عبادت گاہوں سے متعلق مسلم فاتحین کے طرز عمل پر گفتگو قصدا عہد صحابہ کی بعض مثالوں تک محدود رکھی گئی، کیونکہ مقصد صلح وجنگ کے مخصوص عرف اور اس پر مبنی ضابطوں کی وضاحت تھی جو اسلامی تاریخ کی درست تفہیم کے لیے ضروری ہے۔ اس کی اصولی وضاحت کے لیے عہد صحابہ کے فیصلے ہی زیادہ موزوں ہیں۔ ان کی روشنی میں بعد کی تاریخ میں مسلم فاتحین کے طرز عمل کے مناسب یا نامناسب ہونے پر گفتگو ہو سکتی ہے، لیکن اس کے برعکس بعد کے واقعات کی تفصیلات کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی عمومی حکم متعین کرنا اور پھر ساری اسلامی تاریخ پر اس کا اطلاق کرنا ہمارے نزدیک غیر تاریخی اور غیر منطقی طرز فکر ہے۔
عہد صحابہ میں دو شہروں یعنی بیت المقدس اور دمشق کی فتح کا اور دونوں مواقع پر اختیار کیے گئے مختلف طرز عمل کا ذکر کیا گیا۔ اس کی کچھ مزید تفصیل مناسب ہے۔ دونوں شہر سیدنا عمر کے عہد میں فتح ہوئے۔ دمشق زیادہ معتبر روایات کے مطابق چودہ ہجری میں، جبکہ بیت المقدس سولہ ہجری میں فتح ہوا۔ دمشق، جیسا کہ واضح کیا گیا، صلح اور جنگ کے ملاپ سے فتح ہوا، جبکہ بیت المقدس مکمل طور پر صلح کے معاہدے کے تحت مسلمانوں کے قبضے میں آیا۔ دونوں مواقع پر مسیحیوں اور یہودیوں کی عبادت گاہوں کے متعلق جو طرز عمل اختیار کیا گیا، اس کی قابونی بنیاد تو یہی فرق تھا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ دونوں موقعوں پر سیاسی مصالح بھی بہت مختلف تھے۔
دمشق، شام کا ایک مرکزی شہر تھا اور اس وقت تک مختلف چھوٹے شہر فتح کر چکنے کے باوجود مسلمانوں کے پاس علاقے میں مستقل قیام کے لیے کوئی مرکزی جگہ نہیں تھی، جبکہ بدیہی طور پر یہ سلطنت کی ایک بنیادی ضرورت تھی۔ مسلمانوں کی نظر ابتدا ہی سے اس مقصد کے لیے دمشق پر تھی اور یہی وجہ ہے کہ خود مسلمانوں کی طرف سے اہل شہر کو یہ پیش کش کی گئی تھی کہ وہ ’’مشاطرہ’’ کر لیں، یعنی اس شرط پر صلح کر لیں کہ آدھا شہر مسلمانوں کی ملکیت ہوگا۔ گویا اس فتح میں بنیادی ترجیح ہی سلطنت کی ایک بنیادی سیاسی ضرورت کو پورا کرنا تھا جو صلح وجنگ کے مروج عرفی قوانین کی رو سے اخلاقی طور پر بالکل جائز تھی، لہذا یہاں مذہبی رواداری کی اہمیت ثانوی اور سیاسی مصلحت کے تابع تھی۔
بیت المقدس کی نوعیت اس سے بالکل مختلف تھی۔ اس کو فتح کرنے کی اہمیت عسکری وانتظامی پہلو سے کم، اور علامتی لحاظ سے زیادہ تھی۔ یہ ایک ایسا شہر تھا جو یہودیوں اور مسیحیوں کے مذہبی جذبات کا مرکز تو تھا ہی، مسلمانوں کی نظر میں بھی اس کی دینی اہمیت غیر معمولی تھی۔ چنانچہ یہاں صلح کا ایسا معاہدہ کرنا ہی بہترین سیاسی حکمت عملی تھی جس میں مذہبی رواداری اور ابراہیمی مذاہب کے باہمی احترام کا پیغام نمایاں ہو اور بازنطینی سلطنت کے اس حصے میں بسنے والے اہل کتاب کے تمام گروہ مسلمانوں کی سیاسی طاقت سے متعلق ایک مثبت فضا میں اپنا رویہ متعین کر سکیں۔
