سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی اور سنگین غداری کے مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے انھیں سزائے موت دینے کا حکم دیا ہے۔
یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ کسی شخص کو آئین شکنی کے جرم میں سزا سنائی گئی ہے۔
جسٹس سیٹھ وقار، جسٹس نذر اکبر اور جسٹس شاہد کریم پر مشتمل خصوصی عدالت نے یہ مختصر فیصلہ منگل کی صبح سنایا۔
یہ ایک اکثریتی فیصلہ ہے اور بینچ کے تین ارکان میں سے دو نے سزائے موت دینے کا فیصلہ کیا جبکہ ایک رکن نے اس سے اختلاف کیا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کا مقدمہ ثابت ہوتا ہے اور آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت انھیں سزائے موت سنائی جاتی ہے۔
آئین کی شق نمبر چھ کے مطابق وہ شخص جس نے 23 مارچ 1956 کے بعد آئین توڑا ہو یا اس کے خلاف سازش کی ہو ، اس کے عمل کو سنگین غداری قرار دیا جائے گا اور اس کو عمر قید یا سزائے موت سنائی جائے گی۔
اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کے لیے 30 دن کا وقت مقرر ہے تاہم اپیل دائر کرنے کے لیے پرویز مشرف کو پاکستان واپس آ کر عدالت کے سامنے پیش ہونا ہو گا۔
جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے 1999 میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کی حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کی تھی جس کے بعد وہ 2001 سے 2008 تک ملک کے صدر بھی رہے تھے۔
تین برس سے زیادہ عرصے سے وہ ملک سے باہر ہیں اور اس وقت دبئی کے ایک ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں۔
عدالت میں منگل کو کیا ہوا؟
منگل کو عدالتی کارروائی کے دوران وکیل استغاثہ نے عدالت سے استدعا کی کہ مشرف کے سہولت کاروں اور ساتھیوں کو بھی اس کیس میں فریق بنایا جائے اور تمام ملزمان کا ٹرائل ایک ساتھ ہونا ضروری ہے۔
حکومتی وکیل نے سابق وزیر اعظم شوکت عزیز، سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ عبدالحمید ڈوگر اور سابق وزیر قانون زاہد حامد کو شریک ملزم بنانے کی استدعا کی تھی۔
اس پر خصوصی عدالت کے جج جسٹس شاہد کریم کا کہنا تھا کہ آپ اس چارج شیٹ کو کیوں ترمیم کرنا چاہتے ہیں؟ آپ نئی شکایت کیوں نہیں دائر کرتےان لوگوں کے خلاف جن پر مددگار ہونے کا الزام ہے؟
جسٹس شاہد کریم کا کہنا تھا کہ استغاثہ نئی استدعا کے ذریعے کیس میں تاخیر کرنا چاہتا ہے۔ اس پر وکیل استغاثہ کا کہنا تھا کہ نئی شکایت دائر کرنے سے ٹرائل میں تاخیر ہو سکتی ہے جبکہ چارج شیٹ میں ترمیم سے ٹرائل میں تاخیر نہیں ہوگی۔
جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ جرم میں سہولت کاروں کے معاملے پر سپریم کورٹ کا فیصلہ پہلے ہی آ چکا ہے، ساڑھے تین سال بعد ایسی درخواست آنے کا مطلب ہے کہ حکومت کی نیت ٹھیک نہیں ہے، آج مقدمہ حتمی دلائل کیلئے مقرر تھا تو نئی درخواستیں آ گئی ہیں۔
جسٹس نذر اکبر نے وکیل استغاثہ سے استفسار کیا کہ آپ جنھیں ملزم بنانا چاہتے ہیں ان کے خلاف کیا شواہد ہیں۔ انھوں نے کہا کہ نئی تحقیقات اور شواہد کا مرحلہ گزر چکا ہے۔
وکیل استغاثہ کا کہنا تھا کہ ستمبر 2014 کی درخواست کے مطابق شوکت عزیز نے پرویز مشرف کو ایمرجنسی لگانے کا کہا۔ اس پر جسٹس نذر اکبر کا کہنا تھا کہ آپ مشرف کی درخواست کا حوالہ دے رہے ہیں جس پر فیصلہ بھی ہو چکا۔
جسٹس نذر اکبر نے مزید کہا کہ ترمیم شدہ چارج شیٹ دینے کے لیے دو ہفتے کی مہلت دی گئی تھی جس پر استغاثہ کا کہنا تھا کہ قانون کے مطابق فرد جرم میں ترمیم فیصلے سے پہلے کسی بھی وقت ہو سکتی ہے۔
جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ آپ نے مزید کسی کو ملزم بنانا ہے تو نیا مقدمہ دائر کر دیں۔انھوں نے کہا کہ تین افراد کو ملزم بنایا تو حکومت سابق کابینہ اور کور کمانڈرز کو بھی ملزم بنانے کی درخواست لے آئے گی۔
جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ عدالت کی اجازت کے بغیر فرد جرم میں ترمیم نہیں ہو سکتی اور عدالت کی اجازت کے بغیر کوئی نئی درخواست نہیں آ سکتی۔ ‘جو درخواست باضابطہ دائر ہی نہیں ہوئی اس پر دلائل نہیں سنیں گے۔’
جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ استغاثہ کو یہ بھی علم نہیں کہ عدالت میں درخواست کیسے دائر کی جاتی ہے۔ اس پر پراسیکیوٹر نے عدالت سے معذرت کر لی۔ اس پر جسٹس نذر اکبر کا کہنا تھا کہ آپ کا مقصد صرف آج کا دن گزارنا تھا۔
جسٹس شاہد کریم نے استفسار کیا کہ سیکرٹری داخلہ کابینہ کی منظوری کے بغیر کیسے چارج شیٹ ترمیم کر سکتے ہیں؟ وفاقی حکومت اور کابینہ کی منظوری کہاں ہے؟
جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ حکومت کارروائی میں تاخیر نہیں چاہتی تو شریک ملزمان کے خلاف نئی درخواست دے سکتی ہے، جسٹس شاہد کریم
اس کارروائی کے بعد جسٹس وقار احمد سیٹھ نے استغاثہ کو حتمی دلائل شروع کرنے کو کہا۔ پراسکیوٹر نے کہا کہ مشرف کے خلاف تحقیقاتی ٹیم کے دو ارکان کے بیان ریکارڈ نہیں ہوئے اور عدالت میں ایک درخواست تحقیقاتی ٹیم کے ارکان کی طلبی کی بھی ہے۔
پراسکیوٹر علی ضیا باجوہ نے کہا کہ ایسے ٹرائل پر دلائل کیسے دوں جو آگے چل کر ختم ہو جائے؟ عدالت حکومت کو درخواستیں دائر کرنے کا وقت دے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ملزم کا دفعہ 342 کا بیان بھی ریکارڈ نہیں ہو سکا ہے۔
جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ سپریم کورٹ پرویز مشرف کا 342 کے بیان کا حق ختم کر چکی ہے کیونکہ پرویز مشرف چھ مرتبہ 342 کا بیان ریکارڈ کرانے کا موقع ضائع کر چکے ہیں۔
جسٹس وقار احمد سیٹھ نے کہا کہ آپ حتمی دلائل نہیں دے سکتے تو روسٹم سے ہٹ جائیں، عدالت صرف سپریم کورٹ کے فیصلوں کی پابند ہے۔
جسٹس وقار احمد سیٹھ نے پراسیکیوٹر علی ضیا باجوہ سے پوچھا کہ کیا آپ مرکزی کیس پر دلائل دینا چاھتے ہیں یا نہیں؟ جس پر علی باجوہ نے کہا کہ ‘میں دلائل نہیں دینا چاہتا۔تیاری نہیں ہے۔’
جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ ہمارے سامنے صرف سپریم کورٹ کا حکم ہے اس کے تحت کارروائی چلائیں گے۔
اس پر پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر روسٹرم پر آ گئے جس پر جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ ‘سلمان صفدر آپ کی ضرورت نہیں آپ بیٹھ جائیں۔’
عدالتی کارروائی کے بعد ججز کمرہ عدالت سے اٹھ کر چیمبر میں چلے گئے اور پھر جسٹس وقار سیٹھ نے مختصر فیصلہ پڑھ کر سنایا۔
پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس کا پس منظر
سنہ 2013 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد پاکستان مسلم لیگ نواز نے حکومت میں آنے کے بعد سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کا مقدمہ درج کیا تھا۔
اس مقدمے کے منطقی انجان تک پہنچنے کے دوران خصوصی عدالت کے چار سربراہان تبدیل ہوئے۔
پرویز مشرف صرف ایک مرتبہ ہی خصوصی عدالت کے سامنے پیش ہوئے ہیں جب ان پر فرد جرم عائد کی گئی تھی۔ اس کے بعد سابق فوجی آج تک عدالت پیش نہیں ہوئے۔
سابق صدر پرویز مشرف مارچ 2016 میں طبی بنیادوں پر بیرون ملک چلے گئے تھے۔ ان کا نام اس وقت کی حکمراں جماعت مسلم لیگ ن نے ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے خارج کرنے کے بعد ملک سے جانے کی اجازت دی تھی۔
پرویز مشرف پر فرد جرم عائد
اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے 31 مارچ 2014 کو غداری کے مقدمے میں پاکستان کے سابق فوجی صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف پر فردِ جرم عائد کی تھی۔
سابق فوجی صدر کے خلاف سنگین غداری کے مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے ملزم پرویز مشرف کی طرف سے تین نومبر 2007 میں ملک میں ایمرجنسی لگانے سے متعلق اس وقت کی وفاقی حکومت اور اعلیٰ عسکری اور سول قیادت کو شریک جرم کرنے سے متعلق درخواست کو جزوی طور پر منظور کیا۔
21 نومبر 2014 کو خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس فیصل عرب نے اپنے فیصلے میں اُس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز، وفاقی وزیر قانون زاہد حامد اور سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کو بھی مقدمے میں شامل کرنے کا حکم دیا۔
