اسلام آباد میں آبپارہ سے میلوڈی کی طرف اگر آپ جانا چاہیں تو سڑک ایک بار پھر بند ملتی ہے۔ چند ہفتوں قبل یہ سڑک بند کی گئی تھی مگر بعد ازاں اسے کھول دیا گیا تھا۔ اب چند دنوں سے یہ سڑک پھر سے بند کر دی گئی ہے۔ اس کی بندش سے بلاشبہ سینکڑوں گھرانوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس بندش کی وجہ لال مسجد/ مولانا عبد العزیز کا حکومت کے ساتھ عرصہ دراز سے جاری تنازعہ ہے۔ جامعہ حفصہ اور لال مسجد کے مسائل ابھی حل نہیں ہوئے تھے کہ جامعہ فریدیہ پر کنٹرول کا مسئلہ بھی کھڑا ہو گیا ہے۔ اب صورتحال کچھ ایسی ہے کہ مولانا عبدالعزیز صاحب لال مسجد میں ہیں نہیں مگر یہ علاقہ بند کر دیا گیا ہے۔ اس سارے تنازعہ میں’قطع نظر اس حقیقت سے کہ کس کی کتنی غلطی ہے اور کون حق پر ہے’ یہ بالکل واضح ہے کہ مذہبی طبقے کے بارے میں ایک عمومی منفی رائے پروان چڑھ رہی ہے کہ یہ لڑائی’ باہمی چپقلش اور فرقہ وارانہ سوچ کے تحت مسائل کھڑے کئے رکھتے ہیں۔ ہم اس بات کو تسلیم کریں یا نہ کریں مگر لال مسجد کا نام آتے ہی مخصوص طرز عمل اور ہٹ دھرمی پر مبنی رویے کا خیال ذہن میں گونجنے لگتا ہے۔ آپ جڑواں شہروں کے کبار علمائے کرام کے ساتھ بیٹھ جائیں تو جان لیں گے کہ وہ بھی اس سارے مسئلے پر کتنی فرسٹریشن کا شکار ہیں۔
یہ تو کہانی ہے اسلام آباد کی۔ دوسری طرف چند ہفتوں سے لاہور میں ڈاکٹر اشرف جلالی صاحب کی ایک تقریر کو لے کر گرج چمک کے ساتھ فتووں اور تقاریر کا نہ تھمنے والا جو سلسلہ ملک بھر میں شروع ہو چکا ہے اس سے بھی آپ بخوبی واقف ہوں گے۔ ڈاکٹر صاحب موصوف خود فرقہ وارنہ گفتگو کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ بین المسالک اور خود اپنے مسلک کے اندر علماء کے ساتھ الجھنے کی ان کی ایک تاریخ ہے۔ آپ اپنے دام میں صیاد آگیا کہ مصداق اب وہ پھنس گئے ہیں اور ان کو کمک پہنچانے کا سلسلہ وہاں سے جاری ہے جسے آپ پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے مخالفین نے گالم گلوچ اور بڑھک بازی پر مشتمل صنعت خطابت کے نئے زاویے نمایاں کئے ہیں جس سے مذہبی حلقوں کی جگ ہنسائی کے علاوہ کچھ بھی ہاتھ نہیں آ رہا۔
ابھی یہ سلسلہ جاری ہی تھا کہ پنجاب اسمبلی سے ایک قانون کے پاس ہونے کی خبریں چل پڑی ہیں۔ سردست اس قانون پر تبصرہ مقصود نہیں مگر اس پر جو ردعمل اھل تشیع و بعض دیگر حلقوں سے سامنے آ رہا ہے اس سے یہی لگتا ہے کہ فرقہ وارانہ مباحث کا ایک نیا سلسلہ شروع ہونے کو ہے۔ تعصب اور نفرت بھرے مواد کی جو چنگاریاں کتابوں کے اندر محدود ہو کر سلگ رہی تھیں اب وہ شعلے بن کر الاؤ بھڑکانے کے لئے بیتاب ہیں۔کیا اوپر تلے برپا ہونے والے یہ سارے واقعات محض اتفاق ہیں یا پھر کسی سوچی سمجھی پلاننگ سے مذہبی عنوانات کے تحت لڑائیوں کو فروغ دیا جا رہا ہے؟
مجھے معلوم ہے کہ سازش تھیوری کی پھبتی کس کر ان واقعات کو بھی انفرادی حیثیت میں نظرانداز کرنے کی بات کی جائے گی مگر معاملہ اتنا سادہ نظر نہیں آتا۔ اس صورتحال میں سب سے زیادہ ذمہ داری سنجیدہ و متین فکر علماء اور دینی راہنماؤں کی بنتی ہے کہ وہ آگے بڑھ کر اپنا مثبت کردار ادا کریں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ اس ملک کی مڈل کلاس اور پڑھے لکھے نوجوان مذہب کو اس کی روح کے مطابق اختیار کریں اور محض ایک رسم کے طور پر نہ نبھائیں تو دین کے دعوت کو اپنے اپنے مسالک کے فرقہ پرستوں سے واگذار کروائیں۔