رویتِ ہلال کے مسئلے پر جناب پوپلزئی صاحب اور پشاور، چارسدہ، مردان، صوابی اور نوشہرہ کے مقامی علماے کرام سے ہمارا بنیادی اختلاف اس نکتے پر ہے کہ ہمارے نزدیک شرعاً اس معاملے میں حکمِ حاکم ضروری ہے۔ ہاں، جہاں مسلمانوں کا حکمران نہ ہو، یا اس نے اس معاملے میں فیصلے سے کنارہ کشی کی راہ اختیار کی ہو، تو وہاں مقامی مسلمانوں کو جس عالم کے فیصلے پر اعتماد ہو، وہ ان کے فیصلے پر روزہ و عید کا اہتمام کریں۔باقی رہے رویت، شہادت اور فلکی حسابات یا اختلافِ مطالع کے مسائل، تو وہ ہماری نظر میں ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ اصل مسئلہ حکمِ حاکم کا ہے۔جب یہ بات کی جاتی ہے تو مختلف اعتراضات پیش کیے جاتے ہیں جو اصولوں سے ناواقفیت پر مبنی ہیں۔
مثلاً ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ حکمران ایسے ہیں یا ویسے ہیں؟ بھائی، جیسے بھی ہوں، جب وہ حکمران ہیں اور عملاً ان کی حکومت نافذ ہے، تو خواہ وہ اہل حل و العقد کے مشورے کے بغیر حکمران بنے ہوں، خواہ وہ متغلب ہوں، خواہ وہ فاسق ہوں، خواہ وہ جاہل ہوں، ان کی اطاعت اسی طرح لازم ہے جیسے شرعی اصولوں اور شرائط پر پورا اترنے والے حکمران کی اطاعت لازم ہوتی ہے، یعنی جب تک وہ اللہ تعالیٰ یا اس کے رسول کی نافرمانی کا حکم نہ دیں، تب تک ان کی اطاعت لازم ہے۔
اس موقع پر دوسرا اعتراض یہ اٹھایا جاتا ہے کہ ہمارے نزدیک چونکہ اس معاملے میں حکمران کا فیصلہ شریعت کے خلاف ہے، اس لیے ہم اس کی اطاعت نہیں کرتے۔ یہاں دو اہم فروق کو نظرانداز کیا جاتا ہے: ایک یہ کہ "ہمارے نزدیک” سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ "فی الواقع” شریعت کے خلاف ہو۔ چنانچہ اگر مسئلہ اجتہادی ہو، جس میں اہل علم کا اختلاف ہو، تو اس مسئلے میں حکمِ حاکم ہی نافذ ہوتا ہے، خواہ میرے نزدیک وہ حکم ایسی راے پر مبنی ہو جسے میں غلط سمجھتا ہوں۔ امام سرخسی نے تصریح کی ہے: قضاء القاضی فی المجتھَدات نافذ۔ البتہ اگر حکمران کا فیصلہ اجماع کے خلاف ہو، تو اس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔ ایسی صورت میں کیا کیا جائے گا؟ یہ سوال ہمیں دوسرے فرق کی طرف لے جاتا ہے جسے اس بحث میں نظرانداز کیا جاتا ہے۔
وہ فرق یہ ہے کہ حکمران کا ناجائز حکم نہ ماننا اور بات ہے، اور اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر لوگوں سے اپنا فیصلہ منوانا دوسری بات ہے۔ چنانچہ مثلاً فقہاے کرام نے تصریح کی ہے کہ جو شخص خود چاند دیکھنے کا دعوی کرے لیکن قاضی اس کی شہادت مسترد کردے تو اگر یہ رمضان کا معاملہ تھا تو وہ خود روزہ رکھے لیکن کسی اور پر اپنا فیصلہ نافذ نہیں کرسکتا؛ اور اگر یہ عید کا معاملہ تھا تو پھر وہ نہ خود عید کرسکتا ہے نہ کسی اور کو یہ حکم دے سکتا ہے۔ اس فقہی جزئیے پر خوب غور کیجیے کہ اسی میں تمام موجودہ مسائل کا حل موجود ہے۔
حکمران کے فیصلے کے خلاف اپنا فیصلہ منوانے کی کوشش کرنا بغاوت ہے جو حکمران کا ناجائز فیصلہ نہ ماننے سے آگے کی چیز ہے اور اس وجہ سے اس کے جواز کےلیے ضروری ہے کہ یہ کوشش کرنے والے اتنا مضبوط جتھا رکھتے ہوں کہ وہ حکمران کے ساتھ ٹکر لے سکیں اور مزید یہ کہ اس ٹکر کے نتیجے میں زیادہ بڑا منکر، زیادہ بڑا فساد، رونما ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔ رویتِ ہلال کے معاملے پر حکومت نے اپنی رٹ منوانے میں کبھی دلچسپی نہیں لی ورنہ پوپلزئی صاحب یا دوسرے مقامی علماے کرام کے پاس اس بغاوت کےلیے درکار قوت موجود نہیں ہے۔ حکومت کی یہ عدم دلچسپی اپنی جگہ لیکن پوپلزئی صاحب اور دیگر مقامی علماے کرام کا یہ طرز عمل پھر بھی اصولی طور پر غلط ہے۔یہ بات اس معاملے میں ہے جب حکمران کا حکم ایسے امر کے متعلق ہو جس میں اجتہادی اختلاف کی گنجائش ہو۔ اگر حکمران ایسا فیصلہ کرے جو امت کے اجماعی فہمِ دین کے خلاف ہو تو وہ حکم ہرگز نہیں مانا جائے گا، خواہ زمین پھٹے یا آسمان گرے۔ البتہ یہاں بھی یاد رہے کہ حکم نہ ماننے اور بغاوت برپا کرنے میں فرق ہے۔
آخری بات یہ ہے کہ جو لوگ باجماعت نمازوں کے معاملے اور رویتِ ہلال کے معاملے میں مفتی منیب الرحمان صاحب اور دیگر کبار اہلِ علم کے موقف کو تضاد قرار دیتے ہیں، وہ اس بنیادی اصولی فرق کو نظرانداز کررہے ہیں کہ حکمران کی اطاعت ہر اس فیصلے میں لازم ہے جو اللہ کی شریعت کے خلاف نہ ہو لیکن اگر علماے کرام یہ سمجھتے ہیں کہ حکمران کا کوئی فیصلہ اللہ کی شریعت کے خلاف ہے تو اس پر تنقید علماے کرام کا نہ صرف حق ہے بلکہ فریضۂ منصبی ہے۔ البتہ اگر وہ معاملہ اجتہادی ہو، تو حکمران کے فیصلے پر کڑی تنقید کرنے کے باوجود عملاً اسی فیصلے کو نافذ مانا جائے گا۔ چنانچہ باجماعت نمازوں کے مسئلے پر علماے کرام نے بعینہ یہ موقف اختیار کیا کہ مساجد میں جماعت پر مکمل پابندی ناجائز ہے لیکن اگر حکمران باجماعت نمازوں کی ادائیگی پر کچھ شروط عائد کرتا ہے، یا کہیں مخصوص حالات میں پابندی بھی لگادیتا ہے، تو عملاً وہ حکم نافذ ہوگا۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اصول فقہ اور علم الفروق میں مہارت کے بغیر قانونی مسائل پر راے دینے سے اجتناب کریں، بالخصوص جب بات اللہ کے قانون کی ہو۔