موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے دنیا کے درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے معاشی مشکلات، بیماریوں میں اضافہ اور کروڑوں انسانوں کے ذرائع معاش کو لاحق خطرات کو نظر انداز کرنا بہت بڑی غلطی ہے۔ اگر صورتحال ایسی ہی رہی تو مستقبل میں دنیا کا ایک بڑا حصہ خصوصاً ترفی پذیر ممالک میں قحط اور بیماریوں کا خدشہ پیدا ہو سکتا ہے اور پھر یقینی طور پر ان ممالک میں حالات سنگین صورت اختیار کر سکتے ہیں جن کے اثرات سے پوری دنیا متاثر ہو گی۔ سوال یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلیاں قدرتی امر ہیں یا یہ انسانوں کی اپنی کارستانی ہے۔اگر بغور جائزہ لیا جائے تو یہ جاننا کوئی مشکل امر نہیں ہے کہ موسمیاتی تبدیلی انسانوں ہی کی کارروائیوں کا نتیجہ ہے۔ صنعتی انقلاب سے پہلے اور بعد کے درجہ حرارت میں واضح فرق نظر آتا ہے۔ 2022 کی ایک جائزہ رپورٹ کے مطابق اسی سال کے تجزیہ میں بتایا گیا ہے کہ صنعتی انقلاب سے پہلے اور 2022ء کے درجہ حرارت میں 1.15ڈگری سیلسئس کا اضافہ ہوا ہے ۔درجہ حرارت میں اضافے سے گلیشیر پگھل رہےہیں جو سیلاب کا باعث بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ بے موسم اور شدید بارشیں بھی درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ اور جہاں بارشیں پہلے ہی کم ہوتی ہیں وہاں بڑھتی حدت کے باعث بارشیں بالکل نہیں ہوتیں اور طویل خشک سالی رہتی ہے جس کی وجہ سے انسانوں اور جانوروں کے لئے خوراک اور پینے کا پانی ناپید ہونے کے ساتھ ساتھ کئی بیماریوں میں اضافہ ہوتا ہے۔
2015ء میں صنعتی ممالک نے پیرس میں ایک معاہدہ کیا جس کی رو سے درجہ حرارت کو 1.5C تک محدود رکھنے اور گلوبل وارمنگ کو 2C سے نیچے رکھنے کا عہد کیا گیالیکن اس معاہدےپر کوئی موثر عملدر آمد نہیں کیا گیا۔ دنیا کے طاقتور صنعتی ممالک میں صنعتی ترقی کا مقابلہ جاری ہے جس کے نتیجے میں اسی رواں صدی میں درجہ حرارت 5ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی اوپر جانے کا امکان ہے جس کی وجہ سے انسان اور جانوروں و جنگلی حیات کو شدید خطرات لاحق ہونگے۔ جنگلات کی بے دریغ کٹائی اور ان کی جگہ نئے درخت نہ لگانے کا رجحان بھی موسمیاتی تبدیلی کا اہم عنصر ہے۔ کارخانوں سے گیس کا اخراج اور گاڑیوں سے نکلنے والادھواں درجہ حرارت میں اضافے کی بنیادی وجوہات ہیں جن کی ذمہ داری عالمی صنعتی طاقتوں پر عائد ہوتی ہے۔ اس عالمی ترقی کی دوڑ کا خمیازہ پاکستان سمیت دیگر متاثرہ ممالک بھگتتے ہیں۔ماہرین کے مطابق صنعتوں سے خطرناک گیسوں کے اخراج اور درجہ حرارت میں اضافے کو نہ روکا گیا تو دنیا فنا ہونے کے قریب پہنچ جائے گی۔ اور زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ وقت تیزی سے گزر رہا ہے لیکن اس ممکنہ تباہی کی طرف کوئی ٹھوس توجہ اور اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
موسمیاتی تبدیلیوں کی ذمہ دار عالمی صنعتی طاقتیں آب و ہوا کے قدرتی نظام میں بگاڑ پیدا کرتی ہیں۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین گیس اور جنگلات کی بے تحاشا کٹائی درجہ حرارت میں اضافے، موسمیاتی تبدیلیوں اور گلوبل وارمنگ کی بنیادی وجوہات ہیں۔ ان تبدیلیوں کی وجہ سے سردی کے مہینوں میں پوری دنیا میں شدید سردی اور گرمی کے مہینوں میں شدید گرمی ہونے کا امکان ہے۔ اس کے علاو گرمی کا موسم طویل اور شدید گرم ہو سکتا ہے۔ جہاں بارشیں نہیں ہوتیں وہاں زیادہ و شدید بارشیں و ژالہ باری اور جہاں زیادہ بارشیں ہوتی ہیں وہاں کم بارشیں ہونگی ۔اس صورتحال کا واضح مطلب یہ ہے کہ قدرت نے دنیا کی آب و ہوا کا جو نظام ترتیب دیا ہے انسانی کارستانیوں کی وجہ سے اس میں بگاڑ پیدا ہورہا ہے۔ اور اس کے ذمہ دار ترقی یافتہ صنعتی ممالک ہیں لیکن اس سے وہ ممالک سب سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں جو قطعاً اس کے ذمہ دار ہی نہیں ہیں۔ جنگلات کی بے دریغ کٹائی بھی ایک عالمی مسئلہ ہے جو کہ ترقی پذیر ممالک میں زیادہ ہے۔ جس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے
پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک کی فہرست میں پانچویں نمبر پر ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات یہاں بہت نمایاں ہیں۔ وبائی امراض میں اضافہ، غذائی اجناس کی پیداوار میں کمی، گلیشیئرز کا پگھلاؤ، سیلاب، خشک سالی، گرمی اور سردی کی شدت میں اضافہ ان ہی موسمیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے۔ ان مسائل میں وقت کے ساتھ ساتھ مزید اضافہ ہونے کے خدشات کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے۔ ان مسائل میں اضافے سے سماجی تفریق اور امن و امان کے مسائل کا پیدا ہونا بھی فطری عمل ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات تو ایک حقیقت ہیں لیکن پاکستان اس وقت بھی غذائی اجناس کی قلت کا شکار ہے۔ جس میں زیادہ حصہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سیلابوں، پانی کی کمی اور بعض علاقوں میں خشک سالی کا ہے۔ اس کے علاوہ روس، یوکرین جنگ کی وجہ سے بھی سپلائی میں رکاوٹیں ہیں۔ عالمی طاقتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان سمیت متاثرہ ممالک کو نہ صرف فوری امداد دیں بلکہ ساتھ ہی ساتھ متاثرہ ممالک اور دنیا کو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہونے والی تباہی سے بچائیں اور ان تبدیلیوں کی روک تھام کے لئے فوری اور موثر عملی اقدامات کریں۔ ورنہ دنیا اور خصوصاً متاثر ہونے والے ممالک جس تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں اس کی شاید ماضی میں مثال نہ ملے۔ لاکھوں کروڑوں انسان اور جانور ان صنعتی ممالک کی ترقی کی دوڑ کی بھینٹ چڑھ جائیں گے یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ چین ان ممالک میں شامل نہیں ہے کیونکہ چین نے اپنی صنعتوں میں پہلے ہی حفاظتی اور گیسوں کے اخراج سے ہونے والے نقصان کے تدارک کا نظام قائم کیا ہوا ہے۔