کرونا وائرس کے پھیلاؤ سے معمولات زندگی میں جو تعطل پیدا ہوا ہے اس سے اعلی تعلیم کا شعبہ بھی متاثر ہوا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں بھی جامعات کے طلباء مختلف قسم کی شکایات کررہے ہیں کہ آن لائن تعلیم کے لئے جن سہولیات کی فراہمی ضروری ہے وہ پوری طرح انہیں میسر نہیں ہیں۔ پاکستان میں کرونا وائرس کے کیسز سامنے آنے کے بعد جامعات نے شٹ ڈاون کے بعد ابتدائی طور پر مختلف انداز میں موجودہ سمسٹر کو جاری رکھنے کی کوششیں کی تھیں۔ ان کوششوں کے نتیجے میں مختلف قسم کے ردعمل اور آراء سامنے آئیں اور طلباء کی ایک بڑی تعداد نے آن لائن سلسلہ تعلیم کے معیار اور سہولیات کے فقدان کے بارے میں ٹویٹر’ سوشل میڈیا اور پرائم منسٹر شکایات پورٹل پر بھرپور کمپین کی۔
اس کے نتیجے میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) نے ایک پالیسی جاری کی جس کے تحت جامعات کو دو درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے درجے میں ان جامعات کو رکھا گیا ہے جن کے پاس اس وقت آن لائن تعلیم کی ٹیکنالوجی کسی بھی مربوط و منظم لرننگ منیجمنٹ سسٹم کی شکل میں موجود ہے۔ ان جامعات کو موجودہ سمسٹر جاری رکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔ دوسری وہ جامعات ہیں جو لرننگ منیجمنٹ سسٹم کے استعمال اور استعداد کے حوالے سے پوری طرح تیار نہیں ہیں۔ ان جامعات کو کہا گیا ہے کہ وہ مئی کے آخر تک موسم گرما کی تعطیلات کر دیں اور اس دوران خود کو آن لائن تعلیم کے جملہ لوازمات کے تقاضوں کے مطابق تیار کرلیں تاکہ یکم جون سے یہ تمام جامعات بھی آن لائن تعلیم کے سلسلے سے وابستہ ہوسکیں۔
13 اپریل کے ڈان اخبار میں ڈاکٹر طارق بنوری’ چئیرمین ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے اس بارے میں ایک مضمون بھی تحریر کیا ہے۔ ڈاکٹر بنوری نے لکھا ہے کہ آن لائن تعلیم کی کوالٹی کو یقینی بنانے کے لئے تیاری کے چھ بنیادی پہلوؤں پر توجہ مرکوز کی جا رہی ہے۔ ان میں آن لائن تعلیم کے آغاز کے لئے جامعات کی تیاری’ فیکلٹی کی تیاری’ کورسز کی تیاری’ لائبریری کی تیاری’ ٹیکنالوجی کی تیاری اور طلباء کی تیاری شامل ہیں۔ ہم اس مضمون میں اختصار کے ساتھ آن لائن تعلیم کی پالیسی کے بارے میں چند معروضات پیش کریں گے۔
طلباء کے مسائل
اس وقت ہائیر ایجوکیشن کمیشن اور جامعات آن لائن تعلیم کا جو بھی سلسلہ شروع کر رہے ہیں اس میں سب سے اہم فریق کے طور پر طلباء کی رائے اور فیڈ بیک کو شامل کرنے کا کوئی مربوط اور باقاعدہ نظام موجود نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے طلباء کی شکایات پر فوری ایکشن لیتے ہوئے اکثر جامعات کو آن لائن تعلیم کے سلسلے کو معطل کرنے کا کہا ہے مگر یہ بنیادی طور پر ردعمل کی پالیسی ہے۔ مشکل یہ ہے کہ جامعات اور ایچ ای سی کے پاس طلباء کے فیڈ بیک کے حوالے سے کوئی باقاعدہ میکانزم موجود ہی نہیں ہے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ہمارے اعلٰی تعلیم کے سیکٹر کی ریگولیشن میں طلباء کو ایک اسٹیک ہولڈر کے طور پر تسلیم ہی نہیں کیا جاتا تو یہ غلط نہ ہوگا۔ ایچ ای سی اور جامعات کی پالیسیوں کی تشکیل و تنفیذ میں طلباء ہمیشہ وصولی کے سرے پر ہوتے ہیں اور ان کی معقول اور نتیجہ خیز مشاورت کا کوئی طریقہ اب تک سامنے نہیں آسکا۔ آن لائن تعلیم کی پالیسی کے بارے میں بھی یہی خدشات موجود ہیں کہ طلباء کے بعض گروپس کی سوشل میڈیا کمپین کے نتیجے میں ردعمل تو سامنے آیا ہے مگر طلباء کے فیڈبیک کو اہم ترین فریق کے طور پر آگے بڑھ کر جاننے کی سعی سسٹم کے اندر ناپید ہے۔
طلباء کی طرف سے آن لائن تعلیم کے بارے میں متنوع قسم کی شکایات سامنے آ رہی ہیں۔ ان میں سے ٹیکنالوجی وغیرہ سے متعلقہ شکایات کا ذکر ہم ذیل میں مستقل عنوان کے تحت کریں گے۔ عمومی نوعیت کی شکایات میں جامعات کی طرف سے وصول کی جانے ٹیوشن فیس اور ہاسٹل فیس کے بارے میں خدشات ہیں۔ طلباء کا کہنا ہے کہ انہوں نے مختلف جامعات میں بھاری فیسیں آن لائن تعلیم کے لئے نہیں جمع کروائیں۔ وہ کلاس روم ماحول میں فزیکل تعلیم کے طریقے سے واقف اور آزمودہ حال ہیں۔ اگر کسی ایمرجنسی کے نتیجے میں آن لائن تعلیم کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے تو انہیں فیسوں میں تخفیف’ ریفنڈ یا ایڈجسٹمنٹ کے آپشنز دیئے جائیں۔ جامعات کے نکتہ نظر سے یہ ایک مشکل اور تقریبا ناقابل عمل مطالبہ ہے کہ حکومت کی طرف سے جامعات کی فنڈنگ میں مسلسل کٹوتی کے بعد بجٹ کے خسارے کو قابو رکھنے کے لئے اور کم از کم تنخواہوں کی بروقت ادائیگیوں کو یقینی بنانے کے لئے فیسوں کی ادائیگی انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ اگر جامعات کو فیسوں کی ادائیگی میں تعطل آئے گا تو کئی ادارے اپنے ملازمیں کو تنخواہیں ادا کرنے کے قابل نہیں رہیں گے۔ اعلی تعلیم کے اداروں میں مالی مشکلات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ کافی عرصے سے چل رہا ہے۔ ایچ ای سی اور حکومت پاکستان اس بارے میں کسی بھی حتمی پالیسی کو سامنے نہیں لاسکی۔ کرونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورتحال سے اگر جامعات پر مزید مالی دباو بڑھتا ہے تو کئی اداروں کے ڈیفالٹ کا خطرہ ہے۔
ٹیکنالوجی سے متعلقہ چیلنجز
ملک میں اس وقت چھوٹی بڑی متعدد پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر جامعات کام کر رہی ہیں۔ ان میں سے نجی اداروں اور قدرے چھوٹے سائز کی جامعات میں تعلیم و نظم سے وابستہ ٹیکنالوجی کا استعمال کامیابی سے جاری ہے۔ پبلک سیکٹر جامعات میں بالعموم ٹیکنالوجی کے استعمال کے بارے میں ابھی تک وہ یکسوئی نہیں پائی جاتی جس کا تقاضہ کیا جانا چاہیئے۔ آن لائن تعلیم کے بارے میں یہ بحث ملک کی مختلف جامعات میں چل رہی ہے کہ کس پلیٹ فارم کو استعمال میں لایا جائے اور اس کے لئے وسائل کیسے دستیاب کئے جائیں۔ گوگل کلاس روم’ موڈل بیسڈ ماڈلز’ مائیکروسافٹ ٹیمز’ زوم وغیرہ کے بارے میں تجربات کی بھرمار ہے اور آن لائن تعلیم کے میدان میں نووارد اداروں کے لئے ایک کنفیوژن کی سی کیفیت پیدا ہوچکی ہے۔ یہی کنفیوژن طلباء اور فیکلٹی میں بھی رفتہ رفتہ سرایت کر جاتی ہے۔ گو کہ اب جامعات اپنے اپنے طور پر کسی ایک ٹیکنالوجی کی بنیاد پر معاملات کو آگے بڑھا رہی ہیں مگر اس میں ایچ ای سی زیادہ فعال لیڈرشپ کردار ادا کرسکتی ہے۔ ایچ ای سی نے ورلڈ بینک سے چار سو ملین ڈالر کے قرض کا جو معاہدہ ہائیر ایجوکیشن ڈیویلپمنٹ کے لئے کر رکھا ہے اس میں ٹیکنالوجی کے استعمال کو جامعات میں ترویج دینے’ کلاوڈ کی سہولت سمیت دیگر کئی اہم پہلو شامل ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایچ ای سی اس معاہدے کی جزئیات کو جامعات کے ساتھ فوری طور پر شئیر کر کے آن لائن تعلیم کے سلسلے میں ٹیکنالوجی سے متعلقہ جو چیلینجز سامنے آ رہے ہیں ان کے حل کے لئے آگے بڑھے۔ آن لائن تعلیم کی ٹیکنالوجی کے حصول کے لئے اور اس سے وابستہ دیگر اخراجات کو اگر جامعات پر ہی مکمل طور پر چھوڑ دیا گیا تو اس سے نہ صرف کوالٹی متاثر ہوگی بلکہ کئی جامعات اس دوڑ میں پیچھے رہ جائیں گی۔ ماضی میں جب تعلیمی اداروں کی سیکیورٹی کے سنجیدہ خدشات سامنے آئے تھے تو جامعات میں سیکیورٹی انفراسٹرکچر کو مضبوط بنانے کے لئے ایچ ای سی نے حکومت پاکستان سے خصوصی گرانٹ حاصل کر کے جامعات کی مدد کی تھی۔ اس وقت بھی ایچ ای سی سے اس قسم کے لیڈر شپ رول کی توقع کی جا رہی ہے کہ ٹیکنکل معاونت و مشاورت کی اہمیت اپنے جگہ مگر مالی و مادی تعاون کے بغیر آن لائن تعلیم اور اس سے وابستہ ٹیکنالوجی کا حصول تمام جامعات کے لئے ممکن نہیں ہوسکے گا۔ آغاز کے طور پر ایچ ای سی ورلڈ بینک کے ساتھ قرض کے معاہدے میں دستیاب وسائل کو بروئے کار لانے کے بارے میں مشاورت کا سلسلہ شروع کرے۔
پبلک سیکٹر جامعات میں کئی اساتذہ اور طلباء کی ایک بڑی تعداد کے پاس کمپیوٹرز اور آن لائن تعلیم کے لئے ضروری اشیاء مثلا مائیک’ کیمرہ’ انٹرنیٹ ڈیوائس وغیرہ ہی موجود نہیں ہیں۔ ڈاکٹر طارق بنوری نے بالکل درست کہا ہے کہ آج کے دور میں ان سہولیات کو لگژری سمجھ کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ڈاکٹر طارق بنوری نے البتہ ان سہولیات کی فراہمی کی ذمہ داری جامعات پر ڈالی ہے۔ جامعات کی مالی حالات کو دیکھا جائے تو پاکستان کی کسی بھی پبلک سیکٹر یونیورسٹی کے لئے یہ ممکن نہیں ہوگا کہ وہ اپنے تمام اساتذہ و طلباء کو آن لائن تعلیم کے لئے مذکورہ سہولیات فراہم کر سکے۔ اس کے لئے ایچ ای سی کو حکومت پاکستان کی مدد سے کوئی قابل عمل اور دیرپا حل تلاش کرنا ہوگا۔ یہ درست ہے کہ محض لیپ ٹاپ اور انٹرنیٹ ڈیوائسز تقسیم کرنے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا مگر وقت آگیا ہے کہ ایچ ای سی اور جامعات اعلی تعلیم کے جملہ مصارف کی فنانسنگ کا قابل عمل ماڈل مالیاتی اداروں اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ساتھ مل کر سامنے لائے۔ پبلک سیکٹر جامعات کے پاس موجودہ گورننس ماڈل میں مالیاتی اداروں سے فنانسنگ کا حصول ناممکن ہے۔ اس کے لئے حکومتی قدغنیں’ پبلک فنانس کے اشتراک کی وجہ سے آڈٹ کی مشکلات’ ذمہ داری کا تعین’ شفافیت کے مسائل’ قابل ضمانت اثاثہ جات کی عدم دستیابی وغیرہ جیسے کئی گھمبیر مسائل شامل ہیں۔ بدقسمتی سے ان مسائل پر آج تک سنجیدہ گفتگو نہیں شروع ہوسکی اور جامعات کا خسارہ روز بروز بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ کرائسس اور ایمرجنسی کی موجودہ صورتحال کو غنیمت جانتے ہوئے ایچ ای سی کو لیڈرشپ رول ادا کرنے کے لئے آگے آنے کی ضرورت ہے۔
