مولانا فضل الرحمٰن کو سمجھنے میں ایک مرتبہ پھر غلطی کی گئی ہے، یہ غلطی حکمرانوں سے تو ہوئی ہے، مگر کچھ اپنے بھی شامل ہیں۔
شیخ رشید اکثر پیش گوئیاں کررہے ہوتے ہیں، شاید اسی لیے میڈیا میں چھائے رہتے ہیں۔ لیکن وہ پیش گوئی کرتے ہیں وہ سچ تو ہوتی ہیں مگر پوری نہیں۔ وہ کہتے ہیں مولانا کے آزادی مارچ کا فائدہ 2 بڑی جماعتوں نے اٹھایا ہے جبکہ مولانا خالی ہاتھ ہی جائیں گے۔
اس جملے کا پہلا حصہ تو مکمل سچ ہے لیکن دوسرے حصے میں یا تو سچ کو چھپایا گیا ہے یا پھر مولانا کو سمجھنے میں غلطی کی گئی ہے کیونکہ مولانا سیاسی کھیل کے ایسے کھلاڑی ہیں جو ہر گیند پر چوکے چھکے نہیں مارتے بلکہ آخری گیند تک باؤلر ان سے خوف زدہ ہی رہتا ہے کہ وہ کب کونسا شاٹ کھیلیں گے۔
مولانا کے قریبی حلقے الزام لگاتے ہیں کہ انہیں کسی کی خواہش پر الیکشن میں ہرایا گیا۔ مولانا جس سیاسی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں اس کا ایک مسلک ہے۔
فارغ تو نہ بیٹھے گا محشر میں جنوں میرا یا اپنا گریباں چاک یا دامن یزداں چاک
چوہدری شجاعت کے مٹی پاؤ فلسفے پر یقین رکھنے والے سمجھتے ہیں کہ مولانا کو قومی اسمبلی میں لانا اتنا پُرخطر نہ تھا جتنا خطرناک وہ باہر رہ کر ہوگئے ہیں۔
حکمرانوں کی غلط فہمی کا فائدہ اٹھا کر مولانا اپنے اہداف کی جانب بڑھ رہے ہیں اور یہ بالکل بھی ضروری نہیں کہ وہ سارے اہداف ہی حاصل کرلیں۔ علم سیاست کے طالب علم جانتے ہیں کہ سیاست میں بڑے ہدف کے ساتھ ساتھ سارے آپشن کھلے رکھنے والے ہی کامیاب ٹھہرتے ہیں۔ مولانا نے اسی اصول پر عمل کیا ہے۔ انہوں نے اپنے کارڈ کامیابی سے چھپا کر سارے راستے کھلے رکھے ہیں۔
سوال تو یہ بھی ہے کہ مولانا کیا خود آئے ہیں؟ لائے گئے ہیں؟ بھیجے گئے ہیں؟ یا بلائے گئے ہیں؟
ان سوالوں پر غور کرنے کے بجائے سرکاری حلقے یہی کہتے رہے ہیں کہ وہ خالی ہاتھ آئے ہیں اور خالی ہاتھ ہی جائیں گے۔ نیلام گھر کے میزبان طارق عزیز جب مقابلے کے شرکا کو غلطی کی گنجائش دینے پر تیار نہیں ہوتے تھے تو یہی کہتے تھے غلطی ہوگئی میرے بھائی۔ وزیرِاعظم عمران خان کو کون سمجھائے اور وہ کیا سمجھیں گے کہ ان کو سمجھانے والے اکثر چاپلوس ہیں۔ سچے اور مخلص لوگ اب ان کے قریب نہیں ہیں اور جو باقی رہ گئے ہیں وہ ناراضگی کے خوف سے نہیں بتا رہے۔
کچھ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ مولانا بند گلی میں آگئے۔
اب اور کیا کروں کہ یہ قصہ تمام ہو میں خود کولے کے بند گلی تک تو آگیا
مولانا فضل الرحمٰن کہتے ہیں کہ وہ خود بند گلی میں نہیں آئے بلکہ انہیں دھکیلا گیا ہے، بلکہ دیوار سے لگایا گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اب واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے اور ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کی جگہ نہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ جب آگے دیوار ہو اور سائل پیچھے جانے پر تیار نہ ہو تو وہ یا تو وہیں جان دے دیتا ہے یا پھر پھر دیوار گرانی پڑتی ہے۔
