پاکستان مسلم لیگ (ن) میں نواز شریف اور شہباز شریف کے کیمپس پارٹی کی جانب سے پاکستان آرمی (ترمیمی) ایکٹ پر غیر مشروط حمایت کرنے پر مطمئن ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ ان کا یہ ‘اقدام’ آئندہ دنوں میں ان کے لیے ‘اچھی خبر’ لائے گا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہاں اور لندن میں پارٹی رہنماؤں سے گفتگو میں، ڈان کو یہ معلوم ہوا کہ پارٹی کی قیادت نے ایکٹ کی حمایت میں ووٹ دینے کا فیصلہ سوچ سمجھ کر کیا تھا اور انہیں معلوم تھا کہ پارٹی کو بدلے میں (اسٹیبلشمنٹ سے) کیا مل سکتا ہے جبکہ عوام بالخصوص ان کے ووٹرز کا کیا ردعمل ہوگا۔
ان کے مطابق ‘یہ ایک معاہدے کی طرح ہے’ کیونکہ مسلم لیگ (ن) اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مزید تصادم کی راہ پر نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پارٹی کے لوگوں نے شریف برادران کے فیصلے پر سکون کا سانس لیا ہے کیونکہ اس سے ان قوتوں سے ‘لڑائی کے خاتمے’ میں مدد ملے گی اور (ان سے) مصالحت کے نئے دروازے کھلیں گے جو عمران خان کی حکومت سے جلد از جلد چھٹکارا دلانے میں مدد کرے گی۔
ان رہنماؤں جن کا تعلق نواز شریف کیمپ سے بتایا جاتا ہے، انہیں (مریم نواز) کی جانب سے اعتماد میں لینے کے بعد میڈیا پر ہونے والے ‘نقصان کا ازالہ’ کرنے کا کام سونپا گیا تھا کہ موجودہ سیاسی صورتحال میں قیادت نے صحیح فیصلہ کیا ہے۔
اس کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے بھی تمام پارلیمانی رہنماؤں اور پارٹی کے اہم عہدیداروں کو اپنے حلقے کے کارکنان کو بتانے کا کہا ہے کہ ‘جلد مسلم لیگ (ن) اقتدار میں آئے گی’۔
ایک پارٹی ذرائع نے سوال کیا کہ ‘پارٹی قیادت کے پاس وزیراعظم کو تینوں مسلح افواج کے سربراہان کی مدت ملازمت میں توسیع دینے کا اختیار دینے سے متعلق ایکٹ کی حمایت کرنے کے علاوہ کیا آپشنز تھے؟، کیا تباہی کا شکار مسلم لیگ (ن) آرمی ایکٹ کے خلاف جانا برداشت کرسکتی تھی؟ اور کیا اس کے نتائج کے لیے تیار تھی؟’
اس پر ان کا کہنا تھا کہ ‘اگر مسلم لیگ (ن) نے ایکٹ کے خلاف بھی ووٹ دیا ہوتا تو یہ پارلیمنٹ سے منظور ہوجانا تھا، آپ نے سینیٹ چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں دیکھ لیا تھا کہ اپوزیشن واضح اکثریت رکھتے ہوئے بھی صادق سنجرانی کو ہٹانے میں ناکام رہی تھی’۔
انہوں نے اس فیصلے پر پارٹی کی نائب صدر مریم نواز سمیت اہم رہنماؤں کی ناراضی کی رپورٹس کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ‘ایسی صورتحال میں یہ شریف برادران کا بہترین اقدام ہے، میں آپ کو ایک بات بتاؤں، پارٹی میں ہر شخص خوش اور مطمئن ہے اور پُرامید ہے کہ مشکل وقت جس کا پارٹی کو 2سال سے سامنا تھا، اب گزر گیا ہے’۔
مسلم لیگ (ن) کے ‘ووٹ کو عزت دو’ کے بیانیے کے مستقبل کے بارے میں سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ‘(پارٹی اجلاسوں میں) اس پر بھی بات کی گئی تھی اور جہاں پارٹی آگاہی پھیلانے میں کامیاب رہی ہے اس کا ماننا ہے کہ عوام اسے بھی سمجھ سکیں گے’۔
ادھر ایک اور سینیئر رہنما کا کہنا تھا کہ پارٹی قیادت نے سیاسی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے ‘عقل مندانہ’ فیصلہ کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘پارٹی کب تک قوتوں کے ساتھ لڑ سکتی ہے، یہ کہنا آسان ہے کہ ‘اپنے انقلابی فلسفے’ کے ساتھ جڑے رہو تاہم حقیقت میں یہ اتنا آسان نہیں، ہماری جماعت کی نئی پوزیشن سے نظریاتی ووٹرز خوش نہیں ہوں گے اور ہم شاید آئندہ انتخابات میں اس چوٹ کے ساتھ ہی جائیں گے تاہم دیگر حقائق یہ ہیں کہ عوام/ووٹرز کی یادداشت بہت کم ہے اور وہ ایسی چیزوں کا برا نہیں مناتے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘آپ کل عام انتخابات کرالیں، مسلم لیگ (ن) سب سے بڑی جماعت بن کر ابھرے گی اور یہ بھی زمینی حقائق ہیں کیونکہ بینظیر بھٹو بھی آمر جنرل مشرف سے مذاکرات کرکے پاکستان واپس آئی تھیں تاہم بعد ازاں انتخابات میں کسی کو اس چیز کی پرواہ نہیں تھی’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘مسلم لیگ (ن) مزاحمت کی جماعت کبھی نہیں تھی، اسے گزشتہ 2برس یا اس سے زائد سے سخت مزاحمت کرنے کا پورا کریڈٹ دیا جانا چاہیے’۔
اقتدار میں دوبارہ آنے کا وعدہ
علاوہ ازیں مسلم لیگ (ن) کی جانب سے آرمی ایکٹ کی حمایت کرنے کے فیصلے کے ساتھ پارٹی کے تمام کارکنان کو یہ پیغام پہنچادیا گیا ہے کہ مشکل وقت اب ختم ہوگیا ہے اور جلد ہی وہ اقتدار میں واپس آئیں گے اور اس کی وجہ سے ان میں خوشی کے تاثرات پائے جاتے ہیں۔
لندن میں شہباز شریف سے ملاقات کرنے والے پارٹی رہنما کا کہنا تھا کہ شہباز شریف جلد پاکستان آئیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ چند مہینوں کی بات ہے، قوتوں نے مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے کچھ وعدے کیے ہیں اور یہ آئندہ دنوں میں معلوم ہوجائے گا کہ وہ پورے ہوتے ہیں یا نہیں’۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ جمعیت علما اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے آرمی ایکٹ کے لیے اس لیے ووٹ نہیں کیا کیونکہ ان سے دسمبر میں عمران خان کی حکومت ختم کرنے کا وعدہ پورا نہیں کیا گیا تھا جس کی وجہ سے وہ خوش نہیں تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ‘تاہم اب مولانا فضل الرحمٰن سے نئے وعدے کیے گئے ہیں جیسے مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے کیے گئے ہیں’۔