ اس سے عوام الناس کی نقل و حرکت میں مزید دشواری پیش آرہی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے لوگوں پر راستے تنگ کرنے یا بند کرنے سے منع فرمایا تھا اور اسے شیطانی عمل قرار دیا تھا۔ شاہراہ اور سڑکوں کی بندش سےشہریوں کے بنیادی حقوق کی پامالی پر عدالتِ عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا:
"۔۔۔ سڑکوں کی بندش سے شہریوں کا حقِ نقل و حرکت معطل ہوجاتا ہے (جس کی ضمانت آئین کی دفعہ 15 نے دی ہے) اور ان کے اس حق کا نفاذ ضروری ہے۔ جب طلبہ سکولوں اور تعلیمی اداروں کو نہیں جاسکتے، تو ان کے حقِ تعلیم (جس کی ضمانت آئین کی دفعہ 25A نے دی ہے) کا نفاذ ضروری ہوجاتا ہے۔ جب مقدمے کے فریقوں کی عدالتوں تک رسائی روک دی جاتی ہے، تو منصفانہ سماعت اور ضروری قانونی کارروائی کے متعلق ان کے حق( جس کی ضمانت آئین کی دفعہ 10A نے دی ہے) کا نفاذ ضروری ہوجاتا ہے۔ لوگوں کوگالی دینے، انھیں دھمکی دینے اور ان پر حملہ کرنے سے ان کی "باعزت” زندگی (جس کی ضمانت آئین کی دفعہ 14 (1) نے دی ہے) کا حق بے معنی ہوجاتا ہے جس کا نفاذ ضروری ہے۔جب دکانیں اور کاروبار زبردستی بند کیے جاتے ہیں ، جب لوگ اپنے کام پر جا نہیں سکتے، جب روزانہ دیہاڑی پر کام کرنے والے غریب محنت کشوں کو سامانِ زندگی حاصل کرنے کے موقع سے محروم کیا جاتا ہے، تو ان کا کام کرنے کا حق (جس کی ضمانت آئین کی دفعہ 18نے دی ہے) نافذ کرنا ضروری ہے۔ جب املاک کو نقصان پہنچایا جاتا ہے یا برباد کیا جاتا ہے، تو مال کی ملکیت اور اس سے فائدہ اٹھانے کے حق (جس کی ضمانت آئین کی دفعہ 23 نے دی ہے) کا نفاذ ضروری ہوجاتا ہے۔”
"دوسروں کے بنیادی حقوق متاثر کرکے اجتماع کا حق، انجمن سازی کا حق اور اظہارکی آزادی کا حق استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ اجازت حاصل کیے بغیر سڑکوں پر عوامی اجتماعات منعقد نہیں کیے جاسکتے۔ نہ ہی کسی سڑک کو کیمپ کی جگہ کےلیے یا غیر معینہ مدت تک جمع ہونے کےلیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ سڑکیں گاڑیوں کے استعمال کےلیے اور گزرگاہیں پیدل چلنے والوں کے استعمال کےلیے ہیں تاکہ لوگوں کو نقل و حرکت میں آسانی ہو، جو ایک بنیادی حق ہے۔”
اس فیصلے میں عدالتِ عظمیٰ نے جو حکم جاری کیا، اس میں یہ بھی کہا کہ:
"ہر شہری اور سیاسی جماعت کو اجتماع اور احتجاج کا حق ہے بشرطیکہ یہ اجتماع اور احتجاج پُر امن ہو اور قانون، جس نے عوامی مفاد میں مناسب قیود عائد کیے ہوں،اس کے مطابق ہو ۔ اجتماع اور احتجاج کے حق پر صرف اس حد تک ممانعت ہے کہ اس سے دوسروں کی نقل و حرکت کی آزادی اور مال کی ملکیت اور استعمال کے حق سمیت بنیادی حقوق متاثر نہ ہوں۔ "
"وہ مظاہرین جو لوگوں کےلیے سڑکوں کے استعمال کرنے کے حق میں رکاوٹ ڈالیں یا املاک کو نقصان پہنچائیں، ان کے خلاف قانون کے تحت کارروائی اور ان کو جواب دہ ٹھہرانا لازمی ہے ۔ "
رسول اللہ ﷺ جب اپنے صحابہ کے ساتھ بیٹھتے تھے تو ان کی کوئی مخصوص جائے نشست نہیں تھی جس سے ان کو پہچانا جاتا، نہ ہی وہ دوسروں سے بلندی کی جگہ پر بیٹھتے تھے جس سے ان کا رتبہ ظاہر ہو اور اس وجہ سے کسی اجنبی کو یہ معلوم نہ ہوپاتا کہ ان میں اللہ کے رسول کون ہیں اور ان کے صحابی کون ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خصوصی یا امتیازی سلوک (پروٹوکول) کو پسند نہیں کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ اپنے لیے خصوصی سواری کا انتظام بھی نہیں کرتے تھے بلکہ وہی کچھ استعمال کرتے تھے جو آپ کے صحابہ کےلیے بھی دستیاب ہوتا تھا۔ جب ایک اونٹ کو تین افراد کےلیے استعمال کرنے کا فیصلہ ہوا، تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے اونٹ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت مَرثَد رضی اللہ عنہ کے ساتھ شریک کیا جس پر باری باری تینوں سواری کرتے، حالانکہ ان دونوں نے کہا بھی کہ وہ جوان ہیں اور آسانی سے پیدل چل سکتے ہیں، لیکن آپ نے نہیں مانا۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی اس سنت پر آج غیر مسلم ممالک میں تو عمل ہوتا ہے لیکن اسلامی جمہوریۂ پاکستان میں اس پر عمل نہیں ہوتا اور بے پناہ خصوصی پروٹوکول دیا جاتا ہے جس میں زیادہ ایندھن جلانے والی بکتر بند گاڑیوں کے علاوہ اسلحے سے لیس محافظین کا قافلہ بھی شامل ہوتا ہے مگر اس کے باجود عوام کو دور رکھنے کےلیے روٹ لگایا جاتا ہے اور عوامی راستے بند کردیے جاتے ہیں خواہ عام شہریوں کو بہت زیادہ تکالیف اٹھانی پڑیں۔
ہمارا ا آئین اگر ایک طرف شہریوں کےلیے بنیادی حقوق کا تحفظ یقینی بناتا ہے تو دوسری طرف ہر شہری پر آئین اور قانون پر عمل کرنے کی ذمہ داری بھی عائد کرتا ہے (دفعہ 5)۔ ریاست کی صرف یہ ذمہ داری نہیں کہ وہ مظاہرین کے اجتماع کو آسان بنائے اور آئینی و سرکاری عہدے داروں کا تحفظ کرے، بلکہ ہر شہری کے حقوق کا تحفظ اس کی اولین اور بنیادی ذمہ داری ہے اور ایسا کرنا شہریوں پر احسان نہیں۔ آخر شہریوں کے خون پسینے کی کمائی ہی سے حاصل ہونے والے ٹیکس کی رقم سے یہ ملک چلتا ہے اور آئینی عہدے داروں اور سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بھی دی جاتی ہیں۔
اختتام میں قرآن مجید کی یہ آیت یاد دلانا مناسب ہوگا: وَعِبَادُ ٱلرَّحۡمَٰنِ ٱلَّذِينَ يَمۡشُونَ عَلَى ٱلۡأَرۡضِ هَوۡنٗا (اور الرحمان کے بندے وہ ہیں جو زمین پر عاجزی اور انکساری سے چلتے ہیں)۔