ایک مخصوص ذہنی ساخت رکھنے والوں کا خیال ہے کہ مولانا بغیر کسی سہارے چلے آئے ہیں اور یونہی چلے جائیں گے۔ عمران خان کے 126 دن کے دھرنے کو تو سہارے بھی حاصل تھے، مگر پھر بھی وہ نواز شریف سے استعفیٰ نہیں لے سکے تھے، تو بھلا اب عمران خان کیا دیں گے؟
یہ بات درست ہے کہ عمران خان استعفیٰ نہیں دیں گے، اور شاید مولانا ایسا چاہتے بھی نہیں ہیں۔ یہ ان کا بلند و بانگ نعرہ تو ہوسکتا ہے، اصل ہدف نہیں۔ ممکن ہے وہ اس ہدف کو اگلے کسی موقع تک مؤخر کردیں۔ عمران خان نے ایسا ہی کیا تھا۔ جو لوگ مولانا کے اندازِ سیاست کو سمجھتے ہیں، وہ خوب جانتے ہیں کہ مولانا امکانات کے کھلاڑی ہیں اور سرنگ کے اس پار سے آنے والی مدہم سی روشنی کی لکیر میں بھی سرنگ کو منور کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔
سیاسی مبصرین کے نزدیک مولانا فضل الرحمٰن کی آمد اور روانگی کے درمیانی وقفے میں اٹھنے والے سوال اہم ہیں۔ یعنی آئے؟ لائے گئے؟ بھیجے گئے؟ یا بلائے گئے ہیں؟ اور یہ بھی کہ مولانا کب تک وفاقی دارالحکومت میں بیٹھیں گے؟
اس موجودہ صورتحال میں نواب زادہ نصراللہ خان بہت یاد آرہے ہیں کہ مولانا اب ان کے سیاسی وارث بن چکے ہیں کیونکہ دونوں نے ہی سیاست میں امکانات کی سیاست کو بڑھاوا دیا۔ بس مولانا اور ان میں فرق یہ ہے کہ مولانا سیاسی جماعتوں کے قائدین کے ساتھ ساتھ مجمع اکٹھا رکھنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ پھر نواب زادہ سیاست میں کم پر اکتفا کے عادی تھے لیکن مولانا کی سوچ ان سے مختلف ہے۔
علامہ طاہرالقادری، جو سیاست سے تائب ہوچکے ہیں، دھرنے کے دوران ایک روز روانی میں کہہ گئے تھے کہ بار بار طعنہ دیا جارہا ہم مطلوبہ تعداد میں لوگ نہیں لاسکے۔ میں کہتا ہوں کہ تم راستے کھولو تو ہم لوگ بھی لادیں گے۔ لیکن مولانا تو جتنے لوگ لاسکتے تھے لے آئے، اس لیے کوئی انہیں طعنہ نہیں دے گا بلکہ ان کی شرائط پر تو کام ان کے دھرنے سے پہلے ہی شروع ہوگیا تھا۔
اب رہے سوالوں کے جواب، تو ان کے لیے کچھ عرصے پیچھے جانا ہوگا۔ 2018ء میں ہونے والے انتخابات کے نتائج کے فوری بعد مولانا فضل الرحمٰن نے اپوزیشن کی بڑی جماعتوں کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ اسمبلی نہ جائیں، مگر ان کی بات جمہوریت کو چلنے دینے کے نام پر نہیں مانی گئی۔ دوسری طرف مولانا بھی حالت سازگار نہ ہونے کے باعث خاموش تو ہوگئے مگر نہ حکومت کو تسلیم کیا اور نہ عمران خان کو برداشت۔
