بروز اتوار 2 اکتوبر 2010 کو مردان شہر میں ڈاکٹر محمد فاروق خان کو ان کے کلینک کے اندر دہشت گردوں نے گولیاں مار کر شہید کردیا۔ اج ان کو اور ان کی تعلیمی، سماجی، مذہبی اور سیاسی خدمات کو یاد کرنے کا دن ہے۔ ڈاکٹر شہید ہمارے وہ ہیرو ہیں جن کے جانے سے معاشرے فکری طور پر بنجر ہو جاتے ہیں۔ ان کا ماتم اس انداز سے ہونا چاہئے جو ہمارے اندر ان اقدار کو پروان چڑھانے کا موجب بنے جن کے لئے ڈاکٹر صاحب نے اپنی زندگی داو پر لگائی۔
ڈاکٹر فاروق خان شہید کا ابائی تعلق ضلع صوابی سے، ان کے والد گرامی اپنے دور کے باصلاحیت سکول ٹیچر تھے۔ متوسط آمدنی کے گھرانے میں ان کی بنیادی تربیت ہوئی۔ وہ کیڈٹ کالج حسن ابدال، گورنمنٹ کالج مردان، خیبر میڈیکل کالج پشاور میں زیر تعلیم رہے آسٹریا ویانا سے علم نفسیات میں تخصص حاصل کیا۔ دوران طالب علمی اسلامی جمعیت طلبہ کے آغوش فکر میں جوان ہوئے لیکن ان کے ہاں کبھی بھی فکری جمود نے شخصیت کا گھیراو نہیں کیا اس لئے متواتر علمی اور فکری طور پر اڑان بھرتے رہے۔ یہی ان کی سب سے بڑی خوبی تھی کہ مسلسل سیکھتے، استفادہ کرتے اور اپنی انا کو اس عمل میں اڑے نہ آنے دیتے۔
اپنے فکری ارتقا کے اس عمل میں 80 کی دہائی میں وہ بعض ایسے فکری نتائج تک پہنچے جو اس وقت کی جماعت اسلامی کی سوچ سے موافق نہیں تھے: خواتین کے حقوق اور حریت فکر سے لے کر جہاد و قتال اور فیملی پلاننگ تک۔ ان سب موضوعات پر ان کا تعارف ایک روشن فکر دانشور کے طور پر ہونے لگا۔ ان کی نئی سوچ پر مبنی ان کی کتاب ‘پاکستان اکیسویں صدی کی جانب، منظرعام پر ائی۔ یہ کتاب میرے خیال میں پاکستان میں مستقبلیات پر لکھی جانے والی پہلی کتاب تھی۔ اس کتاب میں انہوں نے ایک پاکستان کو جدید فلاحی ریاست کے طور پر دیکھنے کے بنیادی خدوخال کو واضح کیا۔
پاکستان اکیسویں صدی کی جانب، میں جہاں ڈاکٹر فاروق خان کی نئی سوچ کے خدوخال واضح ہوئے وہاں جماعت اسلامی کے اندر موجود فکری جمود سے کشمکش نے بھی جنم لیا۔وقت تھا کہ انہیں JI کے وجود سے الگ کردیا جائے چنانچہ ایسا ہی ہوا ان کو کتاب کا مسودہ واپس لینے یا جماعت سے نکل جانے کا کہا گیا۔
کچھ عرصہ میں ان کا تعارف ملک کے طول عرض میں ایک پبلک دانشور کے طور ہونے لگا۔ جاوید غامدی صاحب سے ان کا تعارف ہوا۔ اسی طرح ملک کے سیاسی اور پالیسی اشرافیہ تک ان کی براہ راست پہنچ ہوئی۔ ملک میں جاری کئی پبلک ڈسکورسز میں انہوں نے حصہ لیا۔ غامدی سے رفاقت کے دوران انہوں نے کئی نئے موضوعات پر قلم اٹھایا۔ قرآن کے آسان ترجمے سے لے کر حقوق نسواں، مسلم غیر مسلم تعلقات اور جہاد قتال جیسے موضوعات پر نہ صرف یہ کہ انہوں نے لکھا بلکہ ان موضوعات کو وہ سوسائٹی کے عوام الناس تک لے کر گئے۔
مذہب اور سماج و ریاست کے باہمی تعلق اور ایک عام مسلمان کے حقوق وغیرہ کی مشکل اور پیچیدہ بحثوں کو نظرانداز کرتے ہوئے انہوں نے عام فہم زبان میں حجرے، چوپال، دوکان، نائی خانے اور چائے خانے میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو اس بحث میں شریک کیا اور ان کو حصہ دار بنایا۔
اس کام کے لئے انہوں نے ہر قسم کے میڈیا تحریر، تقریر، ٹی وی، کالم۔نگاری اور غمیوں اور شادیوں کے موقعوں پر عوامی اجتماعات سے خطاب۔ اس عمل میں بے شک وہ ایک لبریٹر تھے جنہوں نے مذہبی اور سیاسی اجارہ داروں کی گرفت کمزور کی اور ایک طرح deliberative democracy کے عمل کو آگے بڑھاتے رہے۔
دہشت گردی اور طالبان کے سوات پر قبضے کے دوران وہ صف اول کے مجاہد کی طرح اپنے جان و مال کی پرواہ کئے بغیر فکری محاذ پر نبردازما رہے۔ اس للکار میں ان کی جان جانی یقینی ہی تھی لیکن وہ جذبات کی حد تک بے خوف رہے۔ ملک چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوئے۔
2 اکتوبر 2010 کو ان کو شہید کیا گیا۔ ان کی شہادت اور کنٹریبیوشن تاریخ کا حصہ بنی ل جس معاشرے کو تباہی و بربادی سے بچانے کے لئے انہوں نے اپنا سب کچھ داو پر لگایا وہ شاید ہی ان کی قدرومنزلت پہچان سکی ان کی موت پر سوات اور مردان کی گلی گلی سے جو احتجاج ہونا تھا وہ نہیں ہوا۔
ڈ۔ فاروق خان انسان تھے اور بطور انسان ان سے اپنی سماجی و سیاسی زندگی میں کئی غلطیاں بھی ہوئیں لیکن وہ ان کے ارتقائی سفر کے میل و فرسخ کے نشان ہیں۔ وہ کنکٹنگ ڈاٹس ہیں جن کو آپس میں ملا کر ان کی اور شاید ہماری بطور سماج تصویر مکمل ہوتی ہے۔
وہ انتہائی نرم خو، بذلہ سنج، ہنس مکھ، مہمان نواز، فیاض، محنتی اور محبتیں بانٹنے والے انسان تھے۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں مختار مسعود نے لکھا ہے کہ ان جیسے بڑے لوگوں کو سزا کے طور پر معاشرے سے اٹھا لیا جاتا ہے (مفہوم لکھا ہے) اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے۔