سفر میں نیند آنے سے بندہ پرسکون ہوجائے تو نعمت کی اعلیٰ ترین صورتوں میں سے ایک ہے۔ جہاز کے سفر سے الجھن وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی جارہی ہے اور اگر سفر چار پانچ گھنٹوں سے زیادہ کا ہو تو بالکل ہی کوفت طاری ہوجاتی ہے۔ سفر پر نکلنے سے قبل ہی طبیعت اضمحلال کا شکار ہو جاتی ہے۔ اسلام آباد سے کاسابلانکا کا سفر بھی میرے اعصاب پر سوار رہتا ہے۔ ویسے تو پاکستان سے کہیں بھی جانا کوئی بہت خوشگوار تجربہ نہیں ہوتا کہ پڑوس کے ممالک میں جانے کے لئے بھی پہلے دوہا، دبئی،ابوظہبی یا بینکاک جانا پڑتا ہے۔ یعنی کہ آپ ناک کی سمت میں لمبا سا فضائی چکر کاٹ کر واپس تقریبا اسی جگہ آن کھڑے ہوں جہاں سے چلے تھے۔ ادھر کچھ عرصے سے ہم نے قطرائیرلائن کو خوب نوازا ہے۔ پہلے یہ مرتبہ تھائی ایئرلائین کو حاصل تھا کہ دنیا میں جہاں بھی جانا ہو پاکستان سے اڑ کر آپ کو بینکاک حاضری دینی ہوتی تھی۔ پھر نہ جانے کب ہماری دوستی قطر سے اتنی گاڑھی ہوئی کہ اب ہر دوسرا بندہ دوہا کو ہاتھ لگا کر ہی آگے جا پاتا ہے۔ ہماری فضائی حدود اتنی بے اعتبار و پامال ہوگئی ہیں کہ یہاں سے براہ راست فلائیٹس چند ممالک کے لئے ہی ہیں۔ جو فلائیٹس آتی بھی ہیں تو وہ منہ اندھیرے پہنچتی ہیں اور واپس ہولیتی ہیں۔ اسلام آباد کے وسیع و عریض (اور انتہائی ناقص کوالٹی کے حامل) ائیرپورٹ پر اکثر اوقات اکا دکا جہاز کو رنگتے دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے ہلک کے وجود پر چیونٹی چھوڑ دی گئی ہو!
یہ تو خیر جملہ معترضہ تھا۔ اس بار ہمارا سفر براستہ ابوظبی تھا اور سفر میں نیند ہم سے روٹھی رہی سو ہم نے اپنے جمع شدہ تقویٰ کو بروئے کار لاتے ہوئے جہاز کے انٹرٹینمنٹ سسٹم میں موجود فلموں سے ممکنہ حد تک گریز کرنے کی کوشش کی۔ بالاخر بدی کی قوتوں کو اس معرکے میں مراکش کی فضائی حدود کے مقام پر کامیابی (چاہے عارضی ہی سہی) حاصل ہوئی اور ہم نے ایک عدد ہندی فلم کے آئیکون پر انگلی جما دی۔ ایک لمحے کو محسوس ہوا کہ ایسا کرتے ہوئے ہم صرف اپنے ضمیر کی عدالت میں ہی مجرم نہیں بن رہے بلکہ نیچے دور کہیں زمین پر مراکش کے پڑوس میں واقع جبل طارق میں رچی بسی طارق بن زیاد کی روح نے بھی ہمیں شرمسار کرنے کی کوشش کی کہ کبھی اے نوجوان مسلم ۔۔۔۔۔! خیر ہم نے یہ سوچ کر سر جھٹک دیا کہ نہ تو ہم نوجوان رہے اور نہ ہی طارق بن زیاد کو اردو اور اقبال کا کوئی وشواس تھا۔
