کوئی بھی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ مولانا فضل الرحمان جیسے زیرک سیاست دان ایک بھر پور مجمع لے کر اسلام آباد اس لیے آئے کہ خالی ہاتھ گھر چلے جائیں۔
مولانا فضل الرحمان نے اپنی تقریباً تین دہائیوں پر پھیلی سیاست کا سب سے اہم جوا کیوں اور کس کے کہنے پر کھیلا؟ کیا مولانا بغیر کسی یقین دہانی اور بغیر کسی مقصد کے اسلام آباد کی جانب چل پڑے؟
اگر مولانا کو وزیراعظم کے استعفے کے بنا ہی جانا تھا تو گذشتہ دس ماہ میں پندرہ ملین مارچ اور دس ہزار سکیورٹی اہلکار تیار کرنے کا مقصد کیا تھا؟
کیا مولانا صرف اپنی سیاسی اہمیت جتلانے کے لیے یہ سب کر رہے تھے؟ کیا مولانا سیاست میں کم بیک چاہتے تھے یا مولانا سویلین بالادستی، جمہوریت اور آئین کی بالادستی کا خواب لے کر اسلام آباد آئے تھے؟
’مولانا کیوں آئے۔۔۔ کس کے اشارے پر آئے۔۔۔ اور کیا خالی ہاتھ جائیں گے‘ کے گرد گھومنے والے تمام سوالوں نے حکومت، طاقتور حلقوں، میڈیا اور اب یوں لگتا ہے کہ خود مولانا کو بھی گھما کر رکھ دیا ہے۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ مولانا کے اس مارچ نما دھرنے کی بہتی گنگا سے سب مستفیض ہو رہے ہیں، ن لیگ بھی فیض یاب ہو چکی اور پیپلز پارٹی کو بھی آنے والے دنوں میں فیض مل جائے گا۔۔۔ تو پھر مولانا کے ہاتھ کیا آیا؟
کراچی سے شروع ہونے والے اس مارچ نے بلاشبہ حکمرانوں اور مقتدروں کی نیندیں اُڑائیں۔ نواز شریف کی بگڑتی صحت اور مولانا کا مارچ۔۔۔ اُوپر سے ایک بڑے مجمعے کو اسلام آباد لانے میں کامیابی نے پہلی بار طاقتور حلقوں کو پریشانی میں مبتلا کر دیا۔
یہاں تک کہ خیبر پختونخواہ کے بڑھکیں لگاتے وزیراعلی اور پنجاب کی گم صم مگر طاقتور انتظامیہ کہیں دُبک کر بیٹھ گئی اور مولانا بغیر کسی مشکل اور روک ٹوک کے اسلام آباد کی مصروف شاہراہ کشمیر ہائی وے تک پہنچ گئے۔
استعفے کا مطالبہ، اسمبلیوں کی تحلیل اور فوج کی مداخلت کے بغیر شفاف انتخابات کا انعقاد، مطالبات کی اعلانیہ فہرست کا حصہ۔۔۔ جبکہ ملک کی جمہوری اور روشن خیال سیاسی قوتیں مولانا کے پیچھے اور عوام کا ٹھاٹیں مارتا سمندر اُن کے سامنے۔۔ مولانا اپنے کارڈز کھیلنے لگے۔
پلان اے کے مطابق وزیراعظم کے استعفے کے لیے ڈیڈ لائن دی اور اداروں کو غیر جانبدار رہنے کی تلقین بھی۔ جواب الجواب اُسی رات ایک نجی چینل پر جاری ہوا اور پھر مولانا کے ساتھ صرف قوم پرست جماعتیں ہی دکھائی دیں۔
مولانا کو کیا حاصل ہوا؟ اب تک قومی سیاست میں واپسی کے ساتھ ساتھ مولانا کو اپنے سیاسی حلیفوں سے مکمل آشنائی بھی نصیب ہو چکی ہے۔ مولانا کا پلان بی اور سی جس کا کسی کو معلوم نہیں تاہم جمہوری اداروں کی بالادستی اور قومی اداروں کے اپنے آئینی کردار میں رہتے ہوئے کردار پر اہم پیش رفت ضرور ہوئی ہے۔
وہ قومی ڈائیلاگ جس کے بارے میں پہلے سابق صدر آصف زرداری اور پھر نااہلیت کے بعد نواز شریف اور چند ہفتے پہلے چیف جسٹس ذکر کرتے دکھائی دیے اب قومی ادارے نے بھی تمام قومی اسٹیک ہولڈرز کی ہم آہنگی پر زور دے دیا ہے۔
مولانا کامیاب ہوں گے یا نہیں مگر یہ سچ ہے کہ ایسی تحریکوں اور ایسے عوامی اجتماعات کے نتائج دور تک جاتے ہیں۔
کیا مولانا ایک نئے عمرانی معاہدے کی راہ ہموار کر سکتے ہیں؟ کیا قومی مکالمے کا آغاز ہو سکتا ہے کہ جس میں آئینی حدود میں رہتے ہوئے اداروں کے کردار کا تعین ہو سکے؟ کیا مولانا اور سیاسی جماعتیں عام انتخابات کے لیے راستہ بنا رہی ہیں اور کیا واقعی شفاف انتخابات کا خواب پورا ہو سکتا ہے؟
گذشتہ دورِ حکومت میں سول اور فوجی اداروں کے مابین خلیج نے ریاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اور غیر سیاسی اداروں کی جمہوری اداروں میں مستقل مداخلت نے نہ صرف ہر ادارے کو کمزور کیا ہے بلکہ اب اس کے نقصانات اُن اداروں کو بھی پہنچنے کا احتمال ہے جو ریاست کے مضبوط ترین ستون ہیں۔
ایسے میں میاں رضا ربانی سے لے کر صدر زرداری اور میاں نوازشریف اور چیف جسٹس سے لے کر اب نو اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اس کا اظہار ہو رہا ہے۔
کچھ ماہ قبل بلاول بھٹو اور میاں نواز شریف کی جیل میں ہونے والی ملاقات میں اس بات پر زور دیا گیا کہ میثاق جمہوریت کی طرز پر نئے عمرانی معاہدے کی تشکیل کی جائے، اب مولانا اسی بات پر زور دیتے دکھائی دے رہے ہیں۔
اگر مولانا استعفے لینے میں ناکام ہو بھی جائیں مگر اداروں کے درمیان مکالمے کا آغاز ہو گیا تو یہ دھرنا ناکام نہیں کامیاب تصور ہو گا۔ کیونکہ یہ ’عمرانی‘ معاہدہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