لندن: اکنامک انٹیلی جنس یونٹ (ای آئی یو) کی پیش گوئی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی خارجہ اور سلامتی پالیسی پاکستانی فوج تشکیل دیتی رہے گی جبکہ تحریک انصاف حکومت کی سربراہی میں حکومتی اتحاد سے اس انتظام کو تادیر تسلیم کرتے رہنے کی توقع ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق معروف معاشی اخبار دی اکنامسٹ نیوزپیپر کی جڑواں کمپنی دی اکنامسٹ گروپ کے شعبہ تحقیق و تجزیہ کی جانب سے شائع کردہ رپورٹ کا حوالہ دیا گیا کہ ’اس کے نتیجے میں شہری حکومت اور فوج کے تعلقات مثبت رہیں گے‘۔
مذکورہ رپورٹ میں سال 2020 سے 2024 تک کے لیے پاکستان کے سیاسی اور اقتصادی خدوخال کو نمایاں کیا گیا اور پیش گوئی کی گئی کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اپنی حکومتی مدت پوری کرے گی جبکہ اپوزیشن جماعتیں اپنے رہنماؤں کے خلاف قانونی کارروائیوں کے باعث انتشار کی حالت میں رہیں گی۔
رپورٹ میں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے حوالے سے بتایا گیا کہ اپوزیشن حکومت کے خلاف حکمت عملی ترتیب دے سکتی ہیں جس کا نتیجہ پارلیمان میں قانون سازی کے عمل میں مسلسل رکاوٹ کی صورت میں نکل سکتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف اس قسم کے اقدامات سے ان پر دباؤ بڑھ سکتا ہے لیکن اس سے پی ٹی آئی کی گرفت اقتدار پر ڈھیلی نہیں ہوگی۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ ’ہمارے خیال کے مطابق سیاست میں مداخلت کرنے کی طویل تاریخ رکھنے والی فوج (بشمول انٹیلی جنس ونگ) جزوی طور پر ملک کے عدالتی نظام پر اپنا ماورائے آئین اثر رسوخ استعمال کرکے حکومت کو خاموش حمایت فراہم کرتی رہے گی‘۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ’اور یہ عمران خان کی انتظامیہ پر بھی اپنا اثر و رسوخ جاری رکھیں گے بالخصوص جب خارجہ و سیکیورٹی پالیسیز کی بات ہوگی‘۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ’جب تک پی ٹی آئی کو فوج کی حمایت حاصل ہے اس کی پارٹنر چھوٹی جماعتیں اپوزیشن میں شامل ہونے کے لیے حکومتی اتحاد نہیں چھوڑیں گی‘۔
دی اکنامسٹ گروپ نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی لکھا کہ ’اس عرصے میں ایک جانب جہاں چین پاکستان کا مرکزی اسٹریٹیجک اور معاشی پارٹنر رہے گا وہیں سرحد پار دہشت گردی اور مقبوضہ کشمیر تنازع تعلقات کی بحالی میں رکاوٹ بنا رہے گا جس کے باعث بھارت کے ساتھ تعلقات کشیدہ رہیں گے‘۔
اقتصادی صورتحال
رپورٹ میں کہا گیا کہ ’جہاں معیشت میں بہتری آئی وہیں سیکیورٹی صورتحال مذکورہ عرصے کے دوران عدم استحکام کا ذریعہ بنی رہے گی اور یہ انفرا اسٹرکچر کے منصوبوں اور تجارتی سرمایہ کاری کے لیے آپریشنل اور اسٹریٹیجک چیلنج بن کر شرح نمو کی صلاحیت کو کمزور کرے گی‘۔
ای آئی یو نے مالی سال 20-2019 سے 24-2023 تک پاکستان کی حقیقی مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) اوسطً 3.1 فیصد سالانہ رہنے کی پیش گوئی بھی کی۔
تحقیقاتی گروپ کے مطابق ’ہمیں یقین ہے کہ معیشت پر بھاری ٹیکس کا بوجھ اور حکومت کی جانب سے پبلک سروس پر کم خرچ معاشی سرگرمیوں کو متاثر کرے گا‘۔
مزید یہ کہ ’مہنگائی سے شہریوں کی قوت خرید دباؤ میں جبکہ کھپت کی نمو مایوس کن رہے گی، یہ عناصر سخت مانیٹری ماحول کے ساتھ مل کر سرمایہ کاری اور معاشی نمو میں رکاوٹ بیں گے‘۔
پالیسی میکنگ
ای آئی یو نے نشاندہی کی کہ پی ٹی آئی کو ’پرعزم پالیسی ایجنڈے‘ پر منتخب کیا گیا تھا جس میں سماجی خدمات پر خرچ، گھروں کی تعمیر اور نوکریوں کی فراہمی شامل تھے لیکن بظاہر لگتا ہے کہ پاکستان کی کمزور میکرو اکنامک ان اصلاحات کے حصول میں رکاوٹ بنے گی۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ’مالیاتی اور ادائیگیوں کے توازن جیسے چیلنجز کا سامنا کرتی حکومت کے لیے سیاسی جماعت کی حیثیت سے کیے گئے یہ وعدے بہت زیادہ پر امید نظر آئے جبکہ وزیراعظم کی متعارف کردہ غربت مٹاؤ اسکیم مثلاً احساس پروگرام کی رسائی بھی محدود رہے گی۔
چین کے ساتھ تعلقات
رپورٹ میں پیش گوئی کی گئی کہ سال 2020 سے 2024 تک چین پاکستان کا مرکزی اقتصادی اور اسٹریٹیجک پارٹنر رہے گا۔
مزید کہا گیا کہ ’مالی مشکلات اور پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) سے منسلک قرض کی ذمہ داریوں پر ہچکچاہٹ کے باوجود چین نہ صرف مرکزی اسٹریٹیجک اتحادی بلکہ غیر ملکی سرمایہ کاری کا سب سے بڑا ذریعہ بنا رہے گا۔