حکومت کے 14 ماہ کے دوران عمران خان مسلسل این آر او نہ دینے کی بات کرتے رہے اور مولانا ساتھیوں کو مناتے رہے، بالاآخر بعض مثبت اشارے ملنے پر مولانا نے رختِ سفر باندھا۔ عمران خان فی الحال اپوزیشن کو ریلیف دینا نہیں چاہتے، مگر شاید انہیں سمجھایا گیا کہ ریلیف دے دیا جائے، مگر ہاں کچھ اس طرح کہ دامن پر کوئی چھینٹ نہ آئے، یعنی سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔
اب میاں نواز شریف کی رہائی اور بیرونِ ملک روانگی کی باتیں اس امر کی تصدیق کر رہی ہیں۔ عمران خان نے دباؤ میں آکر فیصلے قبول کرلیے ہیں، اور ایسا لگ رہا ہے کہ آگے چل کر بھی وہ مزید ایسے ہی فیصلے کریں گے اور مخالفین یوٹرن کی پھبتی کستے رہ جائیں گے۔
کہنے والے تو یہ بھی کہہ رہے تھے کہ حکومت تو کچھ دینے کے لیے تیار ہی نہیں تو آخر مولانا کیا لے کر جائیں گے؟ مگر ان کی اس غلط فہمی نے یہ کمال کیا کہ مولانا کے آزادی مارچ نے انہیں ملک کا سب سے بڑا اپوزیشن رہنما بنادیا۔ اب مولانا کی پوزیشن وہی ہوگئی ہے جو 2002ء کے انتخابات کے بعد تھی۔ نواز شریف کے بعد سابق صدر زرداری بھی ریلیف لینے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
اسلام آباد سے واپسی پر وہ 13 نشستوں والی جے یو آئی کے سربراہ نہیں بلکہ با وزن سیاسی قائد بن کر لوٹیں گے۔ 2002ء کے انتخابات کے بعد کی اندرونی صورتِ حال سے واقف افراد جانتے ہیں کہ مولانا وزیرِاعظم بننے کے لیے تیار تھے، اور ان کے مسلکی ساتھی مولانا اعظم طارق ظفراللہ جمالی کو ووٹ نہ دیتے تو آج مولانا چوہدری شجاعت کی طرح سابق وزیرِاعظم کہلاتے۔
یہ تو خیر ایک جملہ معترضہ تھا مگر اس میں اب کوئی شک نہیں کہ نواز شریف اور آصف زرداری کے سیاسی منظر سے ہٹ جانے کے بعد مولانا کے قد کا رہنما ان دونوں جماعتوں میں نہیں ہے، اس لیے وہ سیاسی منظر پر چھا جانے کا عزم رکھتے ہیں۔ نواز شریف کے باہر جانے کی وجہ چاہے کچھ بھی ہو، مگر عام خیال یہی ہے کہ یہ سب کچھ مولانا کے دھرنے کے دباؤ کے نتیجے میں ہوا ہے۔
اس ڈیل کی بُنت اس طرح کی گئی ہے کہ فریقین کے پاس اپنے مؤقف کے حق میں کہنے کو بھی بہت کچھ ہے۔ پھر بعض سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ آزادی مارچ کے بعد پس پردہ معاملات طے ہونے کے بعد عوام کو بھی کچھ ریلیف ملنے کا امکان ہے کیونکہ حکومت کو خدشہ ہے کہ عوام میں بڑھتی بے چینی سے کوئی فائدہ اٹھا سکتا ہے، جس کا نقصان براہِ راست حکومت کو ہوگا۔
دوسری طرف شہباز شریف نے بھی مسلم لیگ (ن) کی جانب سے ڈیل میں پس پردہ کردار ادا کیا ہے لیکن مولانا نے میدان میں آکر ایک طرف تو دونوں بڑی جماعتوں کو ریلیف دلا کر ان پر احسان کردیا تو دوسری جانب اپنے لیے بھی سیاست کی راہیں ہموار کرلیں۔
اس لیے میرا نہیں خیال کہ اب اس بر مزید بات کی جائے کہ مولانا خالی ہاتھ جائیں گے یا کچھ لے کر!