اسلام آباد(نیو زڈیسک) انسانی دماغ کئی عجائب سے بھرپور ہے اور حال ہی میں ایک 11 سالہ بچے میں دماغ کے اہم حصے غائب ہونے کے باوجود دماغ کے بقیہ حصوں نے ان حصوں کے کام بھی سنبھال لیے جس پر ماہرین بھی حیران ہیں۔اس سے قبل ایک ایسے بالغ شخص کو دیکھا جاچکا ہے جس کا 90 فیصد دماغ نہیں تھا اور وہ نارمل زندگی گزاررہا تھا جب کہ ایک خاتون کو 24 سال بعد جاکر معلوم ہوا کہ اس ک دماغ کا ایک اہم حصہ یعنی پورا سیریبلم پیدائشی طور پر موجود ہی نہیں۔ اس نئے کیس میں ایک بچہ (جس کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی ہے) 7 برس کی عمر میں دماغ کے آپریشن سے گزرا جس میں دماغ کے دائیں نصف کرے (رائٹ ہیمسفیئر) کا ایک تہائی حصہ نکال دیا گیا۔ یہ مقام دیکھنے اور الفاظ کو سمجھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔اب اصولاً بچے کو دیکھنے اور الفاظ سمجھنے میں مشکل پیش آنی چاہیے تھی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دماغ کے بقیہ حصوں نے خود میں یہ صلاحیت پیدا کرکے بچے کی اس اہم کمی کو بحال کردیا۔ بچے کو پیدائشی طور پر تشنج کے جھٹکے پڑتے تھے اور اسی وجہ سے اسے لوبیکٹومی سے گزارا گیا جس میں بدن میں جھٹکوں کی وجہ بننے والے دماغی حصوں کو نکال دیا جاتا ہے۔ اسی لیے بچے کو اس مرض سے بچانے کے لیے یہ آپریشن ناگزیر تھا۔آپریشن کے بعد بچہ اپنی دائیں جانب دیکھنے سے قاصر تھا لیکن دھیرے دھیرے دماغ کے الٹے اور تندرست حصے نے یہ ذمہ داری سنبھال لی، پہلے پہل وہ اپنی ایک آنکھ گھمانے میں کامیاب ہوا اور اس کے بعد وہ گردن گھما کر دیکھنے لگا۔ کارنیگی میلون یونیورسٹی کے ماہر ڈاکٹر مارلین بہرمان اور ان کی ٹیم نے اگلے تین سے چار برس تک اس لڑکے کا مطالعہ کیا اور کئی اہم تبدیلیوں کو نوٹ کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ دماغ کا کونسا حصہ مستحکم رہا اور کس حصے نے خود کو منظم کیا۔ پھر ماہرین نے دیکھا کہ دماغ کا ایک بڑا حصہ غائب ہونے کے باوجود لڑکے کے روزمرہ معمولات پر کوئی فرق نہیں پڑا۔اب اس بچے کا آئی کیو اس عمر کے بچوں کی اوسط سے بھی زیادہ ہے اور وہ زبان سیکھنے اور سمجھنے میں بھی کسی سے پیچھے نہیں حالانکہ الفاظ کو پروسیس کرنے والا دماغ کا اہم حصہ کب سے کاٹ کر نکالا جاچکا ہے۔ اس کے بعد ماہرین نے فنکشنل میگنیٹک ریزوننس امیجنگ یا ایف ایم آر آئی سے بچے کے دماغ اور اس کے برتاؤ کا بھی جائزہ لیا اور اس کا موازنہ دیگر 11 سالہ صحتمند بچوں کے ساتھ کیا، وہ سبق فرفرپڑھ سکتا ہے اور مناظر اور تصاویر کو اچھی طرح یاد بھی رکھتا ہے۔ماہرین کے مطابق ہمارے دماغ میں حیرت انگیز قدرتی لچک پائی جاتی ہے جو ایک جگہ ہونے والی کمی کو دوسری جگہ سے پورا کردیتی ہے۔