جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اتوار کو عدالت عظمیٰ کے انتیسویں چیف جسٹس کے طور پر حلف اٹھا لیا ہے اور وہ ایک سال سے زیادہ عرصے تک اس عہدے پر فائز رہیں گے۔صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے ان سے ان کے عہدے کا حلف لیا۔ اس موقع پر ان کی اہلیہ سرینا عیسیٰ بھی ان کے ساتھ موجود تھیں۔پاکستان کی عدلیہ کا حصہ بننے کے چودہ سال بعد وہ سپریم کورٹ کے سب سے بڑے عہدے پر پہنچے ہیں۔ مگر وہ پاکستان کی عدالتی تاریخ کے پہلے جج ہیں جن کی پہلی تعیناتی ہی کسی ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر ہوئی تھی۔
26 اکتوبر سنہ 1959 میں کوئٹہ میں پیدا ہونے والے قاضی فائز عیسیٰ کے والد قاضی محمد عیسیٰ بانی پاکستان محمد علی جناح کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے جب کہ ان کے دادا قاضی جلال الدین ریاست قلات کے وزیر اعظم تھے۔کوئٹہ میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد قاضی فائز عیسیٰ اپنے خاندان کے ساتھ کراچی منتقل ہوگئے۔ وہ ستائیس برس تک شعبہ وکالت سے وابسطہ رہے۔سنہ 1985 میں وہ بہ طور ہائی کورٹ وکیل رجسٹر ہوئے اور سنہ 1998 میں ان کی بہ طور وکیل سپریم کورٹ انرولمنٹ ہوئی۔ اس عرصے کے دوران وہ مختلف عدالتوں میں عدالتی معاون کے طور پر بھی پیش ہوتے رہے۔ جب کہ مختلف معاملات میں بین الاقوامی عدالت انصاف بھی جاتے رہے۔جب سابق فوجی صدر پرویز مشرف کی طرف سے ملک میں لگائی گئی ایمرجنسی کو 2009 میں سپریم کورٹ نے غیر آئینی قرار دیا تو جن ججز نے سابق فوجی صدر کے عبوری آئینی حکم نامے (پی سی او) کے تحت حلف اٹھایا تھا، وہ تمام اپنے عہدوں سے فارغ ہوگئے۔ اس کے نتیجے میں بلوچستان ہائی کورٹ کے تمام ججز کو اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑے۔
یوں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بلوچستان ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنانے کی سفارش کی جسے منظور کر لیا گیا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو 5/ اگست سنہ 2009 کو بلوچستان ہائی کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کر دیا گیا۔ اس طرح ان کی پہلی تعیناتی ہی ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر ہوئی۔ابھی ان کو بلوچستان ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنے ہوئے دو سال کا عرصہ ہی ہوا تھا کہ سنہ 2011 میں سپریم کورٹ کے حکم پر انھیں ’میمو گیٹ‘ کے عدالتی تحقیقاتی کمیشن کی سربراہی سونپ دی گئی۔پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں امریکہ میں پاکستانی سفیر حسین حقانی پر الزام لگا کہ انھوں نے پاکستان میں ممکنہ فوجی بغاوت کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے امریکی انتظامیہ سے سول حکومت کی مدد کی درخواست کی تھی۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں بننے والے اس عدالتی کمیشن نے مئی 2012 میں اس کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروائی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو سنیارٹی کی بنیاد پر پانچ دسمبر سنہ 2014 کو سپریم کورٹ کا جج تعینات کیا گیا۔ ابھی انھیں سپریم کورٹ میں جج تعینات ہوئے دو سال کا عرصہ بھی نہیں گزرا تھا کہ آٹھ اگست سنہ 2016 میں کوئٹہ میں خود کش حملے کی تحقیقات کے لیے ان کی سربراہی میں کمیشن تشکیل دے دیا گیا۔اس خود کش حملے میں درجنوں وکلا ہلاک ہوگئے تھے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی رپورٹ میں اس واقعے کو حکومتِ وقت کی غفلت قرار دیا تھا۔
سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے متعدد سابقہ چیف جسٹسز سے اختلافات رہے ہیں جن کا برملا اظہار وہ اپنے اختلافی نوٹس میں کرتے آئے ہیں، چاہے چیف جسٹس کی جانب سے ازخود نوٹس لینے کا معاملہ ہو یا بینچوں کی تشکیل کے اختیارات۔پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین عابد ساقی کی رائے میں ان اختلافات کی اصل وجوہ کبھی سامنے نہیں آئیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ سابق چیف جسٹس صاحبان ان اختلافات کو ’اصولوں‘ کا نام دیتے رہے ہیں۔عابد ساقی کہتے ہیں کہ ’سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے پشاور میں ایک مقدمے کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو محض اس لیے بینچ سے الگ کر دیا کیوں کہ انھوں نے مفاد عامہ کی تشریح سے متعلق سوال اٹھایا تھا۔