پاکستان نے بھارت کے اس دعوے کو جھوٹ پر مبنی قرار دیا کہ کشمیر میں صورت حال نارمل ہے اور اقوام متحدہ سے مداخلت کی اپیل۔
اقوام متحدہ میں پاکستانی مندوب منیر اکرم نے کہا ہے ”بھارت کے ایسے تمام دعوے، جس میں وہ جموں و کشمیر کی صورتحال نارمل ہونے کی بات کرتا ہے، جھوٹ پر مبنی ہیں۔‘‘ بھارتی حکام جمعرات نو جنوری کو دلی میں مقیم تقریبا سولہ بیرونی سفارت کاروں کو دو روزہ دورے پر جموں کشمیر لے کرگئے تھے، جس کا مقصد یا بتانا تھا کہ کشمیر میں حالات معمول پر ہیں۔ اسی موقع پر اقوام متحدہ میں پاکستانی سفیر منیر اکرم نے کشمیروں کی حالت زار کا مسئلہ اٹھایا اور بھارت پر سخت تنقید کی۔ انہوں نے بھارت اور پاکستان کے مابین تنازعات کو ختم کرانے اور کشمیری عوام کو حق خودارادیت دلانے کے لیے اقوام متحدہ سے فوری طور پر سخت کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا۔
منیر اکرم نے اپنے خطاب میں کہا، ”پاکستان بھارت کے ساتھ جنگ نہیں چاہتا ہے۔ لیکن اگر بھارت کی جانب سے حملہ ہوا تو پاکستان اسی طرح جواب دے گا جس طرح اس نےگزشتہ فروری میں کارروائی کی تھی۔ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کو پامال کیا جا رہا ہے اور اقوام متحدہ کو چاہیے وہ ان خلاف ورزیوں کی روک تھام کے لیے فوری طور مناسب کارروائی کرے۔‘‘
منیر اکرم کا کہنا تھا کہ بھارت نے جو اپنے ملک کا نیا نقشہ جاری کیا ہے اس میں پاکستان کے زیرانتظام کشمیر اور گلگت بلتستان کو بھی شامل کیا گيا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ برس بھارت نے تین ہزار بار سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔
بھارتی سفیر سید اکبرالدین نے اس کے جواب میں کہا، ”پاکستانی وفد غلط بیانی سے کام لے رہا ہے۔ ہم اس کو پوری طرح سے مسترد کرتے ہیں۔ پاکستان کو میرا آسان سا جواب یہ ہے کہ پہلے وہ خود کو درست کریں۔ ان کے منصوبے یہاں نہیں چلنے والے ہیں۔‘‘کشمیر میں کرفیو، موبائل اور انٹرنیٹ سروس معطل بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے مختلف علاقوں میں مشتعل مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
اس موقع پر بھارتی سفیر نے اقوام متحدہ کے چارٹر پر کھلی بحث کے دوران اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اصلاحات کا مطالبہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بات قبول کی گئی ہے کہ موجودہ دور کے مسائل کی مناسبت سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو اب شناخت اور قانونی حیثیت جیسے بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل اکیسویں صدی کے تقاضوں کے مطابق ہونی چاہیے، تاکہ نئے عالمی مسائل کی نمائندگی کرسکے۔
بھارتی حکومت نےگزشتہ برس اگست میں کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرتے ہوئے کرفیو جیسی بندشیں عائد کر دی تھیں تب سے جاری پابندیوں سے معاشرے کا ہر طبقہ اور اور ہر سطح کے کاروبار پر برا اثر پڑا ہے۔ وادی میں بیشتر سماجی و سیاسی سرگرمیاں پوری طرح ٹھپ ہیں اور لوگوں میں خوف و ہراس کا ماحول ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ سکیورٹی کے خدشات کے پیش نظر یہ پابندیاں ضروری ہیں۔