ترتیب و تہذیب: سید منظور الحسن
جناب جاوید احمد غامدی اکتوبر 2023 میں ملایشیا گئے تو انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم پی ایچ ڈی کے طلبہ نے اُن سے ملاقات کی اور اُن کے فکر کے بارے میں مختلف سوالات کیے۔ نشست کے اختتام پر اُن سےیہ سوال پوچھا گیا کہ وہ دین کے طلبہ کو کیا نصیحت کرنا چاہیں گے؟ اِس کے جواب میں اُنھوں نے جو گفتگو کی، وہ ضروری حک و اضافے کے بعددرجِ ذیل ہے۔
نصیحت کا تو میں خود محتاج ہوں۔تاہم تین گزارشات ہیں، جو بڑے ادب کے ساتھ آپ کی خدمت میں پیش کر دیتا ہوں۔
1۔ علم کے سچے طالب بن جائیں۔
آپ عامی ہیں یا عالم، معلم ہیں یا متعلم، بزرگ ہیں یا نوجوان، ہر حال میں اپنے آپ کو طالبِ علم سمجھیں۔ جب کوئی شخص یہ خیال کرتا ہے کہ اُس نے بہت پڑھ لیا ہے، کئی علوم و فنون پر دسترس حاصل کر لی ہے، بڑا عالم و فاضل ہو گیا ہے تو اُس پر علم کا دروازہ بند ہو جاتا ہے۔ اُس کا یہ استکبار اُسے علم کی جستجو سے بے نیاز کر دیتا ہے۔ لہٰذا آپ کو کبھی اِس خبط میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔عمر کے آخری لمحے اور زندگی کے آخری سانس تک سچا طالبِ علم بن کر رہنا چاہیے۔
سچا طالبِ علم علم کو اُس کے معیار پر قبول کرتا ہے ۔ تعصبات، رغبات، خواہشات کو اُس کی راہ میں حائل نہیں ہونے دیتا۔ اُسے اِس کی پروا نہیں ہوتی کہ کسی بات کو قبول کرنے سے اُس کے مانے ہوئے نظریات بدل گئے ہیں یااُس کا کہا ہوا رد ہو گیا یا اُس کے علم کی کم زوری واضح ہو گئی ہے۔ وہ اِس پر بھی نظر نہیں رکھتا کہ کہنے والا کون ہے؛ چھوٹا ہے، بڑا ہے، حامی ہے، مخالف ہے۔ وہ ہر کسی کو سنتا ہے اور اُس کی ذات کے بجاے اُس کی بات پر توجہ دیتا ہے۔ اِس معاملے میں وہ کسی انا ، کسی تکبر، کسی بڑائی کو دامن گیر ہونے نہیں دیتا۔
سچا طالبِ علم اختلاف کا استقبال کرتا ہے۔ وہ تنقید کا خیر مقدم کرتا ہے۔اصل میں موافق بات کو قبول کرنا آسان ہوتا ہے، ہر شخص اُسے خوش دلی سے قبول کرتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ مخالف بات پر آپ نے کیا رویہ ظاہر کیا ہے؟ اُس کو بلا تامل رد کر دیا ہے، اُس سے نظریں چرا لی ہیں یا اُس کا استقبال کیا ہے؟ استقبال کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کسی بات کو بے سوچے سمجھے قبول کر لیں ۔ مقصد یہ ہے کہ آپ پوری خوش دلی سے اُس پر غور کرنے کے لیے تیار ہو جائیں اور اِس امید میں کھڑے ہو جائیں کہ ممکن ہے کوئی نئی حقیقت آپ پر منکشف ہو جائے۔میرے استاذ مولانا امین احسن اصلاحی جب اپنی تفسیر ’’تدبرِ قرآن‘‘ لکھ رہے تھے تو فرمایا کرتے تھے کہ جس دن میں صبح کو قرآن کھولوں اور کوئی مشکل آیت سامنے آ جائے تو میں کہتا ہوں کہ: ’’آج ہوا نہ دن! ‘‘مطلب یہ تھا کہ اب کوئی راز کھلے گا، اب کوئی انکشاف ہو گا، اب کوئی حقیقت واضح ہو گی۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسا ہی معاملہ اختلافی راے کے سامنے آنے پر ہونا چاہیے۔
