یونیورسٹیوں میں نئے تعلیمی سال کے داخلے اختتامی مراحل میں ہیں، اور پبلک سیکٹر جامعات کے کئی روایتی پروگرامز اور ڈیپارٹمنٹس کو نئی انرولمنٹ کے حوالے سے شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ کئی ڈگری پروگرامز میں طلبہ کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے، جس کے باعث بعض انجینئرنگ شعبے بند ہونے کے قریب ہیں، حالانکہ ان شعبوں کا قیام سیلف فنانس پروگرامز کے ذریعے اضافی مالی وسائل حاصل کرنے کے لئے کیا گیا تھا۔ یہی صورت حال سائنس اور سوشل سائنس کے کئی دیگر شعبوں کی بھی ہے۔
اس کے برعکس کمپیوٹر سائنس، آئی ٹی، فارمیسی اور قانون جیسے شعبوں میں داخلے کے لیے درخواستوں کی بھرمار ہے۔ اسلام آباد میں چار پبلک سیکٹر جامعات، کم از کم تین نجی جامعات، اور ایک پرائیویٹ کالج اس وقت پانچ سالہ ایل ایل بی پروگرام آفر کر رہے ہیں۔ ان پبلک سیکٹر جامعات میں ایل ایل بی پروگرام کے لیے ہزاروں طلبہ نے درخواستیں دی ہیں، جبکہ صرف ساڑھے پانچ سو کے قریب طلبہ کو داخلہ مل سکے گا۔ باقی طلبہ نجی جامعات کا رخ کریں گے۔
راولپنڈی میں فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی کے ایل ایل بی پروگرام میں اس سال داخلے نہیں ہو رہے، جبکہ شہر میں کم از کم چار پرائیویٹ لاء کالجز موجود ہیں جن میں تقریباً چار سو نئے طلبہ داخلہ لیں گے۔ اس طرح جڑواں شہروں میں مجموعی طور پر بارہ سے تیرہ سو طلبہ اس سال ایل ایل بی کی تعلیم کا آغاز کریں گے۔ لندن یونیورسٹی اور دیگر برطانوی جامعات کے تین سالہ ایل ایل بی پروگرام بھی اس کے علاوہ ہیں، جن میں بھی مہنگے ہونے کے باوجود خاصی تعداد میں طلبہ داخلہ لیتے ہیں۔
قانون کی تعلیم کے حصول میں موجودہ دور میں اس قدر دلچسپی، جب کئی معروف پروگرامز بند ہونے کے قریب ہیں، ایک خوش آئند بات ہے، لیکن یہ ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ بھی ہے۔ پاکستان میں بار کونسلز سمیت کوئی بھی ادارہ اس قسم کا ڈیٹا نہیں رکھتا کہ اگلے چند سالوں میں قانون کے شعبے میں کتنے گریجویٹس درکار ہوں گے۔ قانون کی ڈگری ایسی ہے کہ اس کے فارغ التحصیل طلبہ کو بیرون ملک خدمات سرانجام دینے کے لیے نہیں بھیجا جا سکتا۔ ان طلبہ کی سو فیصد کھپت ہمیں پاکستان میں ہی کرنی ہے، لیکن اس حوالے سے کوئی تحقیق پر مبنی ٹھوس اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔ نتیجتاً ہر سال بڑی تعداد میں نئے لاء گریجویٹس نکلتے ہیں، اور ان میں سے اکثر پروفیشنل زندگی میں نامعلوم راستوں پر نکل جاتے ہیں۔
ایک اور قابل غور بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں رائج قانون کی تعلیم کے نصاب اور نظام میں بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ پانچ سالہ ایل ایل بی پروگرام کے پہلے دو سال عمومی نوعیت کے ایسے مضامین پڑھنے میں گزر جاتے ہیں جو طلبہ پہلے بھی اسکول و کالج میں بارہا پڑھ چکے ہوتے ہیں، یا انہیں محض نصاب میں بھرتی کے لئے شامل کیا گیا ہے۔ عملی طور پر ایل ایل بی کے اہم قانونی مضامین طلبہ تین سال میں ہی مکمل کر لیتے ہیں، جبکہ پانچ سالہ پروگرام کا دورانیہ طلبہ اور والدین کے لئے ایک غیر ضروری بوجھ اور محنت ہے۔ جامعات اور کالجز کو پانچ سال کی فیسیں تو مل جاتی ہیں، اس لیے ان سے کسی اصلاح کی توقع رکھنا عبث ہے۔
تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول پاکستان بار کونسل، ڈائریکٹوریٹ آف لیگل ایجوکیشن، ایچ ای سی، اور جامعات کو ٹھنڈے دل سے اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ قانون کی پانچ سالہ تعلیم کے دورانیے کو کم کرنے اور نصاب کی از سر نو تدوین کے لیے فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