تین رکنی خصوصی عدالت میں شامل جسٹس یاور علی نے اس فیصلے کے خلاف اختلافی نوٹ لکھا جس میں انھوں نے کہا ہے کہ ابھی تک ایسے شواہد نہیں ملے جن سے ظاہر ہوتا ہو کہ شوکت عزیز، عبدالحمید ڈوگر اور زاہد حامد کا ایمرجنسی لگانے کے فیصلے میں کوئی کردار رہا ہو۔
ستمبر 2015 میں پاکستانی حکومت کی جانب سے یہ کہا گیا کہ وہ پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کے مقدمے میں اُن کے سہولت کاروں کے خلاف تفتیش کرنے کو تیار ہے۔
مشرف کی بیرون ملک روانگی
18 مارچ 2016 کو سابق فوجی صدر پرویز مشرف علاج کی غرض سے دبئی چلے گئے تھے۔ دبئی روانگی کے وقت انھوں نے کہا تھا کہ وہ کمر کی تکلیف میں مبتلا ہیں اور اس کے علاج کے لیے جا رہے ہیں اور وہ جلد پاکستان واپس آکر اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کریں گے۔
مارچ 2016 میں خصوصی عدالت نے وفاقی حکومت سے تحریری وضاحت طلب کی تھی کہ عدالت سے پوچھے بغیر ملزم کو بیرون ملک کیوں جانے دیا گیا؟
عدالت نے سیکرٹری داخلہ کو حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس بارے میں تحریری جواب جمع کروائیں۔ جبکہ اس وقت کے حکومتی وکیل اکرم شیخ نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر ملزم کا نام ای سی ایل سے نکالا گیا۔
یاد رہے کہ سابق صدر پرویز مشرف کا نام سنگین غداری کیس میں 5 اپریل 2013 کو ای سی ایل پر ڈالا گیا تھا۔
پرویز مشرف کا بیان سکائپ پر ریکارڈ کرنے کا حکم
سات مارچ 2019 کو سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کے مقدمے میں بطور ملزم ان کا بیان ویڈیولنک کے ذریعے ریکارڈ کرنے کا حکم دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے خصوصی عدالت میں زیر سماعت اس مقدمے کو اپنے منطقی انجام تک پہنچانے میں ہونے والی تاخیر اور ملزم کی وطن واپسی کے لیے حکومتی اقدامات سے متعلق اٹارنی جنرل سے رپورٹ بھی طلب کی ۔
وطن واپسی کے لیے پرویز مشرف کی شرط
رواں برس 11 جون کو پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے نادرا کے حکام کو حکم دیا تھا کہ وہ سابق فوجی صدر پرویز مشرف کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کو بحال کر دیں۔
جبکہ سابق فوجی صدر نے سپریم کورٹ کی جانب سے ان کے خلاف درج ہونے والے تمام مقدمات میں انھیں ضمانت دینے کی شرط پر وطن واپس آنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔
پرویز مشرف کا حقِ دفاع مسلسل غیر حاضری پر ختم
رواں برس 12 جون کو خصوصی عدالت نے سابق فوجی صدر کا دفاع کا حق ختم کرتے ہوئے اُن کے وکیل سے کہا تھا کہ اب وہ ان کا دفاع نہیں کر سکتے۔
عدالت نے مشرف کے مسلسل غیر حاضر رہنے پر ان کا حق دفاع ختم کیا۔
چیف جسٹس کا ٹرائل مشرف تک محدود رکھنے کا حکم
سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس میں سب سے اہم موڑ اس وقت آیا جب پاکستان کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اس مقدمے کے لیے قائم کی گئی خصوصی عدالت کو وفاقی حکومت کی شکایت کے عین مطابق ٹرائل صرف سابق آرمی چیف تک ہی محدود رکھنے کا حکم دیا تھا۔
استغاثہ کی پوری ٹیم فارغ
اکتوبر 2019 میں سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس میں وفاقی حکومت نے استغاثہ کی پوری ٹیم فارغ کر دی جبکہ خصوصی عدالت نے حکومت سے اس اقدام کی وجوہات مانگ لی تھیں۔
فیصلہ نہ سنانے کا حکم
19 نومبر کو پرویز مشرف کی مسلسل غیر حاضری کی وجہ بتاتے ہوئے سنگین غداری کیس سننے والی تین رکنی خصوصی عدالت نے اس ٹرائل کا فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ مقدمے کا فیصلہ 28 نومبر کو سنایا جائے گا
تاہم 27 نومبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے عدالت کو فیصلہ سنانے سے روکتے ہوئے حکم دیا تھا کہ فیئر ٹرائل کے تقاضے پورے کرتے ہوئے فریقین کو سن کر فیصلہ دیا جائے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کے بعد خصوصی عدالت میں اس مقدمے کی مزید تین سماعتیں ہوئیں اور 17 دسمبر کو فیصلہ سنا دیا گیا۔