افغانستان میں گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری جنگ کے بعد قطر کے دارالحکومت دوحہ میں بین الافغان مذاکرات شروع ہونے پر پوری دنیا سے مثبت رد عمل سامنے آ رہا ہے اور بین الاقوامی طاقتوں سمیت خطے کے تمام ممالک کی طرف سے اس کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔
افغانستان پر سنہ 2001 میں امریکی حملے کے بعد اور اس سے قبل بھی افغانستان کے ہمسایہ ملکوں ایران اور پاکستان کے علاوہ انڈیا، چین اور خلیجی ریاستوں نے، جو بلاواسطہ یا بلواسطہ افغانستان کی لڑائی میں کسی نہ کسی طرح شریک رہی ہیں، دوحہ میں بین الافغان امن مذاکرات کے آغاز پر اپنے پیغامات میں افغانستان میں پائیدار قیام امن کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔
انڈیا اور پاکستان، جن کی باہمی چپقلش اور کھینچا تانی افغانستان کی سرزمین پر بھی جاری رہی ہے، کے وزرائے خارجہ نے دوحہ میں ہونے والے اجلاس میں مواصلاتی رابطے کے ذریعے خطاب کیا۔
پاکستان کا رد عمل
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ‘ویڈیو لنک’ کے ذریعے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اسے ایک تاریخی واقعہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ افغان قوم کی طرف سے امن کی تلاش میں کی جانے والے کوششوں میں یہ ایک اہم پیش رفت ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق پاکستانی وزیر خارجہ نے اپنے خطاب میں قیام امن کے لیے ایک چار نکاتی لائحہ عمل بھی پیش کیا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان بین الاقوامی برادری پر زور دیتا ہے کہ:
- وہ افغان قیادت کی سربراہی اور ‘حاکمیت’ میں شروع کیے گئے قیام امن کے عمل کی حمایت جاری رکھے۔
- اس بات کو یقینی بنائے کہ افغانستان کے لوگوں کو ماضی کے پرتشدد دور کا دوبارہ سامنا نہ کرنا پڑے اور نہ ہی افغانستان کی سرزمین ایسے عناصر استعمال کر سکیں جو اس کی سرحدوں کے باہر دوسروں کو نقصان پہنچائیں۔
- افغانستان کی تعمیر نو اور ترقی کے لیے اس سے قریبی اور دیرپا معاشی روابط قائم کیے جائیں۔
- معینہ مدت کے اندر افغان مہاجرین کی وطن واپسی کا منصوبہ تشکیل دے جس کے لیے مناسب مالی وسائل بھی دستیاب کیے جائیں تاکہ یہ لوگ اپنے گھروں کو باعزت اور باوقار طریقے سے واپسی کا راستہ اختیار کر سکیں۔
انہوں نے پاکستان کی طرف سے مکمل تعاون فراہم کرنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ قیام امن، ترقی اور سلامتی کے سفر میں پاکستان افغانستان کے لوگوں کی حمایت جاری رکھے گا۔
انہوں نے قیام امن کے اس عمل میں رخنہ اندازوں کی طرف سے خلل ڈالنے کے بارے میں بھی خبردار کیا اور کہا کہ ایک ‘کڑے چیلنج’ کے طور پر اس کا سامنا رہے گا۔
انڈیا کا رد عمل
انڈیا کے نشریاتی ادارے این ڈی ٹی وی کے مطابق انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے بھی ہفتے کو ٹیلی کانفرنس کے ذریعے دوحہ میں جاری اجلاس سے خطاب کیا اور کہا کہ افغانستان میں قیام امن کے عمل میں افغانستان کی خودمختاری اور جغرافیائی سرحدوں کا احترام کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ امن کے اس عمل میں انسانی حقوق اور جمہوریت کی پاسداری کی جانی چاہیے، خواتین، اقلیتوں اور کمزور طبقوں کے حقوق کو تحفظ فراہم کیا جانا چاہیے اور ملک میں جاری تشدد کو موثر طور ختم کیا جانا چاہیے۔
