ہمارے معزز جج صاحبان اور وکلاء سائلین کو عدالتی نظام سے ان کے حقوق دلوانے کے لیے تنخواہیں اور فیس وصول کرتے ہیں اور ایسا کرنا ان کا حق ہے۔ یہ حق وصول کرنے کے بعد، جج صاحبان و وکلاء کا فرض بنتا ہے کہ وہ سائلین کے کیسوں کو اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے مروجہ عدالتی نظام کے اندر حل کریں۔
اس وقت پاکستان میں متبادل تنازعات کے حل کے طریقوں (Alternative Dispute Resolution – ADR) کے نام پر ایک عجیب سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ اعلی عدلیہ کے بعض جج صاحبان اور کچھ وکلاء اس سلسلے میں بہت سرگرم ہیں۔ یہ حضرات مین اسٹریم جسٹس سسٹم کے کارندے و نمائندے ہیں مگر ان دنوں ان کی زیادہ تر گفتگو اور سرگرمیاں متبادل جسٹس سسٹم کے فروغ اور استعمال کے بارے میں ہیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے آپ ایلوپیتھک سسٹم کے ڈاکٹر کے پاس علاج کے لیے جائیں اور وہ آپ کو مشورہ دے کہ پہلے کسی حکیم یا ہومیوپیتھی کے ماہر سے رجوع کریں!
آپ کا کام ہی مین اسٹریم جسٹس سسٹم کو چلانا ہے۔ ہم متبادل نظام کی افادیت و استعمال کے قائل ہیں مگر یہ آپ کے کرنے کا کام نہیں ہے۔ آج متبادل نظام کی ترویج کرنے والے بڑے کمرشل ادارے اور این جی اوز اگر پیچھے ہٹ جائیں اور اندرون و بیرون ملک منعقد ہونے والے پروگرام ختم ہو جائیں تو ہم دیکھیں گے کہ سب اسے بھول جائیں گے۔ ہم نظام انصاف کے ان اسٹیک ہولڈرز سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ ملک میں عدالتی نظام کی بہتری، ججوں کی مضبوط تربیت، وکلاء کی ٹریننگ، سائلین کے لیے سہولیات، عدالتی نظم کے لیے زیادہ ریاستی وسائل کی فراہمی، خواتین و بچوں کی داد رسی کے لیے فاسٹ ٹریک سسٹم وغیرہ جیسے امور پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں گے۔ یہ ان کے کرنے کے اصل کام ہیں۔
پاکستان کی آبادی کے تناسب سے عدالتوں اور ججوں کی شدید کمی ہے مگر اس بارے میں حکومت سے وسائل کے حصول کے بارے میں کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آتی۔ ججوں کی منظور شدہ آسامیوں کو جان بوجھ کر پورا نہیں کیا جاتا اور سائلین عدالتوں میں خوار ہوتے ہیں۔ ان مسائل کے بارے میں بھرپور گفتگو کرنے اور ان کے حل کے لیے کوششوں کے بجائے، ہمارے ان مہربانوں کو یہ غم ستا رہا ہے کہ لوگ عدالتوں میں آتے ہی کیوں ہیں!
اعلی عدلیہ کے جج صاحبان پر کسی بھی ایسے پروگرام میں شمولیت پر پابندی ہونی چاہیئے جس کا انعقاد ایسی آرگنائزیشن یا ادارے کی طرف سے ہو جو اے ڈی آر/ثالثی کے کمرشل فورم یا باڈی کے ساتھ کسی بھی طور پر منسلک ہو۔ کمرشل آربیٹریشن کے ادارے اپنی پروڈکٹس (فورم، ٹریننگ، الحاق و سرٹفیکیشن وغیرہ) کو مارکیٹنگ کی بنیاد پر فروخت کرتے ہیں اور اس کام کے لیے پاکستان کے اندر اور باہر مختلف عنوانات پر سمینار و ٹریننگ کرواتے ہیں۔ بادی النظر میں، ان پروگراموں میں ہمارے ہاں سے جو جج صاحبان شریک ہوتے ہیں، ان کے جملہ اخراجات یہی ادارے برداشت کرتے ہیں۔ یہ مفادات کے ٹکراؤ کے مترادف ہے اور اسے فوری طور پر روکا جانا چاہیئے۔
ثالثی اور تنازعات کے حل کے متبادل طریقوں کی افادیت اپنی جگہ اہم ہے، جس کے لیے ہم یہاں چند نکات پیش کرتے ہیں:
پہلا نکتہ یہ ہے کہ اے ڈی آر کی افادیت سے انکار ممکن نہیں ہے۔ ہمارے ہاں تنازعات کے حل کے لیے جو روایتی طریقے رائج رہے ہیں، وہ دراصل اے ڈی آر کی ہی ایک شکل ہیں۔ کاروباری حضرات اور تاجروں کی انجمنیں بھی یہی کام کرتی ہیں۔ جرگہ بھی اسی مقصد کے لیے بنا تھا، مگر بوجوہ ہم نے جرگے کے لفظ کو معیوب بنا دیا ہے۔ چونکہ ہمارا نظام انصاف مستعار لی گئی سوچ پر تھا، اس لیے ہم خود شکنی کے عادی ہیں۔ جو ہمارا اپنا ہے، وہ غلط و مشکوک ہے اور جو باہر سے آئے، وہ محبوب و مرغوب ہے! ہمارے جج صاحبان و وکلاء پاکستان کے عدالتی نظام کے بارے میں جب تک ہارورڈ اور آکسفورڈ وغیرہ میں کوئی تقریر نہ کریں، اس وقت تک بات میں وزن نہیں آتا۔ بیرون سے آئے قوانین و پریکٹس کو ہم نے شعار بنا لیا ہے اور اس ٹرانسپلانٹیشن سے جو مفاسد اور اجنبیت جنم لیتی ہے، اس پر گفتگو نہ ہونے کے برابر ہے۔