افسوس کہ ہم مسلمان یہ طرزِ عمل چھوڑ چکے ہیں ، یہ احساس کھو بیٹھے ہیں۔ اِس کے نتیجے میں ہم علم سے محروم ہو گئے ہیں۔ ہمارے علما، ہمارے عامی، ہمارے مذہبی لوگ، ہمارے غیر مذہبی لوگ، ہمارے اساتذہ ، ہمارے طلبہ، سب کا حال یہی ہے۔ یہ صرف مذہبی علم کا معاملہ نہیں ہے، سیاست، معیشت ، معاشرت، تاریخ، قانون، ہر علم و فن میں ہم اِسی طرزِ عمل کا شکار ہیں۔ آپ اِن میں سے کسی موضوع پر بھی بات کر لیجیے، اندازہ ہو جائے گا کہ ہم اپنی طے شدہ آرا کے بارے میں کس قدر متشدد اور بنے بنائے نظریات کے بارے میں کتنے جذباتی ہیں۔
چنانچہ میری آپ کو نصیحت ہے کہ علم کا استقبال کرنے اور اختلاف کو خوش آمدید کہنے کے لیے ہر دم تیار رہیے۔ میرے سب تلامذہ اِس بات سے واقف ہیں ــــ یہ منظور صاحب یہاں بیٹھے ہیں ــــجب ہمارے فکر پر کوئی تنقید سامنے آتی ہے تو میرا اِن سےایک ہی سوال ہوتا ہے،کہ کیا آپ لوگوں نے یہ تنقید پڑھی ہے؟ اِس کی وجہ یہ ہے کہ اگر کسی طالبِ علم کے اندر اپنے اوپر ہونے والی تنقید سے بیداری پیدا نہیں ہوئی تو وہ گویا طالبِ علم ہی نہیں رہا۔ جب آپ تنقید کو توجہ سے پڑھیں گے تو دو نتائج میں سے ایک نتیجہ نکلے گا: یا یہ واضح ہو جائے گا کہ آپ ہی کی بات صحیح ہے، اِس سے آپ کواپنے موقف کی صحت پر اعتماد پیدا ہو گا۔ یا کوئی نئی حقیقت معلوم ہو جائے گی۔اگر کوئی نئی حقیقت سامنے آ جائے تو طالبِ علم کے لیے اِس سے بڑھ کر مسرت کی بات اور کیا ہو گی۔ اِسی کی تلاش میں تو طالبِ علم نکلتا ہے۔ اِس پر تو ہمیں ناقد کا شکر گزار ہونا چاہیے، اُس کے ہاتھ چومنے چاہییں کہ اُس نے ہمارے لیے علم کا ایک نیا دریچہ کھولا ہے۔
اِس میں شبہ نہیں کہ ہمارے ہاں تنقید کے بجاے تنقیص اور مکالمے کے بجاے مناظرے کا اسلوب اختیار کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات اِس صورت ِ حال سے سابقہ پیش آ جاتا ہے کہ دوسرا آدمی اچھا لب و لہجہ اختیار نہیں کرتا،وہ آپ کا استخفاف کرتا ہے، آپ کا علم ماپنے کے لیے بیٹھ جاتا ہے۔ ایسی چیزوں سے غض بصر کر لینا چاہیے، اعراض کر لینا چاہیے۔اِسی کو قرآن میں بیان فرمایا ہے کہ اہل ایمان فضول اور لاحاصل باتوں سے دور رہنے والے ہوتے ہیں۔[1]
2۔ اپنے اندر حق کی حمیت پیدا کریں۔
حق کی حمیت کامطلب وہی ہے، جسے ہمارے استاذ مولانا امین احسن اصلاحی نے اپنے خاص اسلوب میں بیان کیا ہےکہ انسان کا سایہ بھی اُس کا ساتھ نہ دے تو پھر بھی وہ حق پر قائم رہے۔ قرآنِ مجید نے اِس کے لیے ’قیام بالقسط‘ کی تعبیر اختیار کی ہے۔ بتایا ہے کہ حق کی حمیت وحمایت والدین اور اعزہ و اقربا کی حمیت سے بڑھ کر ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ حق و انصاف اگر کسی موقع پر ماں باپ اور عزیز رشتے داروں کے خلاف بھی گواہی کا تقاضا کریں تو اُس سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔ نسا میں ہے:
’’ایمان والو، انصاف پر قائم رہو، اللہ کے لیے اُس کی گواہی دیتے ہوئے، اگرچہ یہ گواہی خود تمھاری ذات، تمھارے ماں باپ اور تمھارے قرابت مندوں کے خلاف ہی پڑے…۔‘‘
یہاں رشتوں ناتوں کے مقابلے میں حق کی حمیت کو واضح کیا ہے اور مائدہ میں قومی حمیت پر حق کی حمیت کو ترجیح دی ہے۔ فرمایا ہے:
’’ ایمان والو، اللہ کے لیے کھڑے ہو جاؤ، انصاف کی گواہی دیتے ہوئے اور کسی قوم کی دشمنی بھی تمھیں اِس پر نہ ابھارے کہ انصاف سے پھر جاؤ۔ انصاف کرو، یہ تقویٰ سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو، اِس لیے کہ اللہ تمھارے ہر عمل سے با خبر ہے۔‘‘