انٹرنیٹ کی دستیابی
آن لائن تعلیم کے آغاز کے ساتھ ہی طلباء کی طرف سے سب سے زیادہ شکایات انٹرنیٹ کی عدم دستیابی یا خراب کوالٹی کے بارے میں سامنے آئی ہیں۔ اس حوالے سے ایچ ای سی نے عندیہ دیا ہے کہ موبائل آپریٹرز کے ساتھ سستے ریٹس پر تعلیمی پیکج کی بات چل رہی ہے۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے کیونکہ طلباء کو فیسوں کی ادائیگی کے ساتھ اپنے ہی خرچ پر آن لائن تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنے کا کہنا ایک مشکل امر ہے۔ اگر ایچ ای سی کی کوششوں سے انٹرنیٹ کی سستے ریٹس پر فراہمی ملک بھر میں دستاب ہوسکے تو یہ آن لائن تعلیم کے فروغ میں ایک بنیادی عنصر ہوگا۔ طلباء کی مشکلات مگر یہاں تک محدود نہیں ہیں۔ پاکستان میں ڈیجیٹل تقسیم کے بارے میں رپورٹس اور اعدادوشمار ہمارے سامنے ہیں۔ ملک کی اکثریت اس وقت بھی کوالٹی انٹرنیٹ تک رسائی نہیں رکھتی اور یونیورسل کوریج کے بارے میں ہمارے سارے وعدے ابھی ایفا ہونے باقی ہیں۔ پبلک سیکٹر جامعات میں طلباء کی ایک بڑی تعداد بلوچستان’ سابقہ قبائیلی علاقہ جات’ آزاد کشمیر’ گلگت بلتستان’ خیبر پختون خواہ اور پنجاب کے دوردراز دیہی علاقوں سے تعلق رکھتی ہے۔ ان میں سے کئی علاقوں میں انٹریٹ سروس سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ کئی علاقوں میں سیکیورٹی کے خدشات کے باعث انٹریٹ سروس معطل ہے۔ جن علاقوں میں سروس موجود بھی ہے تو وہاں کوالٹی بہت ہی خراب اور فرسودہ ٹیکنالوجی کے مرہون منت ہے۔
ڈاکٹر طارق بنوری نے اپنے مضمون میں عندیہ دیا ہے کہ ایچ ای سی سروس پراوائیڈرز کے ساتھ اس بارے میں رابطے میں ہیں کہ کس طرح انٹرنیٹ رسائی کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ ہماری دانست میں یہ مسئلہ فوری طور پر حل نہیں ہوسکے گا کہ اس میں آپریٹرز کو انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کرنا ہوگی۔ یونیورسل سروس فنڈ کے بارے میں متعلقہ حکومتی اداروں کو بھی جوابدہ کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر یہ ڈیجیٹل تقسیم اتنی سنگین حالت میں آج تک کیوں موجود ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ان تمام طلباء کی جیوگرافیکل میپنگ کی ضرورت ہے جو انٹرنیٹ کی سروس سے عاری زونز میں رہائش پذیر ہیں۔ ایک مرتبہ یہ میپنگ مکمل ہوجائے تو آن لائن تعلیم کی ان طلباء تک رسائی کے بارے میں مختلف جہتوں سے پالیسی مرتب کی جانی چاہئیے۔ اس میں سروس کی رسائی والے قریب ترین علاقوں میں ایجوکیشنل کلسٹرز اور ایکسس پوائنٹس کی تشکیل اور طلباء کی وہاں تک تسلسل سے رسائی کے آپشن کو زیرغور لانے کی ضرورت ہے۔ ایچ ای سی کو گرینڈ چیلنچ فنڈ کے تحت فوری طور پر ایسی تجاویز اور پراجیکٹس کو مشتہر کرنے کی ضرورت ہے جو اعلی تعلیم کی دوردراز علاقوں رسائی کے بارے میں نئی سوچ اور ٹیکنالوجی کے استعمال کو فروغ دے سکیں۔