پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی محاذ پر کشیدگی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ یوں تو اس حوالے سے چہ مگوئیاں کافی دن سے چل رہی تھیں مگر گذشتہ روز وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک ٹی وی پروگرام میں مسئلہ کشمیر پر سعودی عرب کی سرد مہری کو خاص طور پر موضوع گفتگو بنایا۔ وزیر خارجہ نے یہاں تک عندیہ دے دیا کہ سعودی زیر اثر اور پشت پناہی سے قائم او آئی سی کو بھی پس پشت ڈال کر پاکستان اپنے آپشنز بروئے کار لائے گا۔ ان کا خاص طور پر کہنا تھا کہ سعودیہ کے ساتھ یا پھر سعودیہ کے بغیر ہم بہرحال آگے بڑھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ سعودی کی حفاظت کے لئے پاکستانی کے جذبات سب کے سامنے ہیں مگر کشمیر کے حوالے سے سعودیہ کو اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا۔
اب یہ خبر آ گئی ہے کہ سعودی عرب کی طرف سے تین بلین ڈالرز کی قرض سہولت میں سے ایک بلین ڈالر پاکستان نے واپس ادا کردئیے ہیں۔ اس خبر کو یوں تو روٹین کی کاروائی بھی سمجھا جاسکتا ہے مگر جس طرح سوشل میڈیا پر مخصوص اکاؤنٹس سے اس کو نمایاں کیا جا رہا ہے اس سے یہ ایک معنی خیز کام لگتا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان نے چین سے ادھار لے کر یہ رقم ادا کی ہے۔ بادی النظر میں یہ کہا جا رہا ہے کہ سعودی عرب کی طرف سے پاکستان پر سفارتی دباؤ بڑھانے کے لئے اس رقم کی ادائیگی کا مطالبہ کیا گیا تھا اور اس میں سہولت نہیں دی گئی۔ پاکستان نے بھی سردمہری کا مظاہرہ کرتے ہوئے رقم کا متبادل ذریعے سے انتظام کر کے اس دباؤ کا رخ موڑ دیا ہے۔
چین کا ذکر ہوا ہے تو یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ چین اور ایران کے درمیان مجوزہ خطیر سرمایہ کاری کے معاہدے کی بازگشت میں بھی پاکستان کا نام بطور سہولت کار لیا جا رہا ہے۔ ظاہر ہے سعودی عرب اور اس کے دیرینہ حلیف امریکہ کے لئے یہ کوئی خوشگوار خبر نہیں ہے۔ سعودی عرب کی خواہش رہی ہے کہ چین کے ساتھ اس کے تعلقات میں گرمجوشی پیدا ہو اور ان تعلقات کی نوعیت محض تجارتی و سرمایہ کارانہ نوعیت سے بڑھ کر تزویراتی حدود میں داخل ہو۔ غالبا پاکستان کے لئے یہ سعودی خواہش زیادہ مسحورکن نہیں رہی ہوگی کہ چین کی صورت میں سعودی عرب کو مضبوط شراکت کار کے ملنے سے خطے میں پاکستان کے لئے امکانات کم ہوسکتے ہیں۔ سعودی عرب کی خواہش کے برعکس چین اور ایران کی قربتوں میں اضافہ ہو رہا ہے جو سعودیہ کے لئے ایک چیلنج سے کم نہیں ہے۔ گو کہ چین اور ایران کی ممکنہ ڈیل کے بارے میں ابھی حتمی طور پر کچھ کہنا قبل از وقت ہے کہ سرمایہ کاری کے لانگ ٹرم منصوبوں میں کئی طرح کی پیچیدگیاں سامنے آسکتی ہیں۔ ریاستی ساخت اور کنٹرول کے حوالے سے بہرحال ایران اور چین میں کئی چیزیں مشترک ہیں جس سے سیاسی سطح پر بھی دونوں ممالک فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ایران کو اپنے ہمدرد یورپی دوست ممالک کی طرف سے انسانی حقوق کے احترام کے لیکچرز سننے سے یقینا کوفت ہوتی ہوگی۔ اس کوفت سے نجات کی ایک مناسب صورت چین سے تعلقات کے نئے باب کا آغاز بن سکتی ہے۔ اسلام آباد میں ایرانی سفیر نے چینی سفارتخانے کے دورے کے بعد اس خبر کو تصویر کے ساتھ نمایاں کر کے شائع کیا ہے۔ اس سے پاکستان کے بارے میں سعودی بدگمانی میں صرف اضافہ ہونے کی ہی توقع ہے کہ ایسے نازک مرحلے پر اس ملاقات کے لئے اسلام آباد کا انتخاب اور اس پر مستزاد تشہیر پاکستان کے کسی بھی چین – ایران ممکنہ معاہدے میں سہولت کار ہونے کے تاثر کو تقویت دینے کا باعث بنے گی۔
پاکستان کے لئے ایران اور چین کے درمیان بڑھتی ہوئی قربت میں کئی مواقع موجود ہیں۔ انڈیا کی ایران کے ساتھ دوستی اور انڈیا کی طرف سے ایرانی بارڈر کو استعمال کرتے ہوئے بلوچستان میں تخریبی سرگرمیوں کی امداد پاکستان کے لیے ایک چیلنج رہا ہے۔ پاکستان اگر ایران کو چین کے ساتھ مضبوط تعلقات میں باندھنے کے لیے کوئی کردار ادا کرتا ہے اور اس کے عوض انڈیا کے کردار کو ایران میں محدود کر پاتا ہے تو یہ ایک بڑی کامیابی سمجھی جائے گی۔ اخباری خبروں کے مطابق انڈیا کے چاہ بہار منصوبے سے الگ کیے جانے کی باتیں چل رہی ہیں جو اگر کسی اور وجہ سے بھی ممکن ہو رہا ہو تو پاکستان کے پالیسی میکرز کے لیے ایک خوش آئند بات ہوگی۔
خطے میں وقوع پذیر ہونے والی یہ تبدیلیاں اپنی جگہ مگر ان سے فوری نوعیت کے بڑے نتائج کشید کرنے کی کوششیں غلط ہوں گی۔ پاکستانی خارجہ پالیسی میں اپنے دیرینہ حلیف ممالک بالخصوص امریکہ کے ساتھ اتار چڑھاؤ کے کئی دور آئے مگر ہر بار یہ بیل منڈھ چڑھ ہی جاتی ہے۔ کچھ یہی حال سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کو ابتدائی دنوں میں جس گھمبیر معاشی بحران کا سامنا تھا اس سے نپٹنے کے لئے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے غیر معمولی مدد فراہم کی تھی۔ اس مدد کے عوض سعودی عرب پاکستان سے کچھ ایسی توقعات باندھ بیٹھا ہے جو شائد پاکستان کے لئے پوری کرنا بوجوہ ممکن نہیں ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت میں ایران کی طرف جھکاؤ اور میلان رکھنے والے ممبران کی ایک قابل ذکر تعداد شامل ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ممبران حکومتی پالیسیوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ شنید ہے کہ سعودی عرب اس حوالے سے بعض حکومتی عہدیداروں کے بارے میں زیادہ خوشگوار جذبات نہیں رکھتا۔ یمن کے مسئلے پر پہلے سے رنجیدہ سعودی حکومت کو شائد یہ خوش فہمی لاحق ہوگئی تھی کہ عمران خان کی حکومت کی مدد اور اس کے اسٹیبلشمنٹ سے راہ رسم کی بنیاد پر سعودی موقف اور جذبات کو اسلام آباد میں زیادہ پذیرائی ملے گی۔ وقت گزارنے کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کو یہ احساس ہونا شروع ہو گیا ہے کہ ان کی توقعات پوری نہیں ہو رہیں۔
اسلام آباد نہ صرف اپنی محتاط اور معتدل خارجہ پالیسی پر کاربند رہا بلکہ وزیر اعظم عمران خان نے ترکی اور ملائیشیا کے ساتھ تعلقات کو جذباتی وابستگی کے ساتھ آگے بڑھانا شروع کردیا۔ اس دوران کوالالمپور سمٹ کے معاملے کو جس طرح دونوں اطراف سے حل کیا گیا اس سے پاکستان وقتی طور پر تو اس سمٹ میں شمولیت سے رک گیا مگر سعودی عرب کی طرف سے روکے جانے کو ایک عوامی معاملہ بنا کر غیر ملکی مداخلت کے بیجا تصور کو نمایاں کیا گیا۔ ترکی کے ساتھ سعودی عرب کی مخاصمت کی بازگشت پاک سعودی تعلقات میں بھی سنائی دینے لگی۔ حتی کی ارطغرل ڈرامے کے پی ٹی وی پر نشر کئے جانے پر سعودی عرب کی ناراضگی کے بارے میں اسلام آباد کے حکومتی و سفارتی حلقوں میں کھلے عام بحث ہوتی رہی۔ سعودی عرب کے لئے یہ سفارتی کشیدگی جہاں ایک چیلنج ہے وہاں پاکستان کے لئے بھی یہ ایک سنجیدہ اور پیچیدہ مسئلے سے کم نہیں۔ پاکستان کی معیشت بالواسطہ اور بلاواسطہ طور پر مڈل ایسٹ اور خاص کر کے سعودی عرب کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ بہت بڑی تعداد میں پاکستان سعودی عرب میں محنت مزدوری کر کے اپنا پیٹ پالتے ہیں اور ان کی بھیجی گئی رقوم ترسیل زر کی مد میں پاکستان کی معیشت کا بہت بڑا سہارا ہیں۔ ان مزدوروں کی بڑی تعداد غیر تربیت یافتہ یا کم تربیت یافتہ محنت کشوں پر مشتمل ہے جن کے لئے کسی دوسرے ملک میں روزگار کی تلاش میں جانا ممکن نہیں ہے۔ کرونا وائرس کے نتیجے میں سعودی معیشت پر جو منفی اثرات ظاہر ہوں گے اس کے اثرات لیبر مارکیٹ پر بھی پڑیں گے۔ ایسی صورتحال میں اگر ریاض اور اسلام آباد کسی سیاسی کشیدگی کا شکار رہتے ہیں تو اس کے فوری اور براہ راست منفی اثرات پاکستان لیبر پر پڑ سکتے ہیں۔ چناچہ حکومت پاکستان کو پوری توجہ سے اپنے آپشنز استعمال کر کے آزاد خارجہ پالیسی کے تقاضوں کو نبھانے کے ساتھ ساتھ معروضی حقائق کا ادراک بھی کرنا پڑے گا۔
سعودی حکومت کو بھی اس بات کا احساس کرنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات کی نوعیت کسی ڈرامے یا پاکستان کے کسی دوسرے ملک کے ساتھ تعلقات کے نتیجے میں کمزور پڑنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ باہمی تعلقات میں احترام اور ایک دوسرے کے فیصلوں کی نوعیت کو سمجھنے کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ اوبامہ کے دور صدارت میں سعودی عرب نے جن حالات کا سامنا کیا تھا اس وقت پاکستان جیسا دیرینہ دوست ہی سعودی عرب کے ساتھ کھڑا تھا۔