اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی گفتگو :۔
ترجمہ و تلخیص: ڈاکٹر عمار خان ناصر
یہ گفتگو لیکس فریڈمن کے پوڈکاسٹ میں کی گئی نیتن یاہو کی گفتگوسے ملخص ہے۔
1۔ اس قضیے کی اصل جڑ یہ ہے کہ فلسطینی، ایک یہودی ریاست کا وجود قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ان کا یہ موقف اسرائیل کے قیام سے پہلے بھی رہا ہے اور بعد میں بھی، 67 کی جنگ سے پہلے بھی رہا ہے اور بعد میں بھی۔ اس لیے ریاست کی حدود کا تعین اصل مسئلہ نہیں، اصل مسئلہ یہودی ریاست کے وجود کو قبول نہ کرنا ہے۔
2۔ فلسطینیوں کا داخلی اختلاف صرف اس حوالے سے ہے کہ اسرائیل کو ختم کرنے کے لیے تشدد کا راستہ اختیار کیا جائے یا سیاسی حکمت عملی سے یہ مقصد حاصل کیا جائے۔ حماس پہلے طریقے کی اور باقی فلسطینی دوسرے طریقے کے قائل ہیں، لیکن بنیادی مقصد دونوں کا ایک ہے۔
3۔ اسرائیل کے ساتھ ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام اس لیے قابل عمل نہیں کہ فلسطینی اس ریاست کو مرکز بنا کر اسرائیل کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ اسی لیے اسرائیل نے جب غزہ کا علاقہ خالی کر دیا تو حماس نے اقتصادی ترقی اور امن پر توجہ دینے کے بجائے غزہ کو اسرائیل کے خلاف دہشت گردی کا گڑھ بنا دیا۔ (یہی کچھ لبنان کا علاقہ خالی کرنے کے بعد ہوا جہاں حزب اللہ نے قبضہ کر لیا جو اسرائیل کو نقشے سے مٹانا چاہتی ہے)۔
4۔ اسرائیل جو بھی علاقہ خالی کرتا ہے، وہاں سے اسے جواب میں امن کے بجائے تشدد ہی ملتا ہے۔ اس لیے آزاد فلسطینی ریاست جیسے ہی قائم ہوگی، وہ ایران کی ایک پراکسی قوت بن جائے گی اور اسرائیل کی تباہی کے لیے کام کرنا شروع کر دے گی۔ پس دریائے اردن اور بحر متوسط کے درمیان واقع اس چھوٹے سے علاقے کو دو ریاستوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔
5۔ یہودیوں اور عربوں کو یہیں اکٹھے ایک دوسرے کے ساتھ رہنا ہوگا۔ علاقے کی سیکیورٹی کی ذمہ داری اسرائیل کے پاس رہے گی۔ فلسطینیوں کو اپنے معاملات چلانے کے لیے مکمل اختیار دیا جا سکتا ہے، لیکن مکمل خود مختاری نہیں دی جا سکتی جس سے وہ اسرائیل کے لیے خطرہ بن سکیں۔ اس لیے پورے علاقے کی سیکیورٹی کا بندوبست اسرائیل کے ہاتھوں میں رہنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ کوئی اور حل قابل عمل نہیں۔
6۔ جو یہودی آبادیاں 1967 کے بعد تعمیر ہو چکی ہیں، ان کو گرایا نہیں جا سکتا۔ یہ ناقابل عمل ہے۔ یہ بڑے بڑے رہائشی بلاک ہیں جن پر کثیر سرمایہ صرف ہوا ہے اور کوئی بھی ہوشمند شخص یہ نہیں سمجھتا کہ کسی حل تک پہنچنے کے لیے ان کو گرانا ضروری ہے۔ جیسے اسرائیل کے شہروں میں عرب یہودیوں کے ساتھ رہ رہے ہیں، اسی طرح عربوں کے علاقے میں یہودی بھی ان کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔
7۔ اب تک عمومی سوچ یہ رہی ہے کہ فلسطینیوں کا مسئلہ حل کیے بغیر عرب دنیا کے ساتھ تعلقات نہیں بنائے جا سکتے۔ میری سوچ اس کے برعکس یہ ہے کہ عرب دنیا کے ساتھ تعلقات بنائے بغیر فلسطینی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ فلسطینی، عرب دنیا کا 2 فیصد ہیں۔ بجائے اس کے کہ 98 فیصد سے تعلقات کو 2 فیصد کے رحم وکرم پر چھوڑا جائے، براہ راست 98 فیصد عرب دنیا سے رابطے استوار کرنے چاہییں۔
8۔ ابراہیمی معاہدات کے ذریعے سے میں نے فلسطینیوں کو الگ رکھ کر کئی عرب حکومتوں کے ساتھ براہ راست تعلقات قائم کیے ہیں اور سعودی عرب کے ساتھ بھی کرنے جا رہے ہیں۔ فلسطینیوں کے ساتھ امن کی پیشگی شرط کا مطلب یہ ہے کہ کبھی امن نہ ہو، کیونکہ فلسطینی ہمیشہ توقع کرتے رہیں گے کہ عرب دنیا کی مدد اور پشت پناہی سے وہ اسرائیل کو ختم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ لیکن اگر عرب دنیا سے ہمارے تعلقات قائم ہو جائیں گے تو فلسطینیوں کی امید دم توڑ جائے گی اور وہ بھی اسرائیل کے ساتھ پرامن طور پر رہنا قبول کر لیں گے۔
