پاکستانی ڈرامے کی سنہری روایت کا ایک اور چراغ بجھ گیا۔ عابد علی ہم سے بچھڑ گئے، اور ہم سے صرف ایک فنکار ہی جدا نہیں ہوا، بلکہ اداکاری کی تاریخ مزید سمٹ گئی۔
وہ دور، جہاں ان جیسے فنکار اپنے کام سے جنون کی حد تک مخلص تھے۔ جن کی نظر میں لگن سے کیا ہوا کام ہی وہ واحد راستہ تھا، جس کے اختتام پر مداحوں کی عزت اور احترام ان کی منتظر ہوا کرتی تھی۔
17 مارچ 1952ء کو بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں پیدا ہونے والے عابد علی کی فنی زندگی قابلِ رشک ہے۔ کوئٹہ میں تعلیم مکمل کی، اپنے اندر کے فنکار کو دریافت کرنے کی غرض سے تلاش کی ان دیکھی منزل کو نکل پڑے۔
خوابوں کے کئی ریگستان اور امیدوں کے گلشن عبور کرتے ہوئے اپنے فنی سفر پر قائم رہے۔ کوئٹہ میں ریڈیو پاکستان سے فنی کیرئیر کی ابتدا کی، ساتھ ساتھ زندگی کے منفرد رنگوں اور خوشبوؤں سے بھی متعارف ہوئے۔ تھیٹر اور فلم میں بھی کام کیا، لیکن شناخت کا حوالہ ٹیلی وژن بنا، جن کا تاثر عہدِ موجود تک برقرار رہا۔
1970ء میں بطورِ میزبان ریڈیو پاکستان، کوئٹہ سے وابستہ ہونے کے کچھ عرصے بعد اسلام آباد کے لیے رختِ سفر باندھا اور پھر وہاں سے لاہور آگئے۔
1973ء میں پاکستان ٹیلی وژن پر اپنے پہلے ڈرامے ’جھوک سیال‘ میں اداکاری کی، پھر یہ سلسلہ چل نکلا، لیکن انہیں شہرت ’وارث‘ ڈرامے سے ملی، جس کے ذریعے ان کی اداکارانہ صلاحیتوں کا لوہا پاکستان بھر میں مان لیا گیا۔ 80ء-1979ء میں نشر ہونے والے اس ڈرامے نے ان کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔
انہوں نے اس میں ’دلاور‘ نام کا کردار نبھایا اور خوب نبھایا۔ معروف شاعر اور ڈراما نگار امجد اسلام امجد کا لکھا ہوا یہ ڈراما پی ٹی وی کی سنہری تاریخ کا ایک ایسا باب ہے، جس میں پاکستان کے فنونِ لطیفہ کی منظر کشی گہرے رنگوں میں تخلیق ہوتی دکھائی دیتی ہے۔
ان کے دیگر چند معروف ڈرامے، جن میں انہوں نے اپنی اداکارانہ صلاحیتوں کے جوہر دکھائے، ان میں
سمندر،
آن، پیاس،
دوریاں،
دشت،
مہندی،
مورت،
رخصتی،
خان صاحب،
دیارِ دل،
کچھ نہ کہو،
ناگن،
پنجرہ،
دلدل،
رمز عشق اور دیگر شامل ہیں۔
مندرجہ بالا فہرست میں ’دشت‘ وہ واحد ڈراما تھا، جس میں اداکاری کرنے کے ساتھ ساتھ عابد علی نے پروڈیوسر اور ڈائریکٹر کے فرائض بھی بخوبی نبھائے۔ یہ ڈراما معروف ڈراما نگار منّو بھائی نے لکھا تھا، جس کی کہانی بلوچستان کی روایات، عشق و محبت اور ریگستانوں میں بسے ہوئے قبیلوں کی روایات و رسومات کے احساسات کو بیان کرتی تھی۔
