ایران اور سعودی عرب کے مابین کشیدگی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ مذہبی آرامیں اختلاف پر مبنی کشمکش پر اب علاقائی بالا دستی اور سیاسی اثر پذیری کی خواہش غلبہ پا چکی ہے جس کی حدت گاہے بڑھتی گاہے گھٹتی رہتی ہے لیکن حالیہ برسوں میں یہ کشیدگی کافی حد تک تیزہوتی دکھائی دیتی ہے۔ جس کے نتیجے میں خلیجی ممالک دو واضح خانوں میں بٹے نظر آتے ہیں، سنی اکثریتی ممالک سعودی عرب، جبکہ شیعہ اکثریتی ممالک ایران کے ساتھ وابستہ ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں سعودی فرماں روا شاہ سلمان نے ایران پر یمن میں حوثی باغیوں کی حمایت کا الزام عائد کیا اور کہا کہ ایران یمن کے حوثیوں کی مدد کر کے سعودی عرب میں فوجی مداخلت کا مرتکب ہو رہا ہے۔ جس کے جواب میں نمائندہ ایران برائے اقوامِ متحدہ تخت روانچی نے کہا کہ سعودی عرب یمن میں قحط کو بطور جنگی ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یمن میں غذائی قلت پیدا کرکے حالات کو اپنے حق میں استعمال کررہا ہے، یہ ایک سنگین جرم ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے علاقائی مسائل کے حل کے لیے بات چیت پر بھی زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ باہمی مسائل کے حل کے لیے ضروری ہے کہ دونوں ممالک مل بیٹھ کر بات کریں۔
ایران اور سعودی عرب خطے میں گذشتہ تین دہائیوں سے کسی نہ کسی طرح بر سرِ پیکار نظر آتے ہیں۔ ایران جہاں سعودی عرب پر ایران مخالف تنظیموں کی مدد کا الزام عائد کرتا ہے وہاں سعودی عرب ایران پرخلیج اور دنیا بھر میں ‘شیعہ اسلام’ کو فروغ دینے کے لیے مختلف شیعہ عسکری تنظیموں کی پشت پناہی کا الزام عائد کرتے ہوئے موقف اختیار کرتا ہے کہ ایران کا ایسا کرنا اس کے توسیع پسندانہ عزائم کا مظہر ہے۔
تاہم حالیہ جنرل اسمبلی اجلاس میں ہر دو ممالک کی ایک دوسرے پر الزام تراشی سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ باہمی کشیدگی ابھی ماند نہیں پڑی اوریہ جنگ کسی بھی وقت خطرناک روپ اختیار کر سکتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی اداروں اور اثرو رسوخ رکھنے والے ممالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایران اور سعودی عرب کے مابین کشیدگی میں کمی لانے اور انہیں پر امن بقائے باہمی کے کسی فارمولے پر راضی کرنے کے لیے اپنے تعلقات اور وسائل بروئے کار لائیں۔
خلیجی ممالک گذشتہ کئی دہائیوں سے جنگ کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں۔ امریکا سمیت عالمی طاقتوں کی غلط اور مبہم پالیسیوں کے باعث یہ دہشت گردی کی لپیٹ میں ہیں اورایران سعودیہ کشمکش نے بھی اس کو ایندھن فراہم کیا ہے، ان ممالک کو بھی چاہیےکہ وہ ایران اورسعودیہ کو خطے کے پائیدار امن اور مستحکم مستقبل کے لیے باہمی کشمکش سے ہاتھ کھینچنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کریں۔