امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ذاتی کوششوں سے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کے قیام کیلئے ہونے والے معاہدے نے مسلم دنیا میں سخت بھونچال برپا کر دیا ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ اسرائیل کا وجود کن طاقتوں کی سازشوں کا مرہون منت ہے، کیسے دنیا بھر سے بھگوڑے یہودیوں کو لا لا کر ارض مقدس پر آباد کیا گیا اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ عالمی طاقتوں نے طاقت اور مکر کے زور پر فلسطین کا سینہ چاک کر اسرائیل نامی سرطان کا پھوڑا اس میں گاڑ دیا۔ بڑی گہری سازشوں کے ذریعے مسلمانوں کی طاقت کو ٹکڑوں میں بکھیرنے کے بعد 1948ءمیں ارض فلسطین پر اسرائیل کا قیام عمل میں لایا گیا اور مسلم امہ خون کا گھونٹ پی کر رہ گئی۔ مسلم امہ کی مرکزیت اور طاقت ختم ہو چکی تھی۔ اب وہ عرب و عجم کے کئی ملکوں میں بٹ کر رہ گئی تھی اور میں سے ہر ایک اپنے مفادات اور مسائل میں الجھا ہوا تھا۔ ایسے میں بے یار و مددگار فلسطینیوں کے سینے میں یہ زہریلا خنجر اتار دیا گیا، اس سانحے کو ستر سال سے زیادہ گزر گئے، ارض مقدس کے زخموں سے بھی اب لہو رس رہا ہے، تاہم اپنی تمام تر بے بسی اور کمزوریوں کے باوجود مسلم دنیا نے اسرائیل کا وجود کبھی تسلیم نہیں کیا تھا، جس سے امید تھی کہ آخر کسی دن اسرائیل اپنا غیر قانونی و غیر اخلاقی وجود سمیٹنے پر مجبور ہو جائے گا، مگر آج عرب دنیا کے اہم ملک متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ ہاتھ ملا کر اس امید کا بھی گلا گھونٹ دیا۔
اس معاہدے کو قضیہ فلسطین کے تناظر میں ایک تاریخی قدم قرار دیا جا رہا ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ اس معاہدے کے بعد فلسطین کے مسئلے کے پر امن حل کا راستہ کھلے گا، جبکہ حقائق اس کے بر عکس ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ اس معاہدے سے فلسطین اور اہل فلسطین کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا، الٹا امارات کے اس قدم سے مسئلہ فلسطین کے حوالے سے عالم اسلام کا دیرینہ موقف کمزور ہو جائے گا۔ آج عرب امارات نے اسرائیل کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا لیا ہے، کل دوسرے عرب اور مسلم ممالک بھی ارض فلسطین کے حوالے سے مسلم امہ کی نظریاتی پوزیشن کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے مفادات کیلئے اسرائیل کو تسلیم کرتے چلے جائیں گے اور اس سے سوائے اسرائیل کے ناجائز وجود اور فلسطینی سرزمین پر بڑھتے ہوئے اس کے قبضوں کو توثیق ملنے کے اور کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اسرائیلی وزیر اعظم نے بغیر لگی لپٹی رکھے اور کوئی لحاظ کیے بغیر کہا ہے کہ دریائے اردن کے مغربی کنارے (بچے کھچے فلسطین) کو اسرائیل میں ضم کرنے کا منصوبہ نہیں روکا جائے گا۔ اس بیان کے بعد امارات کے قابل احترام شیوخ کے اس عمل کو اسرائیل پر یکطرفہ واری جانے کے سوا کیا کہا جائے؟ حمیت نام تھا جس کا، گئی تیمور کے گھر سے!
قضیہ فلسطین کے حوالے سے پاکستان کا اصولی موقف بالکل واضح ہے، پاکستان اس وقت تک اسرائیل کا وجود تسلیم نہیں کرسکتا، جب تک وہ 1967ءسے پہلے کی حدود میں واپس نہیں جاتا اور آزاد فلسطینی ریاست جس کا دار الحکومت القدس شریف ہو، کا وجود عمل میں نہیں آتا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عرب امارات نے اپنے اس انفرادی اقدام سے عالم اسلام کی امنگوں، اس کی دیرینہ پوزیشن اور عادلانہ موقف کو زبردست نقصان پہنچایا ہے۔ قضیہ فلسطین میں ہمارے عرب بھائی فرنٹ سیٹ پر ہیں، وہ فلسطین کے مسئلے پر اسرائیل کے ساتھ تین بار جنگیں لڑ چکے ہیں، جن میں پاکستان کی بھی مقدور بھر مدد شامل رہی ہے، باقی مسلم دنیا اس مسئلے پر ان کی ہی رہنمائی کی منتظر ہوتی ہے، آج مگر ہمیں یہ دن دیکھنا پڑ رہے ہیں کہ ایک اہم عرب ملک نے اسرائیل کے ساتھ ہاتھ ملا لیا ہے، عرب دنیا میں اس پیشرفت پر بھونچال آنا چاہیے تھا، مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ بحرین اور عُمان نے امارات کے فیصلے کی حمایت کر دی ہے، جبکہ باقی عرب ممالک خاموش ہیں اور خاموشی کو نیم رضا ہی سمجھا جاتا ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ اب ہمیں باقی عرب بھائیوں کی طرف سے بھی اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے کی خبر کا انتظار کرنا چاہیے؟ افسوس آج ہم یہ دن دیکھنے کیلئے زندہ ہیں!
پاکستان میں پہلے ہی ایک محدود طبقہ اسرائیل کی حمایت میں سرگرم ہے اور اس کی دیرینہ خواہش ہے کہ پاکستان اپنے پاسپورٹ سے اسرائیل کا استثنا ختم کرے اور اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرے، عرب امارات کے اس اقدام کے بعد تو ان لوگوں کو بہت بڑی دلیل بھی ہاتھ آگئی ہے، مگر ہمیں سمجھنا چاہیے کہ بطور پاکستانی ارض فلسطین پر اسرائیل کا قبضہ جائز تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم کشمیر پر بھارت کا ناجائز تسلط بھی قبول کرلیں۔ ذرا سوچئے کیا ہم اس کیلئے تیار ہیں؟