جیسا کہ واضح ہے، سیاسی طاقت کا استحکام اور مذہبی رواداری، دونوں اصول اہم تھے، لیکن کون سے اقدام کے ذریعے سے کون سا مقصد حاصل کیا جائے، اس کا تعلق سیاسی بصیرت اور سیاسی حکمت عملی سے تھا۔ جو موقع جنگ کے عرفی قوانین کے تحت سیاسی مصالح کی حفاظت کا تھا، وہاں مذہبی رواداری کو ترجیح دینا غیر دانش مندی ہوتی، اور جو موقع مذہبی رواداری کے پیغام کی اشاعت کا تھا، وہاں سخت گیر رویہ اختیار کرنا اسلام اور اسلامی سلطنت کی غلط ترجمانی کا ذریعہ بن جاتا۔
اس مجموعی تناظر سے سیاسی حکمت عملی کے جو معیارات سامنے آتے ہیں، ان کی روشنی میں مورخین دیکھ سکتے ہیں کہ بعد کے ادوار میں مختلف مواقع پر مسلمان فاتحین نے جو طرز عمل اختیار کیا، وہ کتنا متوازن اور سلطنت کے دینی وسیاسی مصالح کے لیے ناگزیر تھا اور کتنا بے اعتدالی یا غیر دانش مندی کا مظہر یا مابعد تاریخ میں منفی نتائج پیدا کرنے کا موجب تھا۔
یہاں صحابہ کے اس طرز عمل پر ایک اہم اشکال سامنے آتا ہے جس سے تعرض ضروری ہے۔ وہ یہ کہ خلفائے راشدین، خصوصا سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے جنگی اخلاقیات سے متعلق جو ہدایات منقول ہیں، ان میں اہل کتاب کے معبدوں اور خانقاہوں کو گرانے اور ان کے راہبوں اور پادریوں کو ان کی مذہبی خدمات سے معزول کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ خود قرآن مجید میں سورۃ الحج میں اہل کتاب کی عبادت گاہوں کا ذکر ان مقامات کے ضمن میں کیا گیا ہے جہاں اللہ کا کثرت سے ذکر کیا جاتا ہے اور جہاد کے مشروع ہونے کی ایک وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ یاد الہی کے ان مقامات کو منہدم اور مسمار نہ کر دیا جائے۔ اسی طرح سورۃ البقرۃ میں یہود ونصاری ٰ کی مذمت کی گئی ہے جو ایک دوسرے کی عبادت گاہوں کو ویران اور بے آباد کر دیتے تھے۔ اگر عبادت گاہوں سے متعلق اسلام کی اخلاقی تعلیم یہ ہے تو اس کے ہوتے ہوئے صحابہ نے مفتوحہ علاقوں کی بعض عبادت گاہوں کو اہل کتاب سے لے کر مسجد میں کیوں تبدیل کر دیا جو گویا انھیں وہاں عبادت سے روکنے یا ان کی عبادت گاہ کو منہدم کر دینے کے مترادف ہے؟