سابق اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرت کی گفتگو:۔
ترجمہ وتلخیص:محمد عمار احمد
اولمرت کی یہ گفتگو ڈی ڈبلیو کے اینکر ٹم سیبسٹن کو دیے گئے انٹرویو سے ملخص ہے۔
*کسی کو یہ خیال ہی نہیں تھا کہ اتنا بڑا حملہ حماس کرسکتی ہے،سب اسے ایک ایسی دہشت گرد تنظیم کے سوا کچھ نہیں سمجھتے تھے جو چھوٹی چھوٹی کارروائیاں کرسکتی ہے اس سے زیادہ کی سکت نہیں۔ اسرائیل اسی بے خبری اور زُعم کا خمیازہ بھگت رہا ہے ،اسی لیے کہا کہ یہ اسرائیلی انٹیلی جینس کی ناکامی اور موجودہ حکومت اس سانحہ کی ذمہ دار ہے۔
*ہفتہ کو متنازعہ علاقے مغربی کنارے پر نو آباد اسرائیلیوں کو سنبھالنے کے لیے کہ وہ کوئی مسئلہ نہ پیدا کریں فوج کی اضافی نفری تعینات کی گئی جس سے اصل اسرائیلی ریاست کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔چند دن پہلے پاسداران انقلاب کے سربراہ نے لبنان کا دورہ کیا،حماس کا اہم انتظامی دفتر بھی لبنان میں ہے،اس لیے ایران اور حماس کے تعاون کاواضح اشارہ موجود ہے۔ایران براہ راست لڑنے کی خواہش نہیں رکھتا اور اسرائیل کا بھی ایران پر حملہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔
*حماس کو نیتن یاہو برسوں تک بہ ذریعہ قطر مالی امداد دیتا رہا۔حماس کی تقویت اور اتنا بڑا حملہ نیتن یاہو کی انہی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔
*دوریاستی حل ہی اس مسئلہ کا واحد حل ہے،اگر فلسطین پر قبضہ کر لیا جائے اور دنیا اسرائیل کے اس قبضے کو تسلیم کر بھی لے تو بھی امن ممکن نہیں ۔ایسے لوگوں کو اپنے ملک میں رکھنا زیادہ خطرناک ہوگا جو الگ ریاست اور سرحدی حفاظتی انتظامات کے ہوتے ہوئے اتنا بڑا حملہ کرسکتے ہیں ۔ ایک ریاست میں ہوتے ہوئے جب ہمارے اور ان کے درمیان کوئی سرحد نہیں ہوگی،انہیں تمام شہری حقوق حاصل ہوں گے تو وہ کسی بھی وقت کسی بھی جگہ حملہ کرنے کی جرات کرسکتے ہیں۔
*جس بہیمانہ انداز میں اسرائیل جوابی کارروائی کررہا ہے اگر یہ اسی طرح چلتا رہا تو عالمی سطح پر حماس کے حملے کے بعد حاصل ہونے والی ہم دردی مخالفت میں بدل جائے گی۔ممکن ہے کچھ ممالک ہمارے ساتھ کھڑے رہیں مگر جوں ہی حالات بہتر ہوں گے وہی دوست ممالک ہم سے مطالبہ کریں گے کہ اس مسئلے کا کوئی حتمی حل نکالاجانا چاہیے۔
*اسرائیل کو اس وقت عالمی برادری کے ساتھ کی ضرورت ہےاسی لیے ہمیں پھونک پھونک کر قدم رکھنا چاہیےاور کم سے کم جانی ومالی نقصان کا سوچنا چاہے۔
*حالیہ صورت حال کے بعد ممکن ہے عالمی سطح پر ہم سے اچھے اور برے فلسطینی کی تقسیم کا مطالبہ ہو ،لیکن کیا یہ ممکن ہے ؟ فلسطینی اگر چہ حملوں میں حماس کے ساتھ شریک نہیں مگر وہ حماس کی مکمل حمایت ضرور کرتے ہیں۔اسی لیے یہ تقسیم ممکن نہیں۔
*فلسطین کی قید میں جولوگ ہیں انھیں چھڑانے کے لیے فلسطینیوں کی رہائی غلط فیصلہ ہوگا،کیوں کہ آگے جا کر یہی لوگ پھر ہم پرحملوں میں شریک ہوتے ہیں۔
*ہمارے قیدیوں کے ساتھ کس طرح کا سلوک ہوگا ،اس جواب کے لیے ہمیں یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اسرائیلی فوجی فلسطینیوں کے ساتھ غلط رویہ رکھتے ہیں، وہاں کی عورتوں سے زبردستی کرتے ہیں،جسمانی تشدد کرتے ہیں،اب جب وہ ان کی قید میں ہیں تو ہم ان سے کس طرح کے رویے کی توقع رکھ سکتے ہیں۔؟
*حماس نے سعودی اسرائیل مذاکرات کی ناکامی کے لیے نہیں،اپنی ساکھ بچانے کے لیے حملہ کیا۔اول تو یہ معاہدہ بالکل نا ممکن ہے،اگر بالفرض معاہدہ ہوبھی جائے تو حماس کو خوف ہے کہ اس کا کردار معاہدے سے محدود ہوگا۔امن حماس کی خواہش نہیں ،ان کی عوام میں ساکھ ہی اسی لیے ہے کہ وہ اسرائیل سے لڑتے ہیں۔اسی ساکھ کوبچانے کے لیے اور اپنی موجودگی کے ثبوت کے لیے اتنابڑا قدم اٹھایا گیا ہے۔