منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی امداد کی روک تھام کے عالمی ادارے فناشنل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نے پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنے کے فیصلے کے علاوہ کچھ دیگر اہم اہداف کے تعاقب کا بھی ٹاسک دیا ہے۔
اس کے ساتھ ہی پاکستان میں حکام کے مطابق ایف اے ٹی ایف کا معاملہ تکنیکی مراحل سے ہوتا ہوا اب سیاسی بن گیا ہے۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ایک اہلکار نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف کے اختتامی اجلاس سے پہلے ہی پاکستان کو اس بارے میں اشارے مل رہے تھے کہ ملک کو فی الحال گرے لسٹ میں ہی رکھا جائے گا۔ لیکن جہاں ایک طرف ملک کو بلیک لسٹ سے بچ جانے کی خوشی تھی وہیں اب گرے لسٹ میں رہتے ہوئے باقی رہ جانے والی سفارشات کو پورا کرنے کا لائحہ عمل طے کرنا بھی ضروری ہو گیا ہے۔
21 سے 23 اکتوبر تک ہونے والے اجلاس میں ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کی طرف سے سفارشات پر عمل کرنے اور اب تک کی پیشرفت کا جائزہ لیا۔
23 اکتوبر کو زوم پر ہونے والی ورچوئل پریس بریفنگ میں ادارے کے صدر ڈاکٹر مارکس پلیئر نے پاکستان سے متعلق کہا کہ 27 میں سے بچ جانے والی چھ سفارشات ’بہت سنگین طرز‘ کی ہیں اور پاکستان کو ان رہ جانے والی سفارشات پر عمل کرنے کے لیے فروری 2021 تک کا وقت دیا گیا ہے۔
لیکن یہ چھ سفارشات کیا ہیں؟
ایف اے ٹی ایف کے اختتامی اجلاس میں جہاں ادارے نے اس بات کو تسلیم کیا کہ پاکستان کی جانب سے اب تک سفارشات کی تکمیل کے لیے پیشرفت کی گئی ہے، وہیں اب دوسرے مرحلے میں اس بات کو دیکھا جائے گا کہ پاکستان ان اقدامات کو نافذ کر رہا ہے یا نہیں۔
اس بارے میں وفاقی حکومت کے ایک ترجمان نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ایف اے ٹی ایف کی چھ رہ جانے والی سفارشات میں سے ایک پاکستان کی طرف سے دہشت گرد گروہوں کی گرفتاری اور ان کے خلاف قائم مقدمات میں سزاؤں پر پیشرفت سے متعلق ہے۔
اگرماضی قریب کے حالات پر تھوڑی سی نظر دوڑائیں تو پتا چلتا ہے کہ پاکستان نے گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے بہت سے مشتبہ دہشت گردوں اور دہشت گردی میں ملوث افراد کو گرفتار بھی کیا ہے۔
اسی سلسلے میں اپریل 2019 میں کالعدم تنظیم جماعت الدعوۃ سے منسلک تنظیموں اور افراد کو بھی گرفتار کیا گیا اور سزائیں بھی سنائی گئیں جبکہ جولائی 2019 میں نہ صرف جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید کو گرفتار کیا گیا بلکہ گرفتاری کے فوری بعد ان پر فردِ جرم بھی عائد کر دی گئی۔
اب ایف اے ٹی ایف ان سزاؤں پر پاکستان کی طرف سے حکمتِ عملی اور پیشرفت دیکھنا چاہتا ہے۔
اسی بارے میں پاکستان کے بورڈ آف انویسٹمنٹ کے سابق چیئرمین ہارون شریف نے کہا کہ ‘صرف سزا دینا کافی نہیں ہے۔ آپ کو سزا دینے کا مکمل ڈھانچہ چاہیے جس کے مطابق دہشت گردوں کی مالی معاونت میں ملوث افراد کے خلاف تفتیش، انھیں سزا، عدالتوں میں ان مقدمات پر ہونے والی سماعت، سب درکار ہیں۔ اس میں پاکستان کو وقت لگ سکتا ہے اس لیے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ تمام تر پیشرفت تین سے چار ماہ کے دورانیے میں مکمل ہوسکے گی۔‘
پھر پاکستان کو اس حوالے سے بھی جواب دینا ہوگا کہ دہشت گردوں کی مالی معاونت میں ملوث اداروں سے منسلک بینک اکاؤنٹس منجمد کردیے گئے ہیں یا نہیں اور ان کی تفصیلات کیا ہیں۔ یہ سوالات اور ان پر پاکستان کی طرف سے ہونے والی پیشرفت بھی ان رہ جانے والی سفارشات کا حصہ ہیں۔
