اپنے پچھلے کالم میں ہم نے مختصراً چھ ایسی اکائیوں ،مسلسل بڑھتی آبادی کی روک تھام، مقامی حکومتوں کی خودمختاری، مالیاتی اور شرح مبادلہ کی پالیسیوں میں تبدیلی جن کے نتیجے میں بجٹ کا خسارہ کم اور کرنٹ اکاؤنٹس متوازن ہوسکیں، درآمدات کی بجائے برآمدات کو فروغ دینے کے لیے پالیسی کی تشکیل اور آخر میں زرعی پیداوار میں بہتری جو دیہی غریبوں کی آمدنی میں اضافہ کرتی ہے، کا ذکر کیا تھا جو ایک نئے سماجی معاہدے کی بنیاد بن سکتی ہیں۔
میرے نزدیک ترقی کے ضروری ستونوں میں سے چھٹا اور آخری ستون ہمارا تعلیمی نظام ہے۔ سب سے پہلے ہم یہاں اعدادوشمار کی مدد سے خواندگی اور تعلیم کی ابتر حالت کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
وفاقی اور صوبائی حکومتیں تعلیم پر سالانہ ایک ہزار ارب روپے تقریباً خرچ کرتی ہیں۔ یہ وفاقی حکومت کو چلانے کے لیے آنے والی لاگت سے دوگنا زیادہ بجٹ ہے۔ یہ ملکی دفاع پر خرچ ہونے اور قرضوں کی ادائیگی کے لیے مختص رقم کے بعد سب سے بڑا بجٹ ہے۔ یاد رہے کہ یہ صرف پبلک سیکٹر نظام تعلیم کے اخراجات ہیں، پرائیوٹ سطح پر قائم اداروں کے اعداد و شمار الگ ہیں مگر ان تمام اخراجات سے ہمیں حاصل کیا ہورہا ہے؟ کچھ بھی نہیں۔
بدقسمتی سے، آزادی کے 75 سال گزر جانے کے بعد بھی ہر دس پاکستانیوں میں سے چار افراد ناخواندہ ہیں، جو تنگی اور غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ خواندگی کی شرح بہتر ہونے کی بجائے مسلسل تنزلی کا شکار ہے۔
2020 میں، ہمارے پرائمری اسکولوں میں داخلے کی شرح صرف 64 فیصد تھی جبکہ 2015 میں 67 فیصد تک تھی۔ پنجاب اور بلوچستان نے بالترتیب 70 فیصد اور 56 فیصد پر اپنا تناسب برقرار رکھا۔ سندھ کا تناسب 61 فیصد سے کم ہو کر 55 فیصد اور کے پی کا تناسب (سابقہ قبائلی ایجنسیوں کو چھوڑ کر) 71 فیصد سے کم ہو کر 66 فیصد رہ گیا۔ سکول جانے کی عمر کو پہنچنے والے بچوں میں سے آدھے بچے اب بھی سکول نہیں جاپارہے۔ پنجاب میں سرکاری سکولوں میں زیر تعلیم بچوں پر فی کس سالانہ تقریباً 31,000 روپے خرچ ہوتے ہیں، کے پی میں 38,000 روپے، سندھ میں 40,000 روپے اور بلوچستان میں 61,000 روپے خرچ ہوتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ اتنے سارے پیسے خرچ کرنے کے بعد ہمیں کیا ملتا ہے؟
آغا خان یونیورسٹی سے جاری ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان بھر کے سکولوں میں زیر تعلیم ہمارے بچے سائنس اور ریاضی کے آسان سوال کا جواب دینے سے بھی گھبراتے ہیں۔ صرف پانچ فیصد بچے ایسے ہیں جو ریاضی اور دس فیصد ایسے ہیں جو سائنس میں کچھ مناسب کارکردگی دکھاپاتے ہیں۔ پانچویں کلاس میں پڑھنے والے زیادہ تر بچے ایسے ہیں جو حساب کتاب میں پہلی کلاس کے بچوں جیسے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پانچ سال سکول جانے کے بعد بھی وہ بچے ناخواندہ ہی ہیں۔ اس لیے اگر سچ کہا جائے تو تعلیم پر جو رقم ہم خرچ کرتے ہیں اس سے ہمیں کچھ نہیں ملتا۔
یہ کہنا درست ہے کہ صوبائی وزارت ہائے تعلیم – خاص طور پر سندھ اور بلوچستان میں – بچوں کو تعلیم دینے کے لیے قائم نہیں کی گئی ہیں، بلکہ ان کا بنیادی مقصد اساتذہ کو ملازمتیں فراہم کرنا اور منتظمین کو فائدہ پہنچانا ہے۔ تعلیم تو محض ایک ضمنی پیداوار ہے۔
اگرچہ ہم تعلیم پربہت زیادہ خرچ نہیں کررہے، لیکن موجودہ نظام تعلیم کے تحت کوئی بھی رقم ہمارے تعلیمی نتائج کو بہتر نہیں کر سکتی۔ پاکستان میں تعلیمی نتائج کو اگر بہتر بنانا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے ہاں رائج نظام تعلیم کو نئے سرے سے تعمیر کریں۔
جس حد تک ممکن ہوسکے، ہمیں اپنے تعلیمی اداروں کو پرائیوٹائز کردینا چاہیے اور والدین کو سکول چلانے میں معاونت کا مکمل اختیار دینا چاہیے۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام غریب بچوں کی تعلیم کے لیے فنڈز مہیا کرے۔ یہ پاکستانی شہریوں کا بنیادی حق ہے۔ اس معاملے میں بہت سے مختلف نقطہ ہائے نظر سامنے آسکتے ہیں ۔ میرے خیال میں ہمیں ہر غریب بچے کو کم از کم خرچ والے پرائیویٹ سکول میں داخلے اور وہاں تعلیم کے لیے ایک واؤچر فراہم کرنا چاہیے۔
تمام پرائیویٹ اسکولوں کے لیے لازمی قرار دیا جائے کہ وہ ایک ایڈوائزری بورڈ تشکیل دیں جس میں والدین کی نمائندگی کو یقینی بنایا جائے۔ دیہی علاقوں میں جہاں پرائیویٹ اسکول نہیں ہیں، وہاں سرکاری اسکولوں کو والدین اور مقامی عمائدین پر مشتمل ایک اسکول بورڈ بنانے کا حکم دیا جانا چاہیے۔ اس سے زیادہ ضروری اقدام یہ ہے کہ ان سکولوں کی ممکنہ حد تک مالی امداد جاری رکھنی چاہیے۔
ہر اسکول کو اپنے اساتذہ کی تعیناتی اور برطرفی کا مکمل حق ہونا چاہیے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ ہمارے پاس ایسے اساتذہ کی کھیپ آئے گی جودرحقیقت تعلیم کے لیے اہل اور ذمہ دار ہوں گے، یوں ہمارے بچے اچھے تعلیم یافتہ ہوپائیں گے۔
اسی پر بس نہیں، ہمیں اپنے تعلیمی اخراجات کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے، یہ دیکھتے ہوئے کہ ہم وسائل سے محروم اور ایک غریب ملک ہیں۔ میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ اے لیول کے صرف 30,000 یا اس سے زیادہ بچے مناسب تعلیم حاصل کرپاتے ہیں اور عالمی سطح پر مقابلہ کرنے کے قابل ہوپاتے ہیں۔ مگر یہ سب سے ذہین بچے نہیں ہوتے، صرف خوش قسمت ہوتے ہیں۔ یقیناً ان میں سے چند ایک ذہین بچوں میں بھی شامل ہوں گے، جیسا کہ ہارورڈ کے پروفیسر عاصم خواجہ، پرنسٹن کے پروفیسر عاطف میاں اور ایم آئی ٹی کے پروفیسر نرگس ماول والا، لیکن ان میں سے آدھے سے بھی زیادہ اوسط درجہ کی قابلیت سے کم ہوں گے۔
جس طرح اشرافیہ اپنے بچوں (خاص طور پر لڑکوں) کو اچھی تعلیم دلوانے کا اہتمام کرتی ہے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ ان کے خاندان کے مستقبل کے لیے ایک بہت بڑی سرمایہ کاری ہے، اسی طرح ہمیں بحیثیت قوم تشخیصی ٹیسٹ کروانے اور آٹھویں جماعت کے سب سے ذہین طالب علموں کو چننے اور انہیں تعلیم دینے کے لیے اچھا کرنے کا عزم کرنا چاہیے۔ بہترین تعلیم ہی بہترین سرمایہ کاری ہوگی جو ہم اپنے مستقبل کے لیے کر سکتے ہیں۔
میرے دوست اور ایک بہترین سرکاری ملازم راشد لنگڑیال نے پورے پاکستان میں خام ٹیلنٹڈ بچوں کو تلاش کرنے اور ہر تحصیل میں دانش نما سکول بنانے کے لیے ایک منصوبہ بنایا ہے، لیکن اپنے محدود وسائل کے پیش نظر ہمیں کم از کم آٹھویں جماعت میں سالانہ 10,000 سے 20,000 منتخب بچوں کو موجودہ بہترین پرائیویٹ اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں بھیجنا چاہیے۔ یہ ہوشیار بچے پھر ایک سمارٹ، اچھی تعلیم یافتہ نسل کی بنیاد بنائیں گے جس پر ہم باقی دنیا کا مقابلہ کر سکیں گے۔
ہم میں سے کچھ دوست اس حقیقت پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ ہماری آئی ٹی برآمدات صرف 3 بلین ڈالر ہیں، جبکہ ہندوستان کی 150 بلین ڈالر ہیں۔ بہت سے تاجر ہماری حکومت سے بہتر مراعات فراہم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں، باوجود اس کے کہ آئی ٹی برآمدات پر ہمارا ٹیکس محصولات کا صرف 0.25 فیصد ہے۔ ہم نے انڈسٹری کو بہت سی دیگر مراعات دی بھی ہیں۔ لیکن مراعات کی کوئی رقم ہمیں آئی ٹی ایکسپورٹ پاور ہاؤس نہیں بنا کے دے سکتی۔ واحد چیز جو آئی ٹی کی برآمدات پیدا کر سکتی ہے، وہ ہے بہتر تعلیم۔ لیکن کیا ہم آئی ٹی یا کسی اور شعبے میں قابل انسانی وسائل پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں؟
بھارت نے 1951 میں اپنا پہلا انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی قائم کیا اور اگلی دہائی میں چار مزید قائم کردیے۔ ان اداروں کو آج دنیا کے بہترین انڈرگریجویٹ تدریسی اداروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف ہم وہ قوم ہیں ، جو اپنی پہلی دہائی میں سات وزرائے اعظم سے گزرے۔
میں ایک پیش گوئی کے ساتھ اپنی بات ختم کروں گا، جو ہمیں ترقی کی راہ دکھا سکتی ہے۔ اگر ہم ایسا نظام وضع کر سکتے ہیں جس کے تحت پاکستان کی شہری کچی آبادیوں یا دیہی علاقوں کی لڑکی بڑی ہو کر پاکستانی یونیورسٹی میں پڑھا سکے اور ریاضی میں فیلڈز میڈل جیت سکے تو ہمیں پھر کبھی غربت یا زرمبادلہ کے ذخائر کی فکر نہیں کرنی پڑے گی۔
ترجمہ و تلخیص : محمد یونس، مدیر: افکار پاک