’شاہ جی‘ کا کردار نبھانے والے عابد علی اپنے کردار سے تصوف کے رنگ میں خود کو رنگنے میں خوب کامیاب رہے۔ معروف فنکاروں عتیقہ اوڈھو اور نعمان اعجاز کو ٹی وی کی اسکرین پر کامیابی حاصل کرنے میں اس ڈرامے نے کلیدی کردار ادا کیا تھا اور صرف یہی نہیں بلکہ اس ڈرامے کے ذریعے پاکستان کی تاریخی اور لازوال موسیقی تخلیق ہوئی، جس کو عظیم موسیقار واجد علی ناشاد نے مرتب کیا تھا۔
اس کے علاوہ پاکستان کے معروف شاعر عطا شاد کی شاعری کو نغموں کی آواز بنایا گیا، جن میں ریگستانی حُسن اور محبت کے سراب کو قید کرنے کی خواہش پھڑپھڑاتی ہے۔ ایک ڈرامے میں اتنی ساری دلکش جہتوں کو سمونے والے ہدایت کار کے تعاقب میں ریگستانوں سے پھر کوئی اور نہ آسکا۔
اس ڈرامے کے ٹائٹل گیت سمیت کل 6 گیت تھے، جن کی موسیقی دل کے سارے دروازے کھول دینے کے لیے کافی تھی۔ اس موسیقی کو سن کر احساس ہوتا ہے کہ عابد علی اپنی ذات میں ایک حساس شخص تھے، جس کے خمیر میں اپنی دھرتی کی ثقافت اور تہذیب پنہاں تھی اور وہ اس سے عشق کرتے تھے۔
یہ ڈراما صرف نام ہی کا دشت نہیں بلکہ اس دشت کو بھی پیش کر رہا تھا، جس میں محبت پانی کا کنواں اور کیفیت ریگستان میں لاحق ہونے والی پیاس تھی، جس کے درمیان چند قدموں کا فاصلہ تھا، ایک طرف موت تو دوسری طرف پیاس مقابل تھی۔
پاکستان کی تاریخ میں یہ ڈراما اپنے تہذیبی رچاؤ کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ عابد علی کا یہ بہت بڑا کریڈٹ ہے جس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ موجودہ دور میں ڈراما سیریل ’سہیلی‘ کے ساتھ ساتھ ’ماسی‘ اور ’ملکہ‘ بھی ان کی پروڈکشن کی صلاحیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
عابد علی نے اگرچہ کم مگر بہت معیاری کام کیا۔ تھیٹر کے شعبے میں مختصر اور ریڈیو پر بھی بہت تھوڑا کام کیا، لیکن ڈرامے کے بعد فلم کے شعبے میں سب سے زیادہ کام کیا۔
ٹیلی وژن اور فلم کا کیرئیر ساتھ ساتھ آگے بڑھا، ایک موڑ پر آکر ان کی فلم اپنے ڈرامے سے پیچھے رہ گئی، لیکن انہوں نے پھر بھی جو کام کیا، وہ قابلِ ستائش ہے۔
جن فلموں میں وہ اپنے اداکارانہ فن کو ثابت کرنے میں کامیاب رہے، ان میں 1979ء میں نسیم حجازی کے ناول پر بننے والی فلم ’خاک اور خون‘ شامل تھی۔ اس کے علاوہ وہ جن فلموں میں جلوہ گر ہوئے، ان میں
گمنام،
آواز،
روٹی،
نگینہ،
انسانیت کے دشمن،
کالے چور،
وطن کے رکھوالے،
کوبرا، شیر پنجاب دا،
جنگل کا قانون،
موسیٰ خان اور دیگر فلمیں شامل ہیں۔
یہ 2005ء کی بات ہے کہ میں دوستوں کے ساتھ سپر ہائی وے پر واقع ایک ریسٹورینٹ پر کھانا کھانے گیا۔ ہم اپنی محفل میں مگن تھے کہ اچانک اس وقت حسین اتفاق ہے جب اسی ریسٹورینٹ پر عابد علی بھی اپنے خاندان کے ہمراہ تشریف لائے۔ اب چونکہ وہ ہم سے ذرا ہی فاصلے پر تشریف فرما تھے، لہٰذا میں بہت اشتیاق سے انہیں دیکھتا رہا۔ مجھے آج بھی وہ لمحہ یاد ہے کہ کس طرح وہ نرم دلی اور دھیمے انداز لیکن کھنکتی آواز میں چہرے پر مسکان سجائے، کھانے کا آرڈر دے رہے تھے۔ ان کی اسی طبیعت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم نے بھی ان سے رسمی علیک سلیک کی اور اس کا جواب انہوں نے بہت ہی مثبت انداز میں دیا، یوں مجھے اندازہ ہوا کہ وہ صرف اچھے فنکار ہی نہیں انسان بھی عمدہ تھے۔
یہ تو ایک دھندلی سی یاد تھی، لیکن جو یاد میرے ذہن کے پردے پر پوری طرح روشن ہے، وہ یاد ان دنوں کی ہے، جب میں نے صحافت میں نیا نیا قدم رکھا۔ ان دنوں انٹرویو کے سلسلے میں مجھے عابد علی سے بات کرنے کا موقع ملا۔ ان سے ملاقات کا وقت لینے کی غرض سے میں نے متعدد بار فون کیا مگر وہ اپنی شوٹنگ میں مصروف تھے۔ یہ کوششیں اس قدر زیادہ تھیں کہ ایک سطح ایسی آگئی، جہاں وہ میرے نام اور آواز سے مانوس ہوگئے اور ایک دن فون پر ہی کہنے لگے ’مصروفیت تو نہ جانے کب ملاقات کی مہلت دے لہٰذا ایسا کرتے ہیں، ہم فون پر ہی مکالمہ کرلیتے ہیں‘۔
میں نے خوشی خوشی حامی بھرلی، یوں میں نے ان سے ایک مختصر اور بنیادی نوعیت کا انٹرویو کیا۔ جس محبت اور شفقت پدری سے انہوں نے گفتگو کی، اس دن مجھے پھر احساس ہوا کہ وہ ایک انسان دوست شخصیت ہیں، جن کی قد آور شخصیت ہمارے جیسے نووارد لوگوں کے لیے بھی مہربان ہے۔
عابد علی پاکستان کے ٹیلی وژن اور فلم کی اسکرین کا ایک ایسا چہرہ تھے، جن کو وقت کی گرد کبھی دھندلا نہیں سکے گی، کیونکہ ان کے ادا کیے ہوئے کردار ہمارے سامنے آتے اور جاتے رہیں گے، بالکل اسی طرح جیسے ابھی یہ احساس ہے کہ وہ کہیں نہیں گئے بلکہ ان کا جانا بھی کسی کردار کی ادا ہے، جس کو وہ ادا کرکے واپس آجائیں گے۔ لیکن یہ شاید میرا گمان ہے، حقیقت نہیں کیونکہ وہ دنیا کے اسٹیج پر، زندگی کے پنڈال سے، اپنے کام کی معراج کو چُھو کر واپس لوٹ چکے۔ اب ان جیسا کوئی نہیں آئے گا۔
مداحوں کو ان کے جانے کی کمی محسوس ہو رہی ہے، یہی وہ سچی کمائی ہے، جس کو عابد علی نے اپنی ریاضت سے حاصل کیا، ان کی یاد، تصور کے منچ پر، ان کے کرداروں کو ایک ایک کرکے واپس لاتی رہے گی، ان کی یاد کو بہلانے کے واسطے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایک عظیم فنکار اپنی کہانی مکمل کرکے رخصت ہوچکا۔ اب منچ ویران، کہانی اداس اور کردار خاموش ہیں۔