اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی ) نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا پیش کردہ مشرقِ اوسط امن منصوبہ مسترد کردیا ہے اور کہا ہے کہ فلسطین میں امن اور سلامتی فلسطینیوں سمیت تمام فریقوں کی منظوری کے بغیر ممکن نہیں۔
اوآئی سی کا خصوصی اجلاس سوموار کو سعودی عرب کے ساحلی شہر جدہ میں ہوا ہے اور اس میں صدر ٹرمپ کے پیش کردہ منصوبے کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ہے۔فلسطینیوں اور عرب لیگ نے اس منصوبے کو پہلے ہی مسترد کردیا ہے۔
اوآئی سی کے اجلاس میں پڑھے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکا کے اعلان کردہ منصوبہ کو منصفانہ اور فریقین کے اطمینان کے مطابق ہونا چاہیے تھا۔بیان میں اس یک طرفہ منصوبے کو مسترد کردیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ فلسطینیوں کے مطالبات واُمنگوں کو پورا نہیں کرتا ہے۔
بیان کے مطابق اوآئی سی فلسطینی عوام اور ان کی حکومت کے ساتھ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام،ان کی امداد اور آبرومندانہ زندگی گزارنے کے قابل بنانے کے لیے کھڑی ہے۔
بیان میں او آئی سی کے سیکریٹری جنرل پر زوردیا گیا ہے کہ وہ اس معاملے میں مداخلت کریں اور ایسی کسی بھی قرارداد کو یکسر مسترد کردیں جس میں فلسطینی کاز کا کوئی مفاد پنہاں نہ ہو۔اس میں تنظیم کے رکن ممالک سے کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی اداروں بالخصوص اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ساتھ فلسطینی نصب العین کے مفاد میں قراردادوں کی تیاری کے لیے ابلاغ کریں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ جمعرات کو ’صدی کی ڈیل‘ کے نام سے یہ منصوبہ پیش کیا تھا۔اس منصوبے میں وادیِ اردن سمیت دریائے اردن کے مغربی کنارے کا بیشتر علاقہ اسرائیلی ریاست میں ضم کرنے، تمام بیت المقدس کو اسرائیل کے حوالے کرنے اور محدود فلسطینی علاقوں میں مستقبل میں غیر فوجی ریاست کے قیام کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
امریکی منصوبے میں فلسطینیوں کو مقبوضہ مغربی کنارے کے بعض حصوں پر محدود خود مختاری دینے کی تجویز پیش کی گئی ہے جبکہ اسرائیل اپنی تمام یہودی بستیوں کو ریاست میں ضم کرسکے گا اور کم وبیش تمام مغربی اور مشرقی القدس پر بھی اس کا کنٹرول ہوگا۔
عرب لیگ نے ہفتے کے روز اپنے خصوصی اجلاس میں’مشرقِ اوسط امن منصوبہ‘کو فلسطینیوں کے لیے یکسر غیرمنصفانہ قراردے کر مسترد کردیا تھا۔ عرب لیڈروں نے اس منصوبے پر عمل درآمد کے لیے امریکی انتظامیہ کے ساتھ تعاون نہ کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