(قسط اول)
5 اکتوبر 2023ء کو روزنامہ اسلام میں شائع ہوا، اگرچہ مابعد اشاعت ملکی سیاست میں کئی اہم پیش رفت ہو چکی ہیں، تاہم فروری 2024ء میں ہونے والے عام انتخابات کے تناظر میں تاریخ کے یہ اوراق انتہائی اہمیت کے حامل ہیں، قاریین اور سیاسیات کے طلبہ کی دل چسپی کے لیے یہ مضمون سلسلہ وار افکار پر شائع کیا جا رہا ہے۔
لیں جناب! تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے میاں محمد نوازشریف بالآخر 21 اکتوبر ہفتہ کے دن وطن واپس تشریف لا رہے ہیں۔ خبروں کے مطابق انہوں نے لندن سے واپسی کا ٹکٹ بھی کٹوا لیا ہے، تاہم میاں صاحب کے پلیٹ لیٹس کے بارے میں ہنوز واضح نہیں کہ وہ پورے ہوئے یا نہیں۔ امکانات کے مطابق میاں صاحب وطن آ کر ایک بار پھر جیل جائیں گے، جبکہ سابق وزیراعظم عمران خان پہلے سے اڈیالہ جیل میں موجود ہیں، ہوسکتا ہے میاں صاحب بھی خان صاحب کے ساتھ ہی فروکش ہوں۔
اطلاعات کے مطابق بہت سے بند کیے گئے مقدمات بھی کھلنا شروع ہوگئے ہیں۔ خدشہ ہے کہ کچھ اور بڑے بڑے راہنما بھی جیل جائیں گے۔ ہوسکتا ہے جیل جانے والے راہنماؤں کے متعلقین ایک بار پھر قوم کو ایک ہی ٹرک پر نظر آئیں۔ تازہ خبر ہے کہ ہمارے مولانا نے انتخاب سے پہلے معیشت کا نعرہ لگا دیا ہے، جیسے ضیاء صاحب کے مارشل لا کے نتیجے میں حیدرآباد جیل سے رہا ہونے والے عبد الولی خان نے 1978ء میں انتخاب سے پہلے احتساب کا نعرہ لگایا تھا۔ ہم یہ لکھ رہے تھے تو انور چراغ نے عجیب فقرہ ہمارے کانوں میں انڈیلا کہ ہمارے ہاں کیلنڈر بدلتا ہے تاریخ نہیں۔
قارئین کرام! انور چراغ کی باتیں محض باتیں نہیں ہوتیں۔ ہم نے 11 جون بدھ کو شائع ہونے والے کمند میں انور چراغ کی پیشگوئی بتائی تھی ”اس برس اکتوبر تو کیا نومبر دسمبر میں بھی عام انتخابات ہوتے نظر نہیں آتے اور نہ ہی 15 جون کو حافظ صاحب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔“ تو انور چراغ کی دونوں باتیں پوری ہوئیں، حافظ صاحب 15 جون کو کراچی کے میئر بن سکے نہ 2023ء میں عام انتخابات ہو رہے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے اعلان کے مطابق اگرچہ جنوری کے آخری ہفتے میں عام انتخابات ہوں گے لیکن فیصل واوڈا جیسے مبینہ باخبر اور ن لیگ کے اہم راہنما بھی کہہ رہے ہیں کہ جنوری میں الیکشن نہیں ہوں گے۔ (اس وقت تک انتخابات کی حتمی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا تھا)
تو جناب! انور چراغ کا مذکورہ بالا مقولہ سن کر پاکستان کے گزشتہ 55 برس ہماری آنکھوں میں گھوم گئے۔ فیلڈ مارشل صدر ایوب خان نے جب اپنا اقتدار جاتا دیکھا تو بات چیت کے لیے سیاست دانوں کو مدعو کیا، اس وقت مشرقی پاکستان کے شیخ مجیب الرحمن جیل میں تھے اور مغربی پاکستان کے ذوالفقارعلی بھٹو عوام میں۔ فیلڈ مارشل نے جن سیاست دانوں کو بات چیت کی دعوت دی تھی، انہوں نے شیخ مجیب الرحمن کو دعوت دینے کی شرط رکھ دی جبکہ بھٹو صاحب نے اس بیٹھک کو تسلیم ہی نہیں کیا۔ اگرچہ شیخ مجیب الرحمن رہا کردیے گئے اور فیلڈ مارشل کی گول میز کانفرنس میں شریک بھی ہوئے لیکن نتیجتاً جنرل یحییٰ خان نے فیلڈ مارشل ایوب خان کی جگہ لے لی۔ جنرل یحییٰ خان نے عام انتخابات کا اعلان کر دیا تو اس وقت مختلف الخیال سیاسی جماعتیں اپنی اپنی ڈفلی پر اپنا اپنا راگ الاپ رہی تھیں۔ ہمارے شاعرِ حریت، مفتی بھٹو ولی کو ملاکر ناؤ چلا رہے تھے تو شیخ مجیب الرحمن 6 نکات کا ناقوس بجا رہے تھے۔ جماعت اسلامی اس وقت بھی یہی تاثر دے رہی تھی کہ ہم آ رہے ہیں، نواب زادہ مرحوم حسبِ عادت بھان متی کا کنبہ جوڑنے کی کوشش میں تھے جبکہ ذوالفقار علی بھٹو روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے اور اسلام ہمارا دین، جمہوریت ہماری سیاست، سوشل ازم ہماری معیشت کے منشور کے ساتھ پسے ہوئے طبقات کو سبز باغ دکھانے میں مصروف تھے۔
فوجی آمر جنرل یحییٰ خان کے کرائے گئے صاف و شفاف انتخابات کے نتیجے میں پاکستان دولخت ہوا تو باقی پاکستان کی حکومت جمہوریت کے علمبردار ذوالفقارعلی بھٹو کو سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنا کر عطا کردی گئی۔
