غالباً 1997ء کی بات ہے۔ اسلامی یونی ورسٹی میں طالب علمی کا دور تھا۔ بے فکری، ہنگامہ آرائی، ہلا گلا، شرارتیں اور کبھی کبھار لڑائی جھگڑے بھی، گویا زندگی بھرپور طریقے سے گزر رہی تھی۔ یونی ورسٹی میں مارچ کے مہینے میں ثقافتی ہفتہ منایا جاتا تھا جس میں کھیل کود، ڈراما، ثقافتی ورثے کے متعلق سٹالز، علمی مباحثے اور سیمینارز اور بہت کچھ ہوتا تھا۔ سارا سال ہم شدت سے اس ہفتے کا انتظار کرتے تھے۔
اس سال تقریری مباحثے میں آڈیٹوریم حسب سابق کھچاکھچ بھرا ہوا تھا اور جو بھی مقرر آتا تھا، اسے بھرپور ہوٹنگ کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ پاکستانی قوم کو ویسے بھی اللہ تعالیٰ نے جگت بازی کا خصوصی ملکہ عطا کیا ہوا ہے۔ سٹیج پر بیٹھے بعض اساتذہ کے تاثرات سے معلوم ہورہا تھا کہ ان کی طبیعت پر یہ سب کچھ گراں گزر رہا تھا۔ مباحثے کے اختتام پر استاد محترم حبیب الرحمان عاصم صاحب کو گفتگو کےلیے بلایا گیا۔ جو انھیں جانتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ وہ کیسے نستعلیق آدمی ہیں اور ان کی آواز میں کیسا سحر ہے، بولتے ہیں تو بندہ کہے بس وہ بولتے جائیں اور ہم سنتے جائیں۔ اس وقت بھی یہی ہوا، جیسے ہی انھوں نے بات شروع کی، اچانک ہی انگریزی محاورے کے مطابق pin drop silence کا سماں ہوگیا۔ انھوں نے، بجاے اس کے کہ نصیحت کرتے، برا بھلا کہتے، والدین کی تربیت کا نوحہ پڑھتے، اخلاقی زوال پر آنسو بہاتے، کہا کہ:
یہ ہوٹنگ، یہ شور شرابا، یہ ہلا گلا، بہت ضروری ہے اور اس پر ہم سب کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس طرح معاشرے میں موجود گھٹن ختم کرنے میں مدد ملتی ہے، کچھ دیر کےلیے ہی سہی، لوگ اپنا غم بھول جاتے ہیں، قہقہے لگاتے ہیں اور کچھ اپنی مرضی سے کرگزرنے پر خوشی محسوس کرنے لگتے ہیں۔اس پر تالیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔ میں نے دیکھا کہ وہ شریر ترین (اور بظاہر بے ہودہ ترین) لڑکے جو ہر ایک پر آوازے کستے تھے، جگتیں مارتے تھے، زور زور سے تالیاں پیٹ رہے ہیں اور ان میں کئی ایسے ہیں جن کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔
اس کے بعد عاصم صاحب بولتے رہے اور لوگ سنتے رہے، داد بھی دیتے رہے، اور بالکل یوں محسوس ہورہا تھا کہ ان کی باتیں ان کے دل سے نکل رہی ہیں اور مخاطبین کے دلوں میں پیوست ہورہی ہیں۔ انھوں نے تفصیل سے بتایا کہ کیسے اس توانائی اور صلاحیت کو تعمیری مقاصد کےلیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ تقریب ختم ہوئی تو لوگ ان کی طرف یوں لپک رہے تھے جیسے پروانے شمع پر نثار ہورہے ہوں۔
ان کی یہ باتیں ہر اس موقع پر یاد آتی ہیں جب بعض بزرگ (جو محض عمر زیادہ ہوجانے کی وجہ سے بزرگ کہلانے لگتے ہیں) نوجوانوں کے شور شرابے پر قوم کی تباہی کا رونا رونے لگتے ہیں۔آج بھی یہ بات اسی وجہ سے یاد آئی۔چھوڑو، یارو! تم نہیں انجواے کررہے، یا نہیں کرسکتے، تو ان کو تو انجواے کرنے دو۔ ایک دن کےلیے ہی سہی، انھیں شور و غوغا کی آزادی دے دو۔ یہ گھٹن کچھ تو کم ہو۔