(قسط دوم)
سلسلہ ہٰذا کا اولین مضمون 5 اکتوبر 2023ء کو روزنامہ اسلام میں شائع ہوا، اگرچہ مابعد اشاعت ملکی سیاست میں کئی اہم پیش رفت ہو چکی ہیں، تاہم فروری 2024ء میں ہونے والے عام انتخابات کے تناظر میں تاریخ کے یہ اوراق انتہائی اہمیت کے حامل ہیں، قاریین اور سیاسیات کے طلبہ کی دل چسپی کے لیے یہ مضمون سلسلہ وار افکار پر شائع کیا جا رہا ہے۔
قارئین کرام! پہلے تو ایک وضاحت کہ گزشتہ روز کے کالم میں ہم نے بھٹو صاحب اور اپوزیشن راہنماؤں کی جس تصویر کا ذکر کیا تھا یہ وہی تصویر ہے جو آج کل سوشل میڈیا پر وائرل ہے لیکن اس کے ساتھ یہ لکھا ہوتا ہے کہ یہ تصویر 1974ء میں قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دینے کا بل پاس ہونے کے بعد کھینچی گئی۔ حقیقتاً دونوں باتیں صحیح نہیں بلکہ 1973ء کا آئین بنانے سے پہلے اپوزیشن اور بھٹو صاحب کے درمیان ایک دستوری معاہدہ ہوا تھا اس کے بعد یہ تصویر کھینچی گئی تھی۔
بہرنوع! جنرل ضیاء صاحب نے مارشل لا لگانے کے بعد اپنی پہلی نشری تقریر میں نوے دن میں عام انتخابات کرانے کا وعدہ کیا۔ اس سے پہلے پیپلزپارٹی اور قومی اتحاد کے مرکزی راہنما حفاظتی حراست میں لے لیے گئے تھے جنہیں بعد میں رہا کر دیا گیا۔ ضیاء صاحب نے دونوں طرف کے قائدین سے ملاقاتیں کیں اور ان کو بھی یقین دلایا کہ عام انتخابات کے بعد اقتدار منتخب عوامی نمایندوں کو سونپ دیا جائے گا۔
ایئرمارشل اصغرخان ایران کے دورے پر چلے گئے۔ واپسی پر انہوں نے قومی اتحاد سے علیحدگی اختیار کرلی۔ ضیاء صاحب نے اگرچہ نیا الیکشن کمیشن تشکیل دیا لیکن اکتوبر میں ہونے والے عام انتخابات ملتوی کردیے۔ اُدھر بھٹو صاحب پر نواب محمد احمد خان کے قتل کا مقدمہ شروع ہوگیا۔ ضیاء صاحب نے اول اول تو اپنے فوجی اور غیرسیاسی و غیر جماعتی رفقاء پر مشتمل وفاقی مشاورتی کونسل سے کام چلایا جبکہ قومی اتحاد والے بھٹو صاحب سے نجات کی خوشی منانے میں مصروف رہے۔ پھر ضیاء صاحب نے سیاست دانوں کو بھی کاروبارِ مملکت میں شامل کرنے کے اشارے دینا شروع کیے تو پاکستان قومی اتحاد کے صدر مولانا مفتی محمود نے مئی 1978ء کے آخر میں چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل محمد ضیاء الحق کے نام ایک خط میں مارشل لاء حکومت کے اقدامات پر تحفظات کا اظہار کیا اور پیشکش کی کہ اگر مارشل لاء انتظامیہ غیرجانبدار اور منصفانہ انتخابات کے لیے قومی حکومت کے قیام کو ضروری سمجھتی ہو تو پاکستان قومی اتحاد اس ذمہ داری کو اٹھانے پر آمادہ ہے بشرطیکہ مجوزہ حکومت بے داغ سیاسی عناصر پر مشتمل ہو جو بامقصد اور با اختیار بھی ہو۔
ضیاء صاحب نے اپنی حکومت کی پہلی سالگرہ پر 22 رکنی کابینہ کا بھی اعلان کیا جس میں ان کے سول اور ملٹری رفقاء کے ساتھ ساتھ پاکستان مسلم لیگ کے پانچ ارکان بھی شامل تھے۔ ایک ماہ بعد ضیاء صاحب نے پھر نئی کابینہ تشکیل دی جس میں 21 وفاقی وزراء اور 3 وزیر مملکت شامل تھے۔ پیپلزپارٹی کے بنائے ہوئے صدر، فضل الٰہی چودھری نے کابینہ سے حلف لیا۔ قومی اتحاد کی جماعتوں، جمعیت علماے اسلام، جماعت اسلامی، پاکستان جمہوری پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ کے ارکان کابینہ میں شامل تھے۔ تقریب حلف وفاداری میں مولانا مفتی محمود، نوابزادہ نصراللہ، پیر صاحب پگارا اور میاں طفیل محمد بھی شریک ہوئے۔ اس سے پہلے پاکستان مسلم لیگ کے چودھری ظہور الٰہی اور کالعدم نیپ کے خان عبدالولی خان، میر غوث بخش بزنجو، سردار عطاءاللہ مینگل اور جیلوں میں بند دیگر راہنماؤں کو غیرمشروط طور پر رہائی مل گئی تھی۔ عبدالولی خان اور ان کے ساتھی بغاوت کے مقدمے میں ملوث کیے گئے تھے اور ان کو حیدرآباد جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔ مقدمے کی سماعت جیل کے اندر ہی شروع ہوئی یہ مقدمہ حیدرآباد سازش کیس کے نام سے معروف ہوا۔ خان عبدالولی خان نے رہائی کے بعد ضیاء صاحب سے ملاقاتیں کیں پھر انہوں نے انتخاب سے پہلے احتساب کا نعرہ لگا دیا۔