ذرا غور کرنے سے واضح ہوگا کہ یہ اشکال درست نہیں۔ قرآن مجید میں جس چیز کی مذمت کی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ ایک گروہ مذہبی مخاصمت کی وجہ سے دوسرے گروہ کی عبادت گاہوں کو ڈھا دے یا انھیں بے آباد اور ویران کر دینے کی سعی کرے جس کا نتیجہ یہ نکلے کہ وہاں اللہ کو یاد کرنے کا جو سلسلہ جاری تھا، وہ مذہبی منافرت کی بھینٹ چڑھ کر ختم ہو جائے۔ جنگی اخلاقیات کے ضمن میں جو ہدایات دی گئیں، ان کا مدعا بھی یہی تھا کہ دوران جنگ میں ایسے مذہبی مقامات اور وہاں خدمات انجام دینے والوں سے تعرض نہ کیا جائے جن کا جنگ سے کچھ لینا دینا نہیں اور وہ ان معاملات سے الگ رہ کر اپنے معبدوں میں یاد الہی میں مشغول ہیں۔ یہ دونوں ہدایات اپنی نوعیت کے لحاظ سے اس صورت حال سے متعلق نہیں ہیں جب جنگ کے نتیجے میں پورا علاقہ مسلمانوں کے قبضے اور ملکیت میں آ جائے اور انھیں یہ اختیار حاصل ہو جائے کہ وہ شہر کے باشندوں، ان کے اموال اور اس پورے علاقے کی زمین اور عمارتوں کے متعلق اپنے سیاسی مصالح کے لحاظ سے جو فیصلہ مناسب سمجھیں، کر لیں۔
دوسرے لفظوں میں، یہاں خاص طور پر عبادت گاہیں موضوع ہی نہیں ہیں اور نہ کسی مذہبی مخاصمت کی بنیاد پر انھیں ویران یا منہدم کر دینے کی کوئی صورت حال پائی جاتی ہے۔ اس دور کے جنگی عرف کے مطابق فاتحین کو پورے علاقے کی ملکیت حاصل ہو جاتی تھی جس میں ضمنا عبادت گاہیں بھی شامل ہوتی تھیں اور ان کے متعلق کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار، اسی عمومی اختیار کا ایک حصہ ہوتا تھا جس کی رو سے فاتحین باقی تمام عمارتوں کے متعلق حسب صوابدید کوئی فیصلہ کر سکتے تھے۔ جنگ میں شکست کھانے کے بعد قانونی لحاظ سے مفتوحین کی یہ حیثیت باقی ہی نہیں رہتی تھی کہ وہ اس شہر اور اس کی املاک کے مالک ہیں۔ پورے علاقے کی ملکیت فاتحین کو منتقل ہو جاتی تھی، اس لیے ان کی طرف سے کسی بھی عمارت کو اپنے تصرف میں لینے کے فیصلے کی یہ تعبیر ہی درست نہیں کہ اس کے اصل مالکوں سے اس کی ملکیت چھین لی گئی۔ یہ ملکیت جنگ میں مفتوح ہونے کے نتیجے میں خود بخود ختم ہو جاتی تھی اور فاتحین جو بھی تصرف کرنے کا فیصلہ کرتے، وہ جنگی قانون کی رو سے اپنی ملکیت میں کرتے تھے نہ کہ مفتوحین کی ملکیت میں۔
اس لیے اصل اعتراض اگر بنتا ہے تو اس پر بنتا ہے کہ مفتوحہ علاقے کی ملکیت فاتحین کو منتقل ہو جانے کا اصول درست نہیں تھا، بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر اصل اعتراض یہ بنتا ہے کہ جنگ کے ذریعے سے کسی قوم کو مفتوح کرنے کا عمل ہی درست نہیں تھا۔ اگر جنگ کا جواز مان لیا جائے اور اس کے لازمی نتیجے کے طور پر مفتوحہ علاقے کی ملکیت کا اصول فاتحین کو منتقل ہو جانے کا اصول بھی تسلیم کر لیا جائے تو پھر صرف عبادت گاہوں کے متعلق اس اعتراض کی کوئی قانونی یا اخلاقی بنیاد نہیں بنتی اور نہ اس بحث کو اس سوال کے ساتھ خلط کرنا درست ہے کہ اسلام نے تو اہل کتاب کی عبادت گاہوں کے احترام اور حفاظت کی تعلیم دی ہے۔