مارکیٹ ریسرچ کی دنیا میں بڑا نام رکھنے والی تیسری بڑی کمپنی IPSOS نے حال ہی میں ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں پاکستان کے حوالے سے اہم انکشافات پائے جاتے ہیں۔
مذکورہ رپورٹ کی تیاری کے لیے حالیہ دنوں کیے جانے والے ایک سروے میں صارفین سے سب سے زیادہ پریشان کن بات کے متعلق پوچھا گیا، جس کے جواب میں 29 فیصد لوگوں نے مہنگائی کو جبکہ 30 فیصد لوگوں نے بے روزگاری کو سب سے بڑی وجہ قرار دیا۔ اس کے علاوہ ٹیکسوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ کو 11 فیصد لوگوں نے اپنی پریشانی کی وجہ قرار دیا۔ پاکستانی صارفین بڑھتی غربت اور آئے روز تبدیل ہوتے بجلی کے نرخوں کو بھی پریشان کن سمجھتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان سارے اعداد وشمار کے مقابلے میں صرف دو فیصد صارفین ایسے ہیں جو کرپشن، اقربا پروری اور رشوت ستانی جیسے مسائل کو اپنی سب سے بڑی پریشانی قرار دیتے ہیں۔
گلوبل کنزیومر کانفیڈنس انڈیکس 2019 میں پاکستان دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں بھارت، ترکی، جنوبی امریکا، روس، چین، اور برازیل سمیت 27 ممالک سے پیچھے ہے۔
دنیا کے 89 ممالک میں کام کرنے والی فرانسیسی کمپنی IPSOS نے یہ سروے دسمبر 2019 میں کیا تھا۔ اس سروے کے لیے پاکستان کے 120 سے زائد شہروں اور دیہاتوں سے 18 سال سے زائد عمر کے مرد وخواتین سے معلومات حاصل کی گئیں۔
اس سروے کے نتائج میں 2900 افراد سے مقامی معاشی حالات اور ملک کی مجموعی اقتصادی صورتحال، تحفظ روزگار، قوت خرید، بچت اور سرمایہ کاری کے امکانات کے بارے میں رائے حاصل کی گئی ۔یاد رہے کہ ان تمام لوگوں سے مذکورہ امور کے بارے مستقبل کی توقعات بارے بھی سوال کیے گئے۔
سرمایہ کاری، بچت، معاشی حالات اور روزگار کے حوالے سے صارفین کی آرا سےتیار کیے جانے والے گلوبل کنزیومر کانفیڈنس انڈیکس 2019 میں پاکستان دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں بھارت، ترکی، جنوبی امریکا، روس، چین، اور برازیل سمیت 27 ممالک سے پیچھے ہے۔ سروے کے مطابق اگست 2019ء کے مقابلے میں دسمبر 2019ء میں ملک کے معاشی حالات میں زیادہ خرابی نوٹ کی گئی اور صارفین کا کہنا ہے کہ ایک سال پہلے وہ معاشی طور پر قدرے بہتر حالات میں تھے۔ تحفظ روزگار، قوت خرید، بچت اور سرمایہ کاری کے حوالے سے اس سروے میں پاکستان کی معاشی صورتحال میں پچھلے چھ ماہ کے دوران ابتری کو نوٹ کیا گیا ہے۔
IPSOS کی تازہ سروے رپورٹ میں سامنے آنے والے انکشافات نے حکومتی حلقوں کے ان دعووں کی نفی کر دی ہے کہ ملک کی معیشت کو پٹڑی پر ڈالا اور بہتر بنایا جا رہا ہے۔
IPSOS پاکستان کے منیجنگ ڈائریکٹر عبدالستار بابر کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ گلوبل کنزیومر کانفیڈنس انڈیکس میں پاکستان کا نمبر 32.8 ہے جو کہ پچھلے سال سے بھی ایک درجہ کم ہے۔ اس انڈیکس کا عالمی طور پر اوسط نمبر 48.5 ہے۔ بھارت اس انڈیکس میں 61.1 پر جبکہ ترکی 33.7 نمبر پر ہے۔
IPSOS کی تازہ سروے رپورٹ میں سامنے آنے والے انکشافات نے حکومتی حلقوں کے ان دعووں کی نفی کر دی ہے کہ ملک کی معیشت کو پٹڑی پر ڈالا اور بہتر بنایا جا رہا ہے۔
عبدالستار بابر کے مطابق گلوبل کنزیومر کانفیڈنس انڈیکس کی تازہ رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پچھلے سال کے مقابلے میں گھر، گاڑی یا روز مرہ کی اشیاہ خریدنے کے حوالے سے 90 فیصد پاکستانوں کے اعتماد میں کمی آئی ہے۔ اسی طرح اس سال تحفظ روزگار اور مستقبل کے لیے سرمایہ کاری یا بچت کرنے کے حوالے سے 80 فیصد پاکستانیوں کے اعتماد میں کمی نوٹ کی گئی ہے۔ اس سروے میں حصہ لینے والے افراد میں سے 40 فیصد لوگوں کا کہنا تھا کہ اس سال وہ یا ان کا کوئی جاننے والا معاشی صورتحال کی وجہ سے بے روزگار ہو گیا ہے۔ ان کے بقول ہر چار میں سے تین پاکستانی ملکی حالات کے حوالے سے عدم اطمینان کا شکار ہیں، جبکہ پانچ میں سے چار پاکستانیوں کا خیال ہے کہ ملکی معیشت کی حالت بری ہے۔
اوکاڑہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ذکریا ذاکر کا کہنا تھا کہ ملک کی معاشی صورتحال کی ابتری کے اثرات سماج پر ضرور پڑتے ہیں: ”اگر اقتصادی صورتحال ٹھیک نہیں ہوگی تو معاشرے میں تناؤ اور بے چینی میں اضافہ ہوتا ہے اور جرائم بڑھ جاتے ہیں۔‘‘ ان کے بقول اس صورتحال کو سنجیدگی کے ساتھ دیکھنے کی ضرورت ہے۔