اِن دونوں مقامات پر قیام بالقسط کے ساتھ شہادت کی شرط کو بھی لازم کیا ہے۔ یعنی مجرد یہی نہیں کہ خود حق و انصاف پر قائم رہنا ہے، بلکہ اِس سے آگے بڑھ کر اُس کی گواہی بھی دینی ہے۔ یہ گواہی آپ کو اپنے گھر میں دینی ہے، اپنے حلقۂ احباب میں دینی ہے اور اگر ضرورت پیش آ جائے تو قومی اور عالمی سطح پر بھی دینی ہے۔ مقصود یہ ہے کہ اگر آپ کو آپ کے جذبات، آپ کے مفادات، آپ کی خواہشیں حق کی راہ سے ہٹاناچاہیں تو آپ حق پر جم کر کھڑے ہو جائیں۔ حق کو تسلیم کرنے کا موقع ہو تو اُس کے سامنے سرِتسلیم خم کریں، اُسے بیان کرنے کی ضرورت ہو تو بے کم و کاست بیان کریں اور اگر وہ گواہی کا مطالبہ کرے تو جان کی بازی لگا کر بھی اُس کا مطالبہ پورا کریں۔ حق اِسی غیرت، اِسی حمیت، اِسی حمایت کا تقاضا کرتا ہے۔
3۔ علم کی زبان کو اختیار کریں۔
عام طور پر ہم جذبات کی زبان میں بات کرتے ہیں۔ اِس سے ردِ عمل پیدا ہوتا ہے ، جو اختلاف کو مخالفت میں بدل دیتا ہے۔ اِس کے بجاے ہمیں علم کی زبان کو اختیار کرنا چاہیے۔ علم کی زبان تحمل اور بردباری سے عبارت ہے۔ اِس میں مناظرہ نہیں کیا جاتا، مکالمہ کیا جاتا ہے۔ پہلے دوسرے کی بات کو پوری توجہ سے سنا جاتاہے اور پھر سادہ علمی انداز سے اپنی بات پیش کی جاتی ہے۔ اِس میں انسان نہ گریز و فرار کا راستہ اختیار کرتا ہے، نہ جذبات میں آتا ہے، نہ آگ بگولا ہوتا ہے، نہ آستین چڑھاتا ہے، بلکہ پورے اعتماد اورصبر و تحمل کے ساتھ اپنا استدلال پیش کرتا ہے۔ اگر مخاطب متفق نہ ہو تو اُس پر کوئی فتویٰ صادر نہیں کرتا ، بلکہ شایستگی سے ابلاغ کا متبادل اسلوب تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر کبھی تنقید کرنا پیشِ نظر ہو تو سب سے پہلے وہ دوسرے کا موقف بیان کرتا ہے اور ا ِس طرح بیان کرتا ہے کہ صاحبِ موقف اگر اُسے سنے یا پڑھے تو پکار اٹھے کہ میں بھی اِس سے بہتر بیان نہیں کر سکتا تھا۔
جب آپ دوسرے کا موقف سمجھنے اور اُسے بالکل درست بیان کرنے پر قادر ہو جاتے ہیں تو اُس وقت آپ دوسرے کی تنقید سے مستفید ہو سکتے اور اپنی تنقید کواُس کے لیے مفید بنا سکتے ہیں۔ لیکن اگر آپ دوسرے کے موقف کو سننے پڑھنے سے پہلے ہی اُس کے بارے میں راے قائم کر لیں، اُس کے نقطۂ نظر کو اُس کی بات سے اخذ کرنے کے بجاے اپنے تصورات سے اخذ کرنے لگیں اور اُس پر تنقید کرنے کے لیے اُس کا موقف اپنے خیالات کی بنا پر ترتیب دینا شروع کر دیں تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے علم اور مکالمے کی زبان کے بجاے تحکم اور مناظرے کی زبان کو اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اِسی کے نتیجے میں کفر اور انکار کے فتوے صادر ہوتے ہیں، اِسی کے نتیجے میں پراپیگنڈا جنم لیتا ہے، اِسی کے نتیجے میں الزام و دشنام اور جنگ و جدل کا بازار گرم ہوتا ہے۔چنانچہ اگر آپ علم کی زبان اختیار کریں گے تو خود بھی علم حاصل کر سکیں گے اور دوسروں تک بھی اُسے پہنچا پائیں گے۔
اِن تین باتوں کو ہمیشہ ملحوظ رکھیے۔ یہی میری گزارش ہے، یہی میرا پیغام ہے۔
[1](المومنون23:3)