سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ تازہ پریس ریلیز میں چیف جسٹس آف پاکستان سے منسوب غیر رسمی گفتگو کے حوالے سے وضاحت پیش کی گئی ہے۔ یہ گفتگو 9 ستمبر 2024 کو نئے عدالتی سال کے آغاز کے موقع پر صحافیوں کے ساتھ ہوئی تھی، جسے غلط انداز میں پیش کیا گیا اور میڈیا میں غیر ضروری سنسنی پھیلائی گئی۔
پریس ریلیز کے مطابق، عدالتی سال کے افتتاح کے موقع پر اٹارنی جنرل، پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کو خطاب کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ ان کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی خطاب کیا، جس میں انہوں نے عدالتی نظام میں بہتری لانے کے لیے سپریم کورٹ کے فیصلوں اور مختلف کمیٹیوں کے اقدامات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے بتایا کہ کس طرح شفافیت اور احتساب کو فروغ دیا جا رہا ہے تاکہ عوام کو بروقت انصاف کی فراہمی ممکن ہو سکے۔ اس کارروائی کو یوٹیوب کے ذریعے براہ راست نشر بھی کیا گیا۔
تقریب کے بعد چائے کے وقفے میں صحافیوں نے چیف جسٹس کے گرد جمع ہو کر ان سے مختلف سوالات کیے، جن میں سے ایک سوال ان کی مدت ملازمت میں ممکنہ توسیع کے حوالے سے تھا۔ چیف جسٹس نے وضاحت کی کہ کچھ ماہ قبل وزیر قانون ان کے چیمبر میں آئے تھے اور بتایا تھا کہ حکومت چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے کی مدت تین سال مقرر کرنے پر غور کر رہی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ انہوں نے اس تجویز کو انفرادی شخصیات پر مبنی سمجھتے ہوئے اسے قبول کرنے سے انکار کیا۔ اس ملاقات میں سپریم کورٹ کے سینئر جج اور اٹارنی جنرل بھی موجود تھے۔
مزید برآں، چیف جسٹس نے وزیر قانون کی اس تجویز پر بھی گفتگو کی، جس میں پارلیمانی کمیٹی اور جوڈیشل کمیشن کو ملا کر ایک ادارہ بنانے کی بات کی گئی تھی۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ پارلیمنٹ کا اختیار ہے، لیکن یہ امید بھی ظاہر کی کہ حکومت مخالف شخصیات کو اس عمل سے باہر نہ رکھا جائے۔
چیف جسٹس نے اس بات کی بھی وضاحت کی کہ وزیر قانون کے ساتھ ان کی یہ ملاقات چند ماہ پہلے ہوئی تھی اور اس کے بعد سے اس موضوع پر کوئی نجی ملاقات یا بات چیت نہیں ہوئی۔
صحافیوں کی جانب سے ایک اور سوال وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کے حوالے سے کیا گیا، جس کے بارے میں چیف جسٹس نے کہا کہ ان کی رانا ثناء اللہ سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی اور انہیں اس بارے میں کچھ علم نہیں کہ انہوں نے کیا بیان دیا ہے۔ اس معاملے میں کوئی بھی سوالات براہ راست رانا ثناء اللہ سے کیے جائیں۔
ایک اور سوال ججز کی تعداد میں اضافے کے بارے میں پوچھا گیا، کیونکہ ملک میں زیر التوا مقدمات کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ چیف جسٹس نے جواب دیا کہ بہتر ہوگا کہ پہلے سے خالی اسامیوں کو پُر کیا جائے تاکہ عدالتیں بہتر طریقے سے کام کر سکیں۔
پریس ریلیز میں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا گیا کہ غیر رسمی گفتگو کو غلط انداز میں پیش کیا گیا، جس سے غیر ضروری سنسنی پیدا ہوئی۔ چیف جسٹس نے زور دیا کہ افراد پر غیر ضروری توجہ مرکوز کرنے کی بجائے اداروں کی کارکردگی پر توجہ دی جانی چاہیے تاکہ عوام کو بہتر خدمات فراہم کی جا سکیں۔
یہ پریس ریلیز چیف جسٹس کے سیکرٹری ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کی جانب سے جاری کی گئی ہے۔