خیر تفنن برطرف یہ سطور دراصل اس فلم کو دیکھتے ہوئے جو منتشر خیالات ہمارے ذہن میں آتے رہے ان کے بارے میں لکھی جانی مقصود ہیں۔ فلم کا نام گلی بوائے تھا اور یہ ریپ میوزک کی فیلڈ میں جدوجہد کرنے والے ایک نوجوان کی کہانی پر مشتمل ہے۔ اس کے کرداروں کے نام اور ان کرداروں کی اداکاری پر تبصرہ یہاں مقصود نہیں ہے۔ بس فلم دیکھتے ہوئے جو خیالات جس جس ترتیب کے ساتھ میرے ذہن میں آتے رہے وہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔
میوزک سے مجھے بالکل بھی کوئی رغبت نہیں ہے اور انگریزی میوزک تو سرے سے ہی میرے لئے اجنبی شے ہے۔ میں نے اچھا خاصا وقت مغربی معاشروں میں گزارا ہے جہاں میوزک زندگی کے اہم اور لازمی جزو کے طور پر تقریبا ہر انسان کی زندگی میں شامل ہے۔ میں یہ دیکھتا رہا ہوں کہ کیسے میوزک اسٹارز کی پذیرائی کی جاتی ہے اور ان کے نئے البمز اور ریلیز کے بارے میں اعلانات و تبصرے کرنے کے لئے علیحدہ سے رسائل و ٹی وی چینلز قائم ہیں۔ بلین آف ڈالرز کی انڈسٹری میوزک کے گرد قائم ہے۔ اسی انڈسڑی کے ڈانڈے ہالی ووڈ سے بھی ملتے ہیں اور کاپی رائیٹس کا ایک بڑا حصہ میوزک انڈسٹری کے تحفظ اور فروغ سے متعلق ہے۔میوزک کی اس اہمیت اور رول کو دیکھنے کے باوجود مجھے کبھی بھی اس میں کشش محسوس نہیں ہوئی۔ گلی بوائے فلم کے ابتدا میں بھی جب مجھے محسوس ہوا کہ یہ ریپ میوزک کے بارے میں ہے تو میں نے اسے وہاں ہی چھوڑ کر کچھ اور دیکھنے کے بارے میں سوچا مگر اس وقت تک غالبا اسٹوری مجھے اپنی گرفت میں لے چکی تھی۔ اس فلم سے مجھے باضابطہ طور پر یہ پتا چلا کہ ریپ میوزک دراصل زور زور سے گانے،اچھل کود کر کے ہاتھوں اور انگلیوں کے اشارے سے ناچتے ہوئے سامعین کے ساتھ انٹرایکٹ کرنے کا نام ہے۔ یہ احساس مجھے بہرحال پہلی مرتبہ ہوا کہ اس دیوانگی میں بھی کوئی راستگی ہے ضرور! میوزک برائے مقصد کی تحریک تو بہت پرانی ہے مگر اس فلم میں اس کو کئی جہتوں سے حقیقت کے قریب تک کر اجاگر کیا گیا۔
فلم کا مرکزی کردار اور اس کے گروپ کے نوجوان جس طرح ریپ میوزک کے لئے اشعار لکھتے، کہتے اور پرفارم کرتے ہیں اور جس انداز میں ان کے اندر جنون نظر آتا ہے وہ محض فلم کی مبالغہ آمیزی نہیں ہے۔ مجھے یہ سب دیکھ کر پہلا خیال یہ آیا کہ ہمارے معاشروں کے مسائل کیا ہیں اور ہم سماج کا مذہبی حصہ ہونے کے ناطے ان مسائل کے بارے میں کتنی سطحی واقفیت رکھتے ہیں۔ ریپ میوزک سے وابستہ نوجوان بہت زیادہ انرجی کے حامل ہوتے ہیں۔ ان کے اندر الاو بھڑک رہا ہوتا ہے اور لاوا آتش فشان کو پھاڑ کر باہر آنے کو بیقرار ہوتا ہے۔سماجی ناہمواری’ غربت’ سماجی و طبقاتی دباو’ خاندانی پریشرز وغیرہ وہ موضوعات ہیں جنہیں اس فلم میں ریپ پرفارمنس کے دوران تھیمز کے طور پر پیش کیا گیا۔ مجھے پہلا خیال تو یہ آیا کہ ان موضوعات پر ہمارے مذہبی طبقے کا کوئی بیانیہ ہے بھی کہ نہیں؟ غربت تو سرے سے ہمارا موضوع ہی نہیں ہے۔ اگر ہے بھی تو غربت سے نکلنے کی دعاوں سے شروع ہو کر صبر اور توکل پر ہماری گفتگو ختم ہوجاتی ہے۔ مگر من جملہ غربت ہے کیا، اسے نظام میں کیسے گہرا کیا جاتا ہے اور غربت کا شکار لوگ کس قسم کی نفسیاتی مسائل اور ذہنیت کا شکار ہوتے ہیں؟ اس سب سے تو ہم بالکل ہی ڈیل نہیں کرتے۔ ایسے میں دیکھتے ہیں کہ فلم کا مرکزی کردار نماز بھی پڑھتا ہے اور دعا کر کے اپنے مقصد کے حصول کے لئے نکلتا ہے مگر اس کی زندگی میں اہمیت ان مسائل کی ہے ناں کہ مذہب اور اس کے ڈسکورس کی ۔
مگر اس موقع پر مجھے ایک اور خیال آیا کہ آخر یہ سارے مسائل آئے کہاں سے ہیں؟ یہ مسائل اپنی اساس میں مغربی تہذیب کی مختلف جہتوں سے پھوٹتے ہیں۔ غربت سرمایہ دارانہ نظام کا جزو لاینفک ہے کہ دولت کا ارتکاز نہ صرف اس نظام کی خوبی سمجھی جاتی ہے بلکہ تقسیم دولت کے لئے کی جانی والی ساری کوششوں کو یہ نظام سوشلزم کی پھبتی کس کر مسترد کر دیتا ہے۔ یہاں تقسیم دولت مسئلہ نہیں بلکہ تخفیف غربت اہم ہے کہ غریب کو نظام کی چکی میں کہلو کےبیل کے طور پر جوتے رکھنے کے لئے اس کے جسم و جاں کا رشتہ قائم رہنا ضروری ہے۔ بے مقصدیت پر مبنی تہذیبی و ثقافتی نظام کے ہاں منزل تو کوئی نہیں مگر مائل اسٹونزاور آرزوں کا ایک انبوہ کثیر ہے۔ تعلیم، کیرئیر،مقابلہ بازی’ دولت کا حصول اور آخر میں پاور! جب یہ سب حسب توفیق مل جائے تو بے مقصدیت کے علاوہ کچھ سامنے نہیں آتا۔ اس خوشنما نظام کے اس بدترین انجام کو اوجھل رکھنے کے لئے انٹرٹینمنٹ کی پوری صنعت کھڑی کی گئی ہے جس کو لذت کے حصول کے سارے ہی شیطانی لوازمات مثلا نشہ، سیکس اور منشیات وغیرہ کا تعاون بھی میسر ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ بے مقصدیت نے فلسفیانہ رنگ میں پوسٹ ماڈرن ازم وغیرہ کی شکل میں تعلیمی نظام میں بھی جگہ بنا لی ہے۔ فلم میں ہیروئن کے کردار سے جب اس کی ماں سرزنش کرتے ہوئے پوچھتی ہے کہ آخر تمہیں کیا چاہیئے تو وہ ترنت جواب دیتی ہے کہ مجھے باہر جانا ہے،آزاد رہنا ہے،پارٹی کرنی ہے، لڑکوں سے دوستی کرنی ہے اور وہ سب کرنا ہے جو نارمل لوگ کرتے ہیں۔ یہ دراصل تعلیمی نظام کے بل بوتے پر کھڑا کیا گیا لبرل منیفیسٹو ہے جو نوجوانوں کے دل و دماغ میں الاو بھڑکاتا ہے۔ جب آتش فشاں تیار ہوجائے تو اس کے پھٹنے کو بھی مینج کیا جاتا ہے کہ اگر یہ خود سے پھٹ گیا تو ہر طرف تباہی پھیلائے گا۔ لبرل اقدار میں آزادی اظہار اور شخصی آزادی بنیاد ہے۔ یہ دو چیزیں پاور اسٹریکچرز کو ڈسٹرب کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ اب یا تو ان کا گلا گھونٹا جائے یا پھر انہیں مینج کیا جائے۔ چونکہ یہ پوری تہذیب ایک پیکج ڈیل ہے سو، اس کے ساتھ یہ مفاسد جڑے ہوئے ہیں۔ انہیں مینج ہی کرنا ہے۔ گلی بوائے میں وہ مناظر بڑے معنی خیز ہیں جب ہیرو کو اس کے نئے امریکی دوست ایک شاندار سی گاڑی میں لے کر رات کو نکلتے ہیں اور ہر طرف مزاحمت و بغاوت پر مبنی نعرے درودیوار پر لکھ دیتے ہیں۔ گویا کہ جو بھی لاوا اندر پک رہا تھا اسے ریپ میوزک کے ہلے گلے میں بڑھاوا دے کر ایک رات کے ایکٹوازم کے ذریعے بھسم کردیا۔ یہ سین دو کرداروں کے درمیان جسمانی قربت کے تعلق پر ختم ہوتا ہے جو بے مقصدیت کی انتہا کا استعاره ہے۔
جب یہ سب کچھ ہی مغربی تہذیب کا پیدا کردہ ہے تو ظاہر ہے اس سے نمٹنے کا درد سر بھی اسی تہذیب کا ہے۔ اس لیے میرا پہلا خیال یہ ہے کہ مذہبی لوگ ان تمام معاملات پر کوئی آگاہی نہیں رکھتے اس کی شدت میں کمی آگئی۔ یہ آگ جن کی لگائی گئی ہے وہی اس کے بجھانے کی فکر کریں۔ ہاں ہمارے لئے یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ آگ ہمارے گھروں تک آگئی ہے، اس لیے کچھ فکرمندی ہم نے بھی کرنی ہے۔
فلم میں انسانی شخصیت کی پیچیدگی کو بھی عمدہ طریقے سے واضح کیا گیا ہے۔ عموما فلم اور ڈرامے میں مجرد اچھائی یا مجرد برائی کے نمونے پیش کئے جاتے ہیں۔ مگر گلی بوائے میں کئی کردار اچھائی و برائی کے درمیان چلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ہیرو اہنی ہیروئن کو دھوکہ دیتا ہے مگر پھر واپسی کا سفر بھی طے کرتا ہے۔ دوست مل کر گاڑیاں چوری کرتے ہیں مگر چور اور بچوں سے نشہ آور مواد کی سپلائی کا دھندہ کرنے والا شخص قربانی بھی پیش کرتا ہے۔ بظاہر تو یہ معمول کی بات ہے کہ معاشرے کے سارے ہی کردار تضادات کا مجموعہ ہوتے ہیں مگر گلی بوائے میں اس حقیقت کو جن موضوعات کے ساتھ جوڑ کر پیش کیا ہے اس سے اچھائی اور نیکی کے کسی گولڈ اسٹنڈرڈ کے ہونے کی نفی ہوتی ہے۔ یہی دراصل پوسٹ ماڈرنسٹ ورلڈ ویو کا پیغام ہے کہ آسمانی کتابوں میں مذکور کسی معیار کو نظرانداز کر کے جیسا ہے کی بنیاد پر زندگی کو جیا جائے۔
