ایک ایرانی جنرل نے پیر کے روز یہ بات تسلیم کرلی ہے کہ ایران میں ہونے والے مظاہروں میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 300 سے زیادہ ہے۔ گذشتہ دو ماہ میں ہونے والی ہلاکتوں کے بارے ایرانی فورسز کی طرف سے جاری کیا جانے والا یہ پہلا باضابطہ بیان ہے جس میں ہلاکتوں کی تصدیق کی گئی ہے۔
یاد رہے کہ ایرانی جنرل کی طرف سے ہلاکتوں بارے بتائی گئی تعداد ایران میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی طرف سے بتائی جانے والی تعداد سے کافی کم ہے۔ امریکہ میں مقیم انسانی حقوق کی ایک تنظیم سے تعلق رکھنے والے ایرانی کارکنوں کا کہنا ہے کہ بدامنی کے آغاز سے لے کر اب تک 451 مظاہرین اور 60 سیکیورٹی فورسز کے افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور 18000 سے زائد ایسے افراد ہیں، جنہیں ایرانی فورسز نے اپنی حراست میں لے رکھا ہے۔
ایران میں حالیہ بدامنی کا آغاز 22 سالہ مہسا امینی کی موت کے بعد شروع ہوا، جسے اسلامی جمہوریہ ایران کے لباس سے متعلق سخت احکامات کی خلاف ورزی کے پیش نظر حراست میں لیا گیا تھا۔ مہسا امینی کی پولیس حراست میں ہلاکت کے بعد ایران کی مذہبی حکومت کے خاتمے کے لیے مظاہرین نے احتجاج شروع کیا جو 1979 کے خمینی انقلاب کے بعد سب سے بڑا احتجاج اور حکومت کو درپیش سب سے بڑے چیلنج کے طور پر سامنے آیا ہے۔
پیرا ملٹری ریولوشنری گارڈ کے کمانڈر جنرل امیر علی حاجی زادہ نےگذشتہ روز ایک نیوز ویب سائٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے 300 سے زائد افراد کے مارے جانے کا اعتراف کیا، جن میں بعض لوگوں کو وہ "شہید” قرار دیتے ہیں، جس کا بظاہر مطلب یہی ہے کہ مارے جانے والے 300 افراد میں بعض سیکورٹی فورسز کے لوگ بھی شامل ہیں۔ جنرل امیر علی حاجی زادہ نے بہت سے ایسے افراد کے مارے جانے کا اعتراف بھی کیا ہے جو احتجاج میں شامل نہیں تھے۔ مذکورہ اعداد و شمار کا یہ تخمینہ کیسے لگایا گیا، اس بارے کچھ نہیں بتایا گیا۔
یاد رہے کہ ایرانی حکام نے مظاہروں کی میڈیا کوریج پر سختی سے پابندی عائد کر رکھی ہے جبکہ سرکار کے زیر اثر میڈیا ہلاک ہونے والوں کی مجموعی تعداد بارے کوئی ذکر نہیں کرتا۔ سرکاری میڈیا سیکورٹی فورسز پر ہونے والے حملوں کو زیادہ کور کرتا ہے ، جن کا ذمہ دار مظاہرین، عسکریت پسندوں اور علیحدگی پسند گروہوں ٹھہرایا جاتا ہے۔
جنرل حاجی زادہ نے مظاہرین پر الزام عائد کیا ہے کہ انہیں ایران کے دشمنوں بشمول مغربی ممالک اور سعودی عرب کی پشت پنای حاصل ہے۔ جبکہ مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ کئی دہائیوں کے سماجی اور سیاسی جبر کے خلاف میدان میں نکلے ہیں اور ان کے پیش نظر کوئی غیر ملکی ایجنڈا نہیں ہے۔
دو ماہ قبل ایرانی حکومت کے خلاف تہران میں شروع ہونے والے مظاہرے اب پورے ملک میں پھیل چکے ہیں۔ مظاہرین کو سول سوسائیٹی، ملکی فنکاروں، کھلاڑیوں اور دیگر عوامی شخصیات کی حمایت حاصل ہے۔
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی نواسی فریدہ مرادخانی نے گرفتاری کے دو دن بعد جاری کیے گئے ایک ویڈیو بیان میں غیر ملکی حکومتوں سے ایرانی حکومت سے تعلقات منقطع کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کے بھائی محمود مرادخانی کی ایک ٹویٹ کے مطابق، ایرانی حکومت کے خلاف انسانی حقوق کی ایک معروف کارکن فریدہ مرادخانی کو بدھ کے روز اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ عدالتی حکم کی تکمیل کے لیے پراسیکیوٹر کے دفتر گئی تھیں۔ دو دن بعد اپنے بھائی کی طرف سے شیئر کیے گئے ایک ویڈیو بیان میں، فریدہ مرادخانی نے دنیا بھر کے لوگوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی حکومتوں پر زور دیں کہ وہ ملک میں پھیلنے والے مظاہروں کے درمیان ایرانی حکومت کے ساتھ تعلقات منقطع کریں، اور اپنی حکومتوں سے کہیں کہ وہ "اس حکومت کے ساتھ کسی بھی قسم کا لین دین بند کریں۔ ”
دنیا بھر میں لوگ اپنی حکومتوں پر زور دیں کہ وہ ایران سے تعلقات ختم کریں۔ فریدہ مراد خانی
مہسا امینی کے قتل کے بعد شروع ہونے والے مظاہرے اب تیسرے مہینے میں داخل ہوچکے ہیں۔ ایرانی فورسزکی طرف سے مظاہرین کے خلاف گولہ بارود، ربڑ کی گولیوں اور آنسو گیس کا بے دریغ استعمال کیا جارہا ہے مگر ایرانی حکومت مشتعل مظاہرین پر قابو پانے میں ناکام ہے۔ ایران نے فیکٹ فائنڈنگ مشن کے ساتھ تعاون کرنے سے بھی انکار کر دیا، جسے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے حال ہی میں قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنانی نے پیرکے روز اپنی پریس بریفنگ میں کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اقوام متحدہ کے فیکٹ فائنڈنگ مشن کے ساتھ کسی بھی طرح کا تعاون نہیں کرے گا۔