پاکستان کا فلسطین کے ساتھ یکجہتی کا ایک طویل اور قابل فخر رشتہ رہا ہے، جو مذہبی اور ثقافتی بنیادوں پر استوار ہے۔ ریاستی اور عوامی سطح پر فلسطین کی جدوجہد کی بھرپور حمایت ہمیشہ سے کی جاتی رہی ہے، چاہے وہ دائیں بازو کی مذہبی جماعتیں ہوں یا بائیں بازو کی سیاسی تحریکیں۔
حال ہی میں فلسطین کی حمایت کے لیے منعقدہ کثیر الجماعتی کانفرنس میں تقریباً تمام اہم سیاسی جماعتوں کی شرکت قابلِ تحسین ہے۔ اس اجلاس کا مقصد غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کو اجاگر کرنا تھا اور اس نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ پاکستان کی سیاسی قیادت، سوائے تحریک انصاف کے، فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑی ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پی ٹی آئی نے اس کانفرنس میں شرکت سے گریز کیا، حالانکہ اسے اس اہم قومی مسئلے پر یکجہتی کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان جیسے ممالک کے پاس فلسطینی عوام کے لیے صرف اخلاقی اور سفارتی حمایت کا آپشن موجود ہے۔ ہماری ریاست اور فلاحی تنظیموں نے غزہ کے عوام کے لیے امدادی سامان بھی بھیجا ہے، جو ایک مثبت قدم ہے۔ تاہم، مسلم دنیا کے بڑے پلیٹ فارم، جیسے کہ او آئی سی، ابھی تک اسرائیلی جارحیت کو روکنے کے لیے کوئی ٹھوس پالیسی وضع نہیں کر سکے ہیں، جو باعث تشویش ہے۔
ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ مسلم دنیا، خاص طور پر حکمران طبقہ، اسرائیل کو کسی قسم کی سزا دینے یا اس کے خلاف عملی اقدامات اٹھانے میں ناکام رہی ہے۔ وہ عرب طاقتیں جو 1970 کی دہائی میں اسرائیل کے خلاف ’تیل کی طاقت‘ استعمال کر چکی ہیں، آج اس طرح کی کسی بھی عملی کارروائی سے گریزاں نظر آتی ہیں۔
پاکستان میں بھی اندرونی سیاسی اختلافات کو ایسے مواقع پر بالکل پس پشت ڈال دینا چاہیے۔ تحریک انصاف کا فلسطین کانفرنس میں عدم شرکت نہ صرف ایک قومی مسئلے پر لاتعلقی ظاہر کرتی ہے بلکہ سیاسی یگانگت کے فروغ کا ایک سنہری موقع بھی ضائع کر دیا گیا۔ یہ کانفرنس ایک پلیٹ فارم فراہم کر سکتی تھی جہاں سیاسی دراڑیں کم کی جا سکتیں اور مکالمے کے نئے راستے کھل سکتے تھے۔
آخر میں، یہ بات واضح ہے کہ موجودہ سیاسی بحران کا واحد حل مذاکرات کے ذریعے ہے۔ امید ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی قوتیں قومی مسائل پر یکجہتی دکھانے کا کوئی اور موقع ضائع نہ کریں اور فلسطین جیسے اہم مسئلے پر ایک آواز میں بات کریں۔