23 مارچ 1979ء کو ضیاء صاحب نے آنے والے نومبر کی 12 تاریخ کو عام انتخابات کا اعلان کردیا۔ 25 اپریل کو کابینہ مستعفی ہوگئی جبکہ 4 اپریل 1979ء کو بھٹو صاحب کو پھانسی دے دی گئی۔
ضیاء صاحب نے اپنے نئے رفقاء کے ساتھ مل کر کاروبارِ مملکت چلانا شروع کیا اور متعدد اسلامی اقدامات کا اعلان کر دیا۔ تب مارشل لاء کی حکومت میں شامل ہو کر اپنے مقاصد حاصل کرنے کا دعویٰ کرنے والے قومی اتحاد کے راہنماؤں کو جمہوریت کا درد اٹھا اور ذوالفقارعلی بھٹو کی بیوہ نصرت بھٹو اور بیٹی بے نظیر بھٹو کو بحالیِ جمہوریت کے لیے مشترکہ جدوجہد کے پیغامات پہنچائے گئے۔ سیاسی تنہائی کی شکار ماں بیٹی کو ان پیغامات سے حوصلہ ملا اور انہوں نے ان کو غنیمت جان کر صاد کیا۔ سائنس و ٹیکنالوجی اور مذہبی امور کی وزارتیں لینے والے بابائے جمہوریت نے قوم کو بتانا شروع کیا کہ 4 جولائی 1977ء کو قومی اتحاد اور پیپلزپارٹی میں معاہدہ ہوچکا تھا، صرف دستخط ہونا باقی تھے کہ مارشل لاء نافذ کر دیا گیا۔ مولانا مفتی محمود اکتوبر 1980ء میں اللہ کو پیارے ہوگئے تو نوجوان مولانا فضل الرحمن ان کے سیاسی جانشین بھی بن گئے۔ نوجوان مولانا فضل الرحمن نے اپنے والد کے دیرینہ سیاسی رفیق نوابزادہ نصراللہ خان کی رفاقت بھی وراثت میں پائی لیکن حضرت درخواستیؒ کی امارت میں مولانا سمیع الحقؒ، مولانا اجمل خانؒ، قاضی عبداللطیفؒ، مولانا زاہد الراشدی اور مفتی صاحب کے کئی اور ساتھیوں نے بابائے جمہوریت کا ساتھ دینے سے انکار کردیا۔ اصغرخان جو 1977ء کی انتخابی مہم میں ذوالفقار علی بھٹو کو ہالہ کے پل پر پھانسی دینے کے اعلان کیا کرتے اور تحریکِ نظام مصطفی کے دوران فوجی قیادت کے نام خط لکھنے تک چلے گئے تھے؛ وہ خان عبدالولی خان، جنہوں نے انتخاب سے پہلے احتساب کا نعرہ یہ کہہ کر بلند کیا تھا کہ سانپ کا سر فوجی کے بوٹ کے نیچے آ گیا ہے اسے کچل دینا چاہیے؛ پیر صاحب پگارا کی پاکستان مسلم لیگ کے جنرل سیکریٹری ملک محمد قاسم، جن کو بھٹو صاحب کے دورِ اقتدار میں ریڑھ کی ہڈی کے زخم ملے تھے؛ بھٹو صاحب کی ایف ایس ایف کے ہاتھوں اغوا ہونے والے خواجہ خیرالدین، جو پی ٹی وی پر اس اغوا کی کہانی بھی بیان کر چکے تھے؛ ان سب سمیت بھٹو صاحب کے اکثر مخالف ان کی بیوہ نصرت بھٹو اور بیٹی بے نظیر بھٹو کے ساتھ مل کر فروری 1981ء میں ایم آر ڈی کا پلیٹ فارم تشکیل دے کر بحالیِ جمہوریت کی جدوجہد میں مصروف ہوگئے۔
اس سلسلے میں ہونے والے اولین اجلاس میں پگارا صاحب کی پاکستان مسلم لیگ اور سردار عبدالقیوم کی آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے نمایندے بھی شریک ہوئے۔ مگر پھر دونوں جماعتوں نے رجوع کر لیا اور ان کے رابطے ضیاء صاحب سے استوار ہوگئے۔ اس اجلاس میں مسلم لیگ کی نمایندگی محمد خان جونیجو مرحوم نے کی تھی۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے دورِ حکومت میں صدرِ مملکت بننے والے فضل الٰہی چودھری ضیاء صاحب کے مارشل لاء میں بھی اپنے عہدے پر موجود رہے یہاں تک کہ ان کی مدت پوری ہوئی تو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل محمد ضیاء الحق نے ایک حکم کے ذریعے اپنے آپ کو صدرِ مملکت بھی قرار دے دیا۔
(جاری ہے)