حکومت کی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے خالد مقبول صدیقی جو انفارمیشن ٹیکنالوجی کی اہم وزارت پر فائز تھے ان کے وزارت سے مستعفی ہونے کے فیصلے نے وفاقی دارالحکومت میں سیاسی ہلچل پیدا کر دی ہے۔
حکومتی سطح پر ان کے استعفیٰ کی خبر نے اتنا اضطراب پیدا کیا کہ وزیراعظم سے لیکر گورنر سندھ اور اہم وفاقی وزراء بھی فعال نظر آئے اور فوری طور پر رابطوں اور حکمت عملی پر غوروخوص کیلئے مشاورت شروع کر دی گئی۔ اس حقیقت کے باوجود حکومتوں سے علیحدگی اختیار کرنا اور وزراء کا مستعفی ہونے کے اعلان کے بعد یقین دھانیاں حاصل کرنے کے فوری بعد پرانی تنخواہ پر کام کرنے کے حوالے سے ایم کیو ایم کا ریکارڈ کوئی اتنا قابل رشک نہیں۔ لیکن اس کے باوجود حکومتی صفوں میں بے چینی اور تشویش کا درجہ حرارت غیر معمولی دکھائی دینا خاصا حیران کن ہے کیونکہ جہاں وزیراعظم عمران خان نے خود اپنے رفقا کو مستعفی وزیر سے رابطے کی ہدایت کی، قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر نے اس حوالے سے اپنے
کردار کا آغاز کیا اور گورنر سندھ عمران اسماعیل نے بلاتاخیر مقبول صدیقی سے فون پر رابطہ کرکے ان کے مطالبات اور موقف کی حمایت کی، وہاں معاون خصوصی اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان سمیت کم وبیش 6 وفاقی وزراء جن میں فواد چوہدری، فیصل واوڈا، اسد عمر اور شفقت محمود بھی ان میں شامل ہیں ،نے اس صورتحال پر بیانات دیئے حکومت کی جانب سے اضطرابی ردعمل کی اس سطح سے دانندگان راز مختلف توجہیات پیش کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ ایم کیو ایم ہی وہ جماعت ہے 2018 کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی نشستوں پر جس کے سات ارکان کی حمایت سے ہی تحریک انصاف حکومت بنانے کی پوزیشن میں آئی تھی اور آج بھی جن اتحادی جماعتوں پر ایوان میں اکثریت کے حوالے سے حکومت انحصار کر رہی ہے ان میں ایم کیو ایم کے یہ سات ارکان کسی بھی وقت فیصلہ کن ثابت ہوسکتے ہیں۔