آرمی چیف جنرل حافظ عاصم منیر کی حالیہ تقاریر سننے کا موقع ملا، جس میں چند روز قبل کاکول ملٹری اکیڈمی میں کی گئی تقریر اور آج کے نوجوانوں کے کنونشن سے خطاب شامل ہے۔ ان تقاریر کو سن کر دل میں یہ شدید خواہش پیدا ہوئی کہ ان خیالات کو قلمبند کیا جائے۔ میں جانتا ہوں کہ ایسے خیالات کا اظہار کرنا شاید "پولیٹکلی کوریکٹ” نہ ہو، خاص طور پر ان دوستوں کے سامنے جو سویلین رول کے حامی اور سیاست میں فوج کے کردار کے سخت ناقد ہیں، کیوں کہ آج کل فوج پر تنقید فیشن کا حصہ بن چکی ہے۔
لیکن اس قسم کے کسی بھی احساس جرم کو نظرانداز کرتے ہوئے، میں وہی لکھنا چاہتا ہوں جو دل و دماغ میں پوری دیانتداری کے ساتھ ابھر رہا ہے۔ جنرل عاصم منیر کے لہجے میں وہ یقین، اطمینان اور جوش محسوس ہو رہا ہے، جس کی ہماری تباہ حال معیشت اور بگڑتی ہوئی معاشرت کی اصلاح کے لیے اشد ضرورت ہے۔ ہماری تمام سیاسی قیادت، بشمول وزیراعظم، اس انداز میں عوام سے مخاطب ہونے سے قاصر ہے۔
ایک نفسیاتی طور پر بیمار شخص جیل میں بیٹھ کر اپنی منفی اور متکبر سوچ کے ذریعے ملک کو تباہی کی طرف دھکیلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس شخص نے مکمل آزادی اور اداروں کی حمایت کے ساتھ حکمرانی کی، اور ملک کو اندرونی و بیرونی محاذوں پر جو نقصان پہنچایا، وہ ہر ذی شعور پر عیاں ہے۔ البتہ سطحی سوچ رکھنے والے اور سستی دانشوری کے شکار افراد شاید اس حقیقت کو تسلیم نہ کریں، لیکن وہ ہمارے مخاطب بھی نہیں ہیں۔
جنرل عاصم منیر کی باتوں میں سچائی کی خوشبو اور خلوص کی مہک ہے۔ پاکستان اس وقت جس بحرانی کیفیت سے گزر رہا ہے، اس میں ریاست کی بقا کو یقینی بنانا اولین ترجیح ہے۔ بہت سے لوگوں کو یہ بات محض الفاظ لگے گی، لیکن یہ وقت کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ ملک میں استحکام کی ضرورت ہے تاکہ معیشت کا پہیہ دوبارہ چل سکے، اور وہ بیرونی دوست جو عمران خان کے خودسرانہ رویے سے دلبرداشتہ ہو کر پیچھے ہٹ گئے تھے، انہیں دوبارہ پاکستان کے ساتھ کھڑا کیا جا سکے۔ عمران خان کی خارجہ پالیسی کی تباہ کاریوں کا ازالہ ایک طویل، محنت طلب اور مشکل مرحلہ ہے۔
جنرل عاصم منیر اپنے ادارے کے اندر سے اصلاحات کا آغاز کر چکے ہیں۔ ہم جیسے اسٹیبلشمنٹ کے ناقدین ہمیشہ یہی سوال اٹھاتے رہے ہیں کہ فوج اپنے ادارے کے اندر احتساب کیوں نہیں کرتی۔ آج، جنرل عاصم منیر نے اس عمل کا آغاز کر دیا ہے۔ اب اگر ہم ان کے اقدامات کی تائید نہیں کریں گے، تو ہم اپنی قوم کے مجرم ہوں گے۔