‘ جب کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ سے لے کر جسٹس عمر عطا بندیال کے دور میں ’ملٹری اسٹیبلشمنٹ ان کے خلاف تھی۔‘سنہ 2018 میں سپریم کورٹ پشاور رجسٹری برانچ از خود نوٹس سے متعلق معاملے پر اختلاف کے نتیجے میں اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بینچ سے الگ کیا جس پر انھوں نے اختلافی نوٹ لکھا۔وہ چیف جسٹس ثاقب نثار کی طرف سے قائم کردہ ’ڈیم فنڈ‘ کے بھی خلاف تھے جس میں وکلا کو تاخیر سے آنے یا التوا کی تاریخ مانگنے پر جرمانے کیے جاتے اور انھیں کہا جاتا کہ وہ یہ جرمانے ڈیم فنڈ میں جمع کروائیں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کھلی عدالت میں اس ڈیم فنڈ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ’بہتر ہے کہ وکلا جرمانے کی رقم کسی خیراتی ادارے میں جمع کروائیں۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف بیرون ممالک اثاثے ظاہر نہ کرنے سے متعلق صدارتی ریفرنس دائر ہوا۔ریفرنس کے خلاف درخواست میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دعویٰ کیا کہ اس وقت کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سپریم کورٹ کی عمارت کے لان میں ٹہلتے ہوئے انھیں رازداری سے ریفرنس کے بارے میں بتایا جس کا مقصد ’مجھ سے استعفیٰ لینا تھا۔‘اُس وقت کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس پر سماعت کی مگر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس صدارتی ریفرنس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔سپریم کورٹ کے 10 رکنی بینچ کی اکثریت نے اس صدارتی ریفرنس کو مسترد کیا اور سپریم جوڈیشل کونسل کو کارروائی سے روک دیا تھا۔ان کے سابق چیف جسٹس گلزار احمد کے ساتھ بھی مختلف امور پر اختلافات رہے، بالخصوص جب انھوں نے اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے پارٹی ورکروں کا اجلاس کنونشن سینٹر میں بلائے جانے اور ارکان پارلیمنٹ کو فنڈز دینے سے متعلق نوٹس لیا۔ان کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے اس کیس کی سماعت کی تھی۔ بینچ کے دوسرے رکن جسٹس مقبول باقر تھے جو اس وقت سندھ کے نگراں وزیر اعلی ہیں۔جسٹس گلزار احمد نے اس معاملے میں پانچ رکنی بینچ تشکیل دیا اور پہلی ہی سماعت میں اس معاملے کو نمٹاتے ہوئے کہا کہ از خود نوٹس لینے کا اختیار صرف چیف جسٹس کے پاس ہے۔خیال رہے کہ آئین پاکستان کے تحت از خود نوٹس لینے کے اختیارات کے حوالے سے چیف جسٹس کے بجائے سپریم کورٹ کا لفظ درج ہے۔دوسرا حکم یہ دیا گیا کہ آئندہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان سے متعلق کسی درخواست کی سماعت نہیں کریں گے۔
سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے ساتھ تعلقات میں کھچاؤ کا معاملہ صدارتی ریفرنس کے بعد بھی چلتا رہا۔جسٹس عمر عطا بندیال اس 10 رکنی بینچ کی سربراہی کر رہے تھے جس نے صدارتی ریفرنس کے خلاف درخواست کی سماعت کی تھی۔ تاہم اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تقرری کے معاملے پر بھی اختلاف پیدا ہوا۔پی ڈی ایم حکومت کے دور میں پارلیمان نے از خود نوٹس اور بینچوں کی تشکیل کے حوالے سے چیف جسٹس کے اختیارات میں ترمیم کی۔ پریکٹس اینڈ پروسیجرز ایکٹ میں یہ اختیار سپریم کورٹ کے تین سینیئر ججز پر مشتمل ایک کمیٹی کو دیا گیا، جس پر سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے حکم امتناعی جاری کیا۔جسٹس عطا بندیال کے دور میں قائم مقام چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے زیادہ تر اِن چیمبر ہی کام کیا اور بہت کم ایسا ہوا جب وہ کسی بینچ کا حصہ بنے ہوں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اینٹی اسٹیلشمنٹ ہونے کے تاثر کو اس وقت تقویت ملی جب انھوں نے فروری 2017 میں فیض آباد پر تحریک لبیک کی طرف سے دیے گئے دھرنے سے متعلق از خود نوٹس لیا۔اس از خود نوٹس فیصلے میں سپریم کورٹ نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو حکم دیا کہ وہ اپنے ان ماتحت افسران کے خلاف کارروائی کریں جنھوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاسی امور میں مداخلت کی۔اس فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ یہ تاثر نہیں جانا چاہیے کہ فوج کسی جماعت، تنظیم یا سیاست دان کی حمایت کر رہی ہے۔اس فیصلے کے بعد وکلا کے ایک دھڑے اور بالخصوص پنجاب بار کونسل نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا جسے وکلا کی سب سے بڑی باڈی پاکستان بار کونسل نے مسترد کیا۔اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں وزارت دفاع کی طرف سے دائر نظرثانی کی اپیل زیر التوا ہے جو چار سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود سماعت کے لیے مقرر نہیں کی گئی۔