اس بارے میں بات کرتے ہوئے وفاقی حکومت کی ترجمان اور سٹیٹ بینک کے شعبے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ (ایف ایم یو) کی ڈائریکٹر جنرل لبنیٰ فاروق ملک نے بتایا کہ ’ایسا نہیں ہے کہ یہ چھ سفارشات مکمل نہیں ہیں، بلکہ ان پر جُزوی طور پر عمل جاری ہے۔ ہم تاحال پر امید ہیں کہ رہ جانے والا کام بھی مکمل ہوجائے گا۔‘
پاکستان کی طرف سے پُرامید ہونے کی ایک وجہ پارلیمنٹ سے ہونے والی قانون سازی ہے جس کی ایف اے ٹی ایف نے بھی تصدیق کی ہے۔ لیکن ساتھ ہی ایف اے ٹی ایف یہ بھی جاننا چاہتا ہے کہ اس پر اب تک کتنا عمل ہوا ہے اور ان کو مکمل کرنے میں پاکستان کو کن مشکلات کا سامنا ہے؟
ایف اے ٹی ایف کے صدر نے پریس بریفنگ کے دوران یہ بھی کہا کہ ویسے کسی بھی ملک کی طرف سے ہونے والی پیشرفت کا جائزہ لینے کے لیے ادارے سے منسلک افسران اور ذیلی ادارے اس ملک کا دورہ کرتے ہیں۔ لیکن کووڈ 19 کی وبا پھیلنے کے نتیجے میں یہ جائزہ ورچوئلی یا ویبینار کی حد تک محدود ہوگیا ہے۔
دوسری جانب ایف اے ٹی ایف کے صدر نے یہ بھی واضح کیا کہ جن ممالک میں دہشت گردوں کی معاونت روکنے کی صلاحیت کم ہے ان کی ’تکنیکی مدد‘ بھی کی جاتی ہے۔
لیکن ہارون شریف نے کہا کہ ’پاکستان کے کیس میں یہ تمام تر معاملہ اب سفارتی لابی کا حصہ بن گیا ہے جہاں پاکستان کو ایک بار پھر ڈو مور یعنی مزید محنت کرنے پر زور دیا جارہا ہے۔‘
ان کے مطابق ’اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ جب سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کے خلاف ووٹ دینے کی خبریں گردش کرنے لگیں تو زیادہ تر لوگوں نے یہ نہیں سوچا کہ سعودی عرب ایشیا پیسیفک گروپ (اے پی جی) کا رکن ہی نہیں ہے، مطلب یہ کہ اب مزید گھیرا تنگ کیا جارہا ہے۔‘
اس کی نشاندہی وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار حماد اظہر نے کرتے ہوئے کہا کہ چند ممالک غلط اور جھوٹ پر مبنی خبریں پھیلا رہے ہیں۔
حماد اظہر پاکستان کی طرف سے ایف اے ٹی ایف کی پلینری میٹنگ کی سربراہی کرتے ہیں۔
انھوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ حالیہ پلینری میٹنگ میں پاکستان پر زور دیا گیا ہے کہ وہ رہ جانے والے اہداف فروری 2021 یا اگلے سال کے وسط تک پورا کرے۔
اس سے پہلے بھی پاکستان کو اہداف پورا کرنے کے لیے چار ماہ کا وقت دیا گیا تھا۔
جہاں تک معاملات کے سیاسی ہونے کا سوال ہے تو انڈیا نے پاکستان پر بارہا یہ الزام عائد کیا ہے کہ پاکستان کی طرف سے دہشت گردوں کی گرفتاری صرف دکھاوا ہے، جبکہ امریکہ کی طرف سے اس سے پہلے بھی کئی بار عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) اور ورلڈ بینک کو ایف اے ٹی ایف کے دائرے کار میں لانے کے حوالے سے تجویز دی گئی ہے۔
پاکستان عالمی سطح پر سنہ 2000 کی دہائی سے دہشت گردوں کی معاشی معاونت اور پشت پناہی کے الزامات کا سامنا کرتا آ رہا ہے۔ اس بارے میں جہاں انڈیا کی تمام تر توجہ کا مرکز ایف اے ٹی ایف کا اجلاس رہا، وہیں امریکہ بھی اس تمام تر صورتحال کو بغور دیکھتا آرہا ہے۔
دوسری جانب ہارون شریف کا کہنا ہے کہ پاکستان خطے میں امن کے لیے ایک اہم پلئیر ثابت ہوسکتا ہے جسے اتنی آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
اس میں سب سے اہم افغان امن عمل ہے جس کے لیے امریکہ اور دیگر اتحادیوں کو پاکستان کی مدد کی ضرورت ہے جبکہ پاکستان کو بھی ایف اے ٹی ایف کو اپنی ترجیحات میں شامل کرنے اور ان تمام سفارشات پر عمل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا تاثر بہتر ہوسکے اور ملک میں سرمایہ کار آئیں۔
اسی بارے میں پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی طرف