صدر بھٹو نے پاک بھارت جنگ کے نتیجے میں قید ہونے والے فوجی اور سویلینز کی رہائی کے لیے اندرا گاندھی سے مذاکرات کے لیے شملہ جانے کا قصد کیا۔ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے بھٹو صاحب کو بھارت روانہ کیا۔ بھٹو صاحب نے 1973ء کا متفقہ آئین بنانے کا کام سرانجام دیا تو پارلیمان کی تمام جماعتوں کے سربراہوں نے گروپ فوٹو کھنچوایا۔ پھر بھٹو صاحب نے اپنے ہی بنائے ہوئے آئین میں7 ترامیم کر ڈالیں۔ قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دینے والی ترمیم قومی اور ملی جدوجہد کے نتیجے میں اس شان سے متفقہ طور پر منظور ہوئی کہ 1973ء کا دستور بھی اتنا متفقہ نہیں تھا۔ باقی 6 ترمیمیں اپوزیشن کو روند کر کی گئیں۔ حتیٰ کہ اپوزیشن رہنماؤں کو قومی اسمبلی سے اٹھا کر باہر پھینک دیا گیا۔
بھٹو صاحب نے جہاں متفقہ آئین دیا، ایٹمی پروگرام شروع کیا، اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کی، نمایاں اسلامی اقدامات کیے، وہیں اپوزیشن رہنماؤں کے ساتھ وہ سلوک کیا کہ 1973ء میں ان کے ساتھ گروپ فوٹو کھنچوانے والے قائدین نے انہیں تختہِ دار پر کھنچوا کر دم لیا۔
جب اپوزیشن بظاہر منتشر تھی اور میڈیا پر قدغنیں تھیں، صحافی جیلوں میں تھے، اخبارات بند کیے جا رہے تھے تب بھٹو صاحب نے 7مارچ 1977ء کو قومی اسمبلی اور 10 مارچ 1977ء کو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا اعلان کردیا۔ جوں ہی انتخابات کا اعلان ہوا منتشر اپوزیشن ایک ہی دن میں رفیق باجوہ ایڈووکیٹ مرحوم کے گھر پاکستان قومی اتحاد کے نام سے متحد ہوگئی۔ مولانا مفتی محمود صدر، رفیق احمد باجوہ ایڈووکیٹ جنرل سیکرٹری بنائے گئے۔ ان جماعتوں میں خان عبدالولی خان، غوث بخش بزنجو، عطاءاللہ مینگل جیسے سیکولر اور قوم پرستوں کی نمایندہ این ڈی پی شیر باز مزاری کی قیادت میں، لبرل اصغر خان کی تحریکِ استقلال، بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان کی پی ڈی پی، اسلام پسند مفتی محمود، شاہ احمد نورانی، میاں طفیل محمد کی جماعتیں، کشمیرکی نمایندہ مسلم کانفرنس سردار عبدالقیوم خان کی سربراہی میں، علامہ عنایت اللہ مشرقی کی خاکسار تحریک خان اشرف خان کی قیادت میں اور قائداعظم محمد علی جناح کی وراثت کی دعویدار مسلم لیگ پیر صاحب پگاڑا کی سربراہی میں شامل تھیں۔
بھٹو صاحب کے یہ مخالفین اس انداز میں متحرک ہوئے کہ پورے ملک میں پاکستان قومی اتحاد کی ہوا چل پڑی اور پاکستان پیپلزپارٹی کی ہوا اکھڑتی محسوس ہوئی۔ 7 مارچ کو ہونے والے قومی اسمبلی کے انتخابات کے نتائج آئے تو قومی اتحاد نے انہیں ماننے سے انکار کر دیا اور 10 مارچ کو ہونے والے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کرکے تحریک کا آغاز کردیا۔ آگے چل کر یہ تحریک تحریکِ نظام مصطفی کے نام سے معروف ہوئی۔ قومی اتحاد کی ڈھائی تین ماہ کی تحریک کے بعد مئی کے آخر اور جون کے شروع میں حکومت اور اپوزیشن میں رابطے ہوئے اور بالآخر فریقین مذاکرات کی میز پر بیٹھ گئے۔ مذاکرات میں پاکستان قومی اتحاد کی نمایندگی مولانا مفتی محمود، نوابزادہ نصراللہ خان اور پروفیسر عبدالغفور احمد نے کی جبکہ حکمران پیپلزپارٹی کی نمایندگی وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو، عبدالحفیظ پیر زادہ اور مولانا کوثر نیازی نے کی۔ فریقین میں مذاکرات ہوتے رہے ہوتے رہے ہوتے رہے، سیاستدان کسی نتیجے پر پہنچنے کے قابل ہوئے تو 5 جولائی ہوگیا اور جنرل محمد ضیاءالحق نے مارشل لا نافذ کر دیا۔
پاکستان قومی اتحاد نے جنرل صاحب کا بھرپور استقبال کیا، حلوے کی دیگیں تقسیم کی گئیں، مٹھائیاں بانٹی گئیں، جشن منائے گئے، پاکستان قومی اتحاد کے راہنما اور کارکن رہا ہونے لگے جبکہ پیپلز پارٹی بھٹو صاحب کے سخت رویے کی وجہ سے معتوب ہوتی چلی گئی اور اس کے کارکنوں سے خالی جیلیں بھری جانے لگیں۔ ضیاءصاحب نے نوے دن میں عام انتخابات کرا کے حکومت منتخب نمایندوں کے سپرد کرنے کا وعدہ کیا۔
(جاری ہے)