ہمارا ماننا ہے کہ اے ڈی آر کا تصور بنیادی طور پر صحیح اور کارآمد ہے، مگر اسے معاشرتی، مذہبی و ثقافتی سطح پر ہمارے ہاں موجود زمینی حقائق سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ اس کی زبان اور اصطلاحات کو عام آدمی کی رسائی میں رہنا چاہیے۔ بڑے کمرشل نوعیت کے معاملات کی ثالثی کو بھی پاکستان کی پبلک پالیسی اور عوامی امنگوں کے مطابق استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر، IPPs کے معاملے کو کمرشل آربیٹریشن کی نظر سے دیکھیں تو یہ سیدھا سادہ معاہدے کی انفورسمنٹ کا کیس بنتا ہے، جو سو فیصد پاور کمپنیوں کے حق میں جائے گا۔ ثالثی کے فورمز کبھی بھی تجارتی تنازعات میں اس پس منظر کو مدنظر نہیں رکھتے، جس کی بنیاد پر یکطرفہ اور مہنگے معاہدے کئے جاتے ہیں۔ ہم اسی لیے اے ڈی آر کو بہت احتیاط کے ساتھ اور عدالتی دائرے سے بالکل ہٹ کر استعمال کرنے کے حامی ہیں۔ جب جج صاحبان اس کام کی ترویج و اشاعت میں ملوث ہو جاتے ہیں، تو پورا عدالتی نظام متبادل کو مین اسٹریم کا حصہ سمجھ کر قبول کر لیتا ہے۔ عدلیہ کو قانون اور مجموعی پبلک پالیسی کے فریم ورک میں رہ کر ثالثی کے فیصلوں پر بھی نظر رکھنی چاہیے۔ جب عدلیہ خود اس کام کو پرموٹ کرنے لگے، تو تنقیدی زاویہ نگاہ گم ہو جاتا ہے، اور جج نجی ثالثی کے اداروں اور فیصلوں کے محض حامی بن کر رہ جاتے ہیں۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ دنیا کے کئی ممالک میں جج معاملات کو متبادل ذرائع کی طرف منتقل کرتے ہیں۔ اس بارے میں جج صاحبان ان ملکوں میں بہت سے اخلاقی ضوابط کے پابند ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں سردست ایسا کوئی کوڈ آف کنڈکٹ نہیں ہے۔ وہاں جج صاحبان جس متبادل کی بات کرتے ہیں، وہ متبادل ان کے اپنے نظام سے ہی نکلا ہوا ہوتا ہے، نہ کہ کسی دوسرے ملک کے کمرشل ثالثی کے نظام کو پروموٹ کیا جاتا ہے۔ جج صاحبان کو چاہیئے کہ وہ عدلیہ کو ٹھیک کریں تاکہ بیرونی سرمایہ کاروں سمیت دیگر سائلین کا اعتماد اس سسٹم پر بڑھے۔ بند کمروں اور بیرون ملک قائم اداروں میں غیر ملکی قواعد و ضوابط کے تحت ہونے والی ثالثی تکنیکی اعتبار سے درست ہو سکتی ہے، مگر اکثر اوقات یہ ان دقیق حقائق کا آئینہ دار نہیں ہوتی جن کی بنیاد پر قابل اعتراض معاہدے کئے جاتے ہیں۔
آخری نکتہ یہ ہے کہ کمرشل ثالثی اور سرمایہ کاری کے تنازعات کے حل کے فورمز کے کردار، طریقہ کار، ثالثوں کے چناؤ اور فیصلوں کے تیسری دنیا کے ممالک پر منفی اثرات کے بارے میں بہت سارا اکیڈمک کام گزشتہ کئی سالوں کے دوران ہو چکا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس کا کماحقہ ابلاغ نہیں کیا جا سکا، اور اسٹیل مل، کار وغیرہ کے کیسوں کو بنیاد بنا کر ایک ایسا ماحول تشکیل دے دیا گیا ہے کہ جو کچھ بھی عدلیہ نے ماضی میں کیا، وہ بالکل غلط تھا اور ہمارے لیے زمانے میں پنپنے کا ایک ہی راستہ ہے، جسے ثالثی کہتے ہیں۔ یہ ایک نامکمل اور جھوٹ پر مبنی بات ہے جسے پروپگنڈا اور ہائی پروفائل ابلاغ کی بنیاد پر پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ ثالثی کے اپنے مفاسد ہیں۔ یہ ایک انتہائی مہنگا، غیر شفاف اور محض تکنیکی نکات کے گرد گھومنے والا طریقہ ہے، جس کے منفی اثرات کا بوجھ اکثر و بیشتر غریب عوام اٹھاتے ہیں۔