سیاست میں ایسا بھی ہو تا ہے کہ جو گڑھا آپ نے دوسروں کے لیے کھودا ہوتا ہے، ایک دن آپ اسی گڑھے میں غرقاب ہو جاتے ہیں۔ جو تیر آپ نے دشمن پر چلائے ہوتے ہیں، وہ خود اپنے سینے پر کھانے پڑتے ہیں۔
جو گالی مخالف کو دی ہوتی ہے، اس گالی کو خود ہی سہنا ہوتا ہے۔ جو الزام دوسروں کو دیا ہوتا ہے، خود اس الزام کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ اپنے ہاں سیاست اسی تغیر و تبدل کا نام ہو کر رہ گئی ہے۔
ملکی سیاست میں حالات تیزی سے بدل رہے ہیں۔ مثبت رپورٹنگ کی قدغن ختم ہو گئی ہے۔ حکومت کی نااہلی پر وہ بھی زبان دراز ہو گئے ہیں، جو حکومت کے قیام کا باعث تھے۔ معیشت زبوں حالی کا نقشہ پیش کر رہی ہے اور اس میں بہتری کے کوئی امکان نظر نہیں آر ہے۔ اپوزیشن اب سیاسی انتقام برداشت کر کے تھک چکی ہے۔ اب روز بہ روز کی گرفتایاں ان کو خوف زدہ نہیں کر رہی۔ بلکہ گرفتار لیڈران ان گرفتاریوں کے تمغے اپنے سینے پر سجا رہے ہیں، خراج پا رہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان اپنے دھرنے اور ملک گیر احتجاج پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ ان کے رویے میں کوئی لچک نظر نہیں آ رہی۔ شاید اس سختی کی وجہ ان کی وہ تضحیک ہے، جو عمران خان نے کئی برس کی ہے۔ مولانا سیاست میں گفتگو کے قائل ہیں مگر جس طرح ان کی توہین کی گئی اور جس طرح ان کے خیال میں ایک منصوبے کے تحت ان کو اسمبلیوں سے دور رکھا گیا ہے، اس کے بدلے میں وہ اب آخری وار کرنے کو تیار ہیں۔ اب وہ واپسی کا رستہ کھلا نہیں رکھنا چاہتے اور سب کشتیاں جلا کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔
مسلم لیگ ن ابھی سوچ رہی ہے۔ ان کی سوچ کا محور نواز شریف کا بیانیہ ہے۔ جیل میں قید نواز شریف سے اب اہم ملاقاتوں کا سلسسلہ شروع ہو گیا ہے۔ اب بیچ کی کوئی راہ نکالی جا رہی ہے۔ لیکن نواز شریف اب نہ تو ملک سے باہر جانے پر رضامند ہیں نہ کسی کو این آر او دینا چاہتے ہیں۔ ان کی سیاست میں اب ایک سال سے زیادہ جیل کاٹنے کے بعد بیچ کا کوئی رستہ نہیں رہا۔ وہ اب سیاہ کو سیاہ اور سفید کو سفید کہنا چاہتے ہیں۔ مریم نواز بھی تمام تر صعبوتوں کے باوجود اپنے باپ ک نقش قدم پر سختی سے جمی ہوئی ہیں۔ لیکن پارٹی سطح پر دھرنے کے معاملے پر کچھ ابہام پایا جاتا ہے۔ کچھ ایسے ہیں، جو آج ہی سڑکوں پر آنا چاہتے ہیں اور کچھ تیل اور اس کی دھار کچھ دیر اور دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ دو نقطہ نظر منظر عام پر ہیں اور ان کا یوں منطر عام پر ہونا بھی ایک سوچا سمجھا عمل ہو سکتا ہے۔
پیپلز پارٹی اگر چہ دھرنے میں شریک ہونے سے معذرت کر چکی ہے لیکن یہ خورشید شاہ کی گرفتاری سے پہلے کی بات ہے۔ اب ان کو بھی اپنی پوزیشن دوبارہ دیکھنا ہو گی۔ الیکشن سے پہلے بلوچستان اسمبلی کو گرانا ، چیئرمین سینٹ کا انتخاب اور اب دھرنے سے بائیکاٹ۔ ان چیزوں سے پیپلز پارٹی وقتی فوائد تو شاید حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہو مگر ایک ملک گیر پارٹی کے طور پر پیپلز پارٹی کی سپورٹ اس طرح کے فیصلوں سے کم ہو رہی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ پارٹی کے فیصلے پارٹی کے”مستقبل‘‘ کو مدنطر رکھ کر کیے جاتے ہیں یا پارٹی کا ”حال‘‘ پیش نطر ہوتا ہے۔
وہ چھوٹی سیاسی جماعتیں، جن کا تعلق خیبر پختونخواہ اور بلوچستان سے ہے، وہ سب دلی طور پر اس متوقع دھرنے سے متفق ہیں۔ ان کے سپورٹرز اس احتجاج میں شریک ہونے کو تیار ہیں۔ لیکن ان کا متفقہ بیانیہ ابھی منظر عام پر آنا باقی ہے۔
جہاں تک عوام کی اکثریت کا تعلق ہے تو مہنگائی کا ناگ ان کو آئے روز ڈس رہا ہے۔ پچاس لاکھ نوکریاں دلانے کا وعدہ کرنے والے اب تک لاکھوں کا روزگار چھین رہے ہیں۔ ضرورت کی ہر شے کی قیمت میں اضافہ ہو گیا ہے۔ تاریخی طور پر لوگ کبھی معیشت کی بدحالی کی وجہ سے کبھی سڑکوں پر نہیں آئے لیکن جب بہت سے معاملات اکھٹے ہو جائیں تو عوام کا عتاب کسی بھی شکل میں سامنے آ سکتا ہے۔
اکتوبر اور نومبر اس ملک کی تاریخ کے اہم مہینے ہوں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان مہینوں میں شروع ہونے والا احتجاج کیا پیغام لاتا ہے۔ میری ذاتی رائے میں اس سے پہلے کے لوگ بڑے پیمانے پر احتجاج کے لیے نکلیں، اس سے پہلے کہ معاملات سڑکوں کی سیاست تک آ جائیں ، اس سے پہلے کہ بچے بچے کی زبان پر مانوس نعرے آ جائیں، اس سے پہلے کہ مزید ویڈیوز منظر عام پر آ جائیں۔ مقتدر حلقوں کی جانب سے اس احتجاج کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گے۔ چاہے اس کے لیے نواز شریف کو تمام عدالتوں سے باعزت بری کرنا پڑے، چاہے موجودہ حکومت کو دستبردار کرنا پڑے یا چاہے نئے الیکشن کروانے پڑیں۔
اس تبدیلی کا طریقہ کار کیا ہوگا، اس پر کبھی پھر بات ہو گی۔ بس فی الوقت اتنا سمجھ لیں کہ ایسا بھی ہو تا ہے کہ جو گڑھا آپ نے دوسروں کے لیے کھودا ہوتا ہے ایک دن آپ خود اسی گڑھے میں غرقاب ہو جاتے ہیں۔ جو تیر آپ نے دشمن پر چلائے ہوتے ہیں، وہ خود اپنے سینے پر کھانے پڑتے ہیں۔ جو گالی مخالف کو دی ہوتی ہے، اس گالی کو خود ہی سہنا ہوتا ہے، جو الزام دوسروں کو دیا ہوتا ہے، خود اس الزام کا شکار ہونا پڑتا ہے۔