فوج داری مقدمات کی پیروی کرنے والے وکیل افتخار شیروانی کا کہنا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ’اینٹی اسٹیبلشمنٹ نہیں بلکہ آئین اور قانون کی بات کرتے ہیں۔‘انھوں نے کہا کہ ’اگر ان کے آئین اور قانون کے تحت دیے گئے فیصلوں سے ملٹری اسٹیبلشمنٹ ناراض ہوتی ہے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہیں۔‘افتخار شیروانی نے اس کی ایک مثال کچھ یوں دی کہ کوئٹہ کچہری میں خود کش حملے سے متعلق جسٹس قاضی فائز عیسی نے جو رپورٹ تیار کی تھی، اس سے اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار بھی ناخوش ہوئے تھے۔افتخار شیروانی کا کہنا تھا کہ تحریک لبیک کے 2017 کے دھرنے کے وقت کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور موجودہ اسٹیبلشمنٹ میں بڑا فرق ہے۔انھوں نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بہ طور چیف جسٹس بھی آئین اور قانون سے متعلق اپنی رائے کو تبدیل نہیں کریں گے۔ ’وہ آئین اور قانون کے مطابق فیصلے دیں گے، چاہے اس کی زد میں اسٹیبلشمنٹ یا خود اعلیٰ عدلیہ کے ججز ہی کیوں نہ آئیں۔‘
سنہ 2018 کے عام انتخابات کے بعد جب پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آئی اور عمران خان وزیر اعظم بنے تو مئی سنہ 2019 میں جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف بیرون ممالک اثاثے چھپانے کے الزام میں صدارتی ریفرنس دائر کیا گیا۔حکومت گِرنے کے بعد عمران خان نے اس ریفرنس سے متعلق اُس وقت کی فوجی قیادت پر الزام عائد کیا تھا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران دلائل میں کہا تھا کہ فیض آباد دھرنے کا فیصلہ اس کی وجہ بنا۔
20 سال سے زائد عرصے سے سپریم کورٹ کے کیسز کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی ناصر اقبال کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کو بےشمار چیلنجز کا سامنا کرنا ہوگا۔’اس میں سب سے بڑا چیلنج ان کے لیے یہ ہوگا کہ کیا وہ 90 دن میں ملک میں عام انتخابات کروانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔‘انھوں نے کہا کہ ’دوسرا بڑا چیلنج یہ ہے کہ آیا وہ پریکٹس اینڈ پروسیجرز بل پر سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی طرف سے دیے گئے حکم امتناعی کو ختم کرسکیں گے جو کہ چیف جسٹس کے اختیارات کم کرنے سے متعلق ہے۔‘ناصر اقبال کا کہنا تھا کہ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال تو ریٹائر ہو گئے ہیں ’لیکن ان کے ہم خیال جج صاحبان ابھی بھی سپریم کورٹ میں ہیں۔‘انھوں نے کہا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے لیے یہ بھی بڑا چیلنج ہوگا کہ ’وہ کس طرح اس تقسیم کو ختم کریں گے۔‘
جبری طور پر گم شدگی بڑی اہمیت کا حامل مسئلہ ہے اور اس کے علاوہ فوج کے زیر انتظام چلنے والے حراستی مراکز میں سینکڑوں افراد کی موجودگی کا معاملہ بھی کافی عرصے سے زیر التوا ہے۔ ’اب دیکھنا یہ ہوگا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کس طرح ان معاملات کے ساتھ نمٹیں گے۔اکیسویں آئینی ترمیم میں مخصوص مدت کے لیے جب عام شہریوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کا معاملہ سپریم کورٹ میں آیا تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اختلافی نوٹ لکھا تھا کہ کہ ایسا کرنا غیر آئینی ہے۔نو مئی کے واقعات میں ملوث افراد کا مقدمہ فوجی عدالتوں میں چلانے کے خلاف درخواستیں سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہیں۔ ناصر اقبال کا کہنا ہے کہ ’یہ دیکھنا ہوگا کہ اس معاملے پر چیف جسٹس کیا مؤقف اختیار کرتے ہیں۔‘ناصر اقبال کا کہنا تھا کہ ماضی قریب میں جتنے بھی چیف جسٹس صاحبان گزرے ہیں، ان پر جانبداری سمیت مختلف الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