اپنے خطاب کا خلاصہ اپنے ٹوئٹر پیغامات میں دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انڈیا کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ افغانستان میں شروع ہونے والی امن کی کوششیں کی قیادت افغانستان کے لوگ کریں، ان کے پاس ہی اس کا اختیار ہو اور وہ ہی ان کو چلائیں۔
انہوں نے کہا کہ انڈیا اور افغانستان کے لوگوں کے درمیان دوستی کے رشتے کی گواہ تاریخ ہے۔ انہوں نے کہا کہ انڈیا کی طرف سے افغانستان میں جاری 400 سے زیادہ ترقیاتی منصوبوں سے افغانستان کا کوئی کونا محروم نہیں ہے۔
ایران کا رد عمل
بی بی سی پشتو سروس کے مطابق ایرانی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں قطر اجلاس کا خیر مقدم کیا ہے۔ ایران کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایران افغانستان میں سیاسی جماعتوں اور طالبان کے مابین جاری مذاکرات کی حمایت کرتا ہے۔
ایرانی حکومت کو امید ہے کہ یہ بات چیت غیر ملکی مداخلت کے بغیر افغان عوام کے طے شدہ اہداف کو حاصل کرے گی اور خطے کے ساتھ ساتھ افغانستان کی سلامتی میں بھی اپنا کردار ادا کرے گی۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ افغان جنگ کا فوجی حل ناممکن تھا اور بات چیت کے ذریعے جنگ کا خاتمہ ہونا چاہیے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ غیر ملکی افواج کی موجودگی جنگ جاری رکھنے کی سب سے بڑی وجہ تھی اور غیر ملکی فوج کو ذمہ داری کے ساتھ افغانستان سے چلے جانا چاہیے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ایرانی حکومت افغان عوام کے شانہ بشانہ کھڑی ہے اور ہر حال میں افغان امن عمل کی حمایت کرتی ہے اور انتخابی مہم کے دوران امریکہ کی جانب سے ’افغان امن‘ نام کے استعمال کی شدید مذمت کرتی ہے۔
قطر کے وزیر خارجہ کا بیان
قطر کے وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمان بن جاسم التہانی نے،طویل عرصے سے ایک دوسرے سے برسرِ پیکار گروہوں سے کہا کہ وہ وقت کے چیلنجوں کو سامنے رکھتے ہوئے اور اپنے اختلافات کو بھلا کر ایک معاہدے پر پہچنے کے لیے حتمی فیصلہ کریں جو فاتح اور مفتوح کی بنیاد پر نہ کیا جائے۔
قطر نے مختلف دھڑوں ، علاقوں اور بعض ممالک کے درمیان ثالثی کے لیے علاقائی و عالمی سطح پر سفارتی کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں۔ حالیہ افغان امن عمل میں قطر کی کوششیں اختلافات و تنازعات کے مستقل اور دیر پا حل کے لیے قطر کے مفاہمتی کردار پر پختگی کا ثبوت ہے۔
صدر کرزئی کا ردعمل
سابق افغان صدر حامد کرزئی نے قطر میں مذاکرات کے جواب میں کہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ افغانستان اور طالبان اسلامی تحریک کے نمائندوں کے مابین باضابطہ مذاکرات خوشخبری اور امید و مسرت کا باعث ہیں۔
اجلاس میں شرکت نہ کرنے والے مسٹر کرزئی نے فیس بک پر لکھا ، ’یہ پائیدار امن و استحکام اور افغان عوام کے دکھوں کو ختم کرنے کا ایک حقیقی موقع ہے۔‘
صدر کرزئی نے کہا کہ افغانستان کے عوام دوحہ میں مذاکرات کرنے والے فریقین سے توقع کرتے ہیں کہ وہ ملک میں پائیدار امن، سلامتی، استحکام، اور قومی اتحاد کو مضبوط بنانے اور افغانستان کی مسلم قوم کے مفادات کے لیے اپنی اسلامی اور قومی ذمہ داریوں کا احساس کریں گے۔
انہوں نے کہا ، ’تاریخ کے اس نازک موڑ پر ، ہمارے پیارے ملک میں امن اور سلامتی تمام ممالک کی ترجیح ہے۔ ایک ایسا امن جو طویل مدتی غیر ملکی مداخلت کو ختم کرے گا۔‘