مولانا فضل الرحمن کا ’آزادی‘ مارچ بالا ٓخر اسلام آباد پہنچ چکا ہے۔ آزادی مارچ کے باعث ملکی سیاسی منظر نامےمیں کافی ہلچل پیدا ہو ئی ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف اور تحریکِ لبیک کے دھرنوں کے بعد اسلام آباد میں یہ تیسرا بڑا عوامی پڑاؤ ہے۔ گذشتہ دونوں تحریکیں اپنےاہداف کے حصول میں اگرچہ انتہائی محدود حد تک کامیاب رہیں لیکن ان کی وجہ سے ملک میں جو سیاسی عدمِ استحکام پیدا ہوا، وہ ہنوز برقرار ہے۔
گذشتہ دونوں دھرنوں کے پشت بان درِ پردہ عناصر وعوامل ہماری سیاسی بحث سے محو ہوئے ہی تھے کہ ایک نئی تحریک کا ظہور ہوا، جس کے بارے بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ بھی گذشتہ دو مہمات کا تسلسل ہے، ہاں البتہ چہرے نئے منتخب کیے گئے ہیں۔ تاہم مولانا فضل الرحمن یہ منوانے میں کافی حد تک کامیاب رہے ہیں کہ یہ سیاسی تحریک کسی پسِ پردہ قوت کی خواہش پر نہیں اٹھائی گئی اور وہ اس حوالے سے کسی بھی قسم کے دباؤ سے آزاد ہیں۔
موجودہ دگرگوں معاشی حالات کے پیشِ نظر کوئی بھی فرد ملک میں سیاسی استحکام کی ضرورت و اہمیت سے انکار نہیں کرسکتا، لیکن یہ بات مسلم ہے کہ سیاسی استحکام مصنوعی طور طریقوں سے پیدا کیا جانا کسی طور ممکن نہیں ہے۔ حزبِ مخالف کی سیاسی جماعتوں اور تنقیدی آوازوں کو بند کروانے سے اختلاف و انتشارکچھ وقت تک ٹل تو سکتا ہے لیکن آخر کار ایک ایسا خلا پیدا کرنے کا موجب بنتا ہے جسے پورا کرنے کے لیے غیر آئینی قوتیں سرگرم ہو جاتی ہیں۔ سیاسی قوتوں کو منظر سے ہٹانے کی کوئی بھی کوشش خاطر خواہ طویل المدتی نتائج کی ضامن نہیں بن سکتی۔
اسٹیبلشمنٹ نے سول ملٹری تعلقات میں توازن اوراستحکام کا تاثر پیدا کرنے کے لیے کافی کوششیں کی ہیں۔ تاہم ان تمام تر کوششوں کے باوجود تحریکِ انصاف کی حکومت کی کارکردگی متاثر کن نہیں رہی۔ بہتر گورننس سیاسی عدمِ یقینیت کے خاتمے میں کافی حد تک مددگار ثابت ہو سکتی ہے لیکن بدقسمتی سے موجودہ گورننس کے باعث لوگوں میں غم و غصہ جنم لے رہا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ نےمخالف آوازوں کو پلیٹ فارم مہیا کیاہے اور ماضی کے برعکس وہ ملک کے لبرل طبقات کی خاطر خواہ حمایت حاصل کرنے میں بھی کافی حد کامیاب رہے ہیں۔
مارچ کے اصل محرکات اور اسٹیبلشمنٹ کے کچھ حلقوں کی ممکنہ حمایت جیسے خیالات کو ایک طرف رکھ دیا جائے تو مولانا فضل الرحمن کو فائدہ پہنچانے والے عوامل حالیہ سیاسی بند وبست کی مرہونِ منت ہیں۔ پہلا عنصر منقسم اور دباؤ کا شکار حزبِ مخالف، دوسرا عنصر حکومت کی بدترین کارکردگی اور تیسرا عنصر طلبہ مدارس کی نئی نسل میں پروان چڑھتے اسٹیبلشمنٹ مخالف جذبات ہیں۔
مولانا فضل الرحمن پاکستان کے سب سے زیادہ عملیت پسند سیاسی رہنما کے طور پر جانے جاتے ہیں اور وہ کسی بھی سیاسی رہنما کی طرح یہ ہنر اچھی طرح جانتے ہیں کہ نامساعد حالات میں اپنی جماعت کے لیے فوائد کس طرح سمیٹے جا سکتے ہیں۔ اگرچہ مولانا فضل الرحمن شروع دن سے ہی عمران خان کے مخالف رہے ہیں اورانہوں نے گذشتہ انتخابات کو دھاندلی زدہ کہا، تاہم وہ اپوزیشن کی کمزوریوں اور مجبوریوں سےاپنے سیاسی مفادات کا حصول ممکن بنانے کی کوششوں میں بھی مصروف ہیں۔
دو بڑی اپوزیشن جماعتیں موجودہ حکومت کے آتے ہی زیرِ عتاب ہیں اور وہ اپنے اپنے طریقوں سے ان حالات کا مقابلہ کرنے کی تگ ودو میں مصروف ہیں۔ شہباز شریف کی زیرِ قیادت حزب ِمخالف کا ایک دھڑا اس دباؤ سے باہر آنے کے لیے تصادم سے بچنے کی حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہے، ان کے نزدیک حقیقیت پسندی کا تقاضہ یہی ہے۔ اس حقیقت پسندی نے اگرچہ اس دھڑے کے رہنما کے لیے یہ گنجائش ضرور پیدا کی ہے کہ وہ بلا روک ٹوک اپنے دھڑے کی قیادت کریں، بالخصوص ان ایام میں جب حکومت کی کارکردگی ناقابلِ اطمینان ہے۔ تاہم ان کی یہ حکمتِ عملی مجموعی طور پر ان کی جماعت کے لیے بالکل بھی سود مند ثابت نہیں ہوئی، جس کے باعث مولانا کو ایک شاندار موقع میسر آچکاہے کہ وہ اپنا بازوئے ہنر آزمائیں۔ تاہم ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ اس عملیت پسندی کا پھل کس کی جھولی میں گرتا ہے۔
گذشتہ دو عام انتخابات سے جمعیت علماے اسلام (ف) اسٹیبلشمنٹ مخالف موقف کی بنیاد پر سیاسی سر مایہ کاری کرتی آرہی ہے، لیکن وہ اس سے انتخابی نفع حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے تاہم اس نے طلبہ مدارس میں پنپتے اسٹیبلشمنٹ مخالف جذبات سےاپنی حکمتِ عملی کو ہم آہنگ ضرور کرلیا ہے۔ حالیہ برسوں کے دوران پاکستانی سیاست میں مدارس ایک بڑی قوت بن کر سامنے آئے ہیں۔ زیریں متوسط اور متوسط طبقات میں ان کا اثرو روسوخ اور چھوٹے شہروں اور شہری مراکز کے مضافات میں ان کے پھیلاو ٔکا عمل مسلسل بڑھ رہا ہے۔
طلبہ مدارس کی اکثریت سماجی و علاقائی حوالے سے محروم طبقات سے تعلق رکھتی ہے۔ حالیہ تحقیق کے مطابق وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کے باعث ان میں احساسِ محرومی اور غم وغصہ جنم موجود ہے۔ یہ وہ عنصر ہے جو ان میں سیاسی شعور بیدار کرنے کا موجب بن رہا ہے۔ اب تک ان کے یہ جذبات و احساسات مسلک و مذہب کے گرد گھومتے رہے تھے لیکن فرقہ وارانہ اور انتہا پسندقوتوں کے خلاف ریاست کی جانب سے گھیراتنگ کر دینے کے باعث ان کا رخ سیاسی تحرک کی جانب مڑ گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معتبر دیوبندی علما کی جانب سے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہ لینے کی اپیل کا مدارس طلبہ پر کوئی خاص اثر نہیں ہوا اور وہ ابھی بھی آزادی مارچ کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔
جماعتِ اسلامی کے پاس بھی یہ صلاحیت ہے کہ وہ زیریں متوسط طبقے اور طلبہ مدارس میں موجود احساسِ محرومی کا فائدہ اٹھا سکے لیکن اس کی ناکام پالیسیوں کے سبب وہ ان طبقات پر اپنا اثر و رسوخ کھو رہی ہے۔ اگرچہ جمعیت علماے اسلام کا اپنا ایک مستقل حلقہ انتخاب ہے اور مدارس نیٹ ورک سے بھی اسے خاطر خواہ سیاسی حمایت و مدد حاصل رہتی ہے لیکن جماعتِ اسلامی کی غلط پالیسیوں کا فائدہ بھی اسے ہی ہورہاہے۔ یہی وجہ ہے کہ جمعیت علما اسلام نے طلبہ مدارس کے جذبات و احساسات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اسٹبلشمنٹ مخالف بیانیہ اپنایا، اور یہ بیانیہ ان سرگرمیوں کے تناظر میں معنی خیز نظر آرہا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے طلبہ مدارس کو یہ یقین دلا دیا ہے کہ وہ دیوبندی مکتب فکر کے حقیقی نگہبان اور جمعیت علماے اسلام کے دستوری سیاسی موقف کے اصل ترجمان ہیں۔
یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی غلطیوں اور موجودہ حکومت کی حماقتوں کے باعث مولانا کو بنا بنایا میدان میسر آیا ہے اور انہوں نے اس سے خاطر خواہ فائدہ اٹھایا ہے۔ تاہم یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ انہیں اس ساری جد و جہد سے کیا حاصل ہوتا ہے۔ اس سے ان کے سیاسی قد کاٹھ میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے لیکن ایک حد تک، کیوں کہ اسٹیبلشمنٹ مخالف جذبات کے ترجمان کے طور پرمیاں محمد نواز شریف اس سیاسی موقف کے روحِ رواں کی حیثیت سے ابھی تک اپنا آپ منوائے ہوئے ہیں۔ آئندہ پیش آمدہ حالات و واقعات ابھی اور بہت کچھ سامنے لائیں گے، لیکن موجودہ منظرنامے میں پاکستان کی سیاسی قوتوں اور اسٹیبلشمنٹ کے لیے سیکھنے کا بہت سامان موجود ہے۔
اسٹیبلسمنٹ کو یہ بات سمجھنی ہو گی کہ کمزور اپوزیشن سیاسی استحکام کی ضمانت نہیں ہوتی، بلکہ اس کا فائدہ قدامت پسند مذہبی جماعتوں کو ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتیں، بالخصوص حزبِ مخالف بھی اس صورتِ حال سے بہت کچھ سیکھ سکتی ہے۔ پہلی اور سب سے اہم بات یہ کہ انہیں عوامی نبض پر ہاتھ رکھتے ہوئے اپنے ’حقیقت پسندانہ یا عملیت پسندانہ نقطہِ نظر‘ کا ازسرِ نو جائزہ لینا چاہیے۔ اگر وہ واقعتاً عوامی و پارلیمانی بالادستی چاہتے ہیں تو انہیں باہم مل بیٹھنا چاہیے اور اپنی مجموعی قوت کو مستحکم و توانا اور مضبوط کرنا چاہیے۔