معافی یا تلخی کو نظرانداز کر کے آگے بڑھنے کے تصور کو بھی گلی بوائے میں ایک سے زائد مرتبہ ابھارا گیا۔ ہیرو اپنے باپ کے سامنے ڈٹ جاتا ہے مگر آخر میں وہ ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔ ہیروئن،ہیرو کی طرف سے جھوٹ بولے جانے اور دھوکے کے باوجود واپس آتی ہے۔ ہیروئن بلوہ کرنے کے بعد معافی مانگتی ہے اور اسے معاف کردیا جاتا ہے۔ یہ دراصل معافی کے اس جذبے کی تشہیر نہیں جس سے کوئی روحانی بالیدگی کا پہلو نکلتا ہے۔ یہ زندگی جینے کا وہ فلسفہ ہے جس میں تضادات کو خوشنما تصور کر کے اصل میں ٹھیک کیا ہے کے سوال کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔ اس سے آگے بڑھنے میں تو مدد ملتی ہے مگر آگے بڑھتے بڑھتے زندگی اس موڑ پر پہنچ جاتی ہے جہاں بند دیوار کھڑی ہوتی ہے اور بے مقصدیت منہ چڑاتی ہے۔
فلم دیکھنے کے بعد مجھے دو خیالات مزید بھی آئے۔ ایک تو یہ کہ ریپ میوزک سے وابستہ نوجوانوں کی غیر معمولی انرجی میں شائد جنک فوڈ کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ ہمارے گھروں میں آج کل بچوں کے ہائیپر ہونے کی شکایات عام ہیں۔ اس کا ایک پہلو خوراک سے وابستہ ہے۔ یہ ہائی لیول انرجی دراصل تعلیمی نظام کے ماحولیاتی ہارمونز کی پیداوار ہونے ساتھ ساتھ حیاتیاتی ہارمونز کا بھی شاخسانہ ہے جو جنک فوڈ سے برانگیختہ ہوتے ہیں۔ پھر یہی جنک فوڈ بنانے والی کمپنیاں ریپ میوزک کے مقابلے اور کنسرٹس کرواتی ہیں۔ یعنی جو لاوا ڈالا جاتا ہے وہ نکالنا بھی انہی کا کام ہے۔ اچھل کود اور شور شرابے کے بعد بے سدھ پڑے ریپ کے رسیا نوجوانوں کو خبر ہی نہیں لگتی کہ ان کے ساتھ واردات کیا ہوئی ہے۔
دوسری بات یہ کہ مادیت پر مبنی تہذیب میں جب بے مقصدیت کا عفریت سر اٹھاتا ہے تو اس کی سختیوں کو جھیلنے کے لئے فنون لطیفہ کو تھراپی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ آرٹ کی جملہ اقسام میں ریپ میوزک بھی شامل ہے۔ یہ دراصل لاعلاج مریض کو درد کش ادوایات کی کاک ٹیل پیش کرنے کی سعی کے مترادف ہے کہ اس سے وقتی طور پر توجہ بٹ جاتی ہے۔ بے سکونی اور بے مقصدیت کے مریض کو کچھ کرنے کا بہانہ مل جاتا ہے مگر کچھ ہی عرصے بعد یہ کاک ٹیل بھی کام چھوڑ جاتی ہے۔ ایسے میں مادیت کی اذیت کے مارے کئی مریض نشے کی انتہائی صورتوں میں پناہ تلاش کرتے ہیں۔ جب یہ حل بھی اثر کھو جائے تو فنا میں پناہ لینے کو رجحان سامنے آتا ہے۔ خود کشیوں کے کتنے ہی واقعات ان لوگوں سے وابستہ ہیں جو فنون لطیفہ سے براہ راست منسلک تھے۔ اس سے مروجہ آرٹ کا کھوکھلا پن پوری طرح عیاں ہوتا ہے کہ جسے علاج کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے وہ دراصل ایک نئی بیماری کا پیش خیمہ تھا۔
یہاں مجھے نفس مطمئنہ کی یاد آرہی ہے کہ انسان کی زندگی کی ساری کہانی کا انجام اگر اس موڑ پر آ کر نہیں ہوتا تو باقی سب سراسر خسارے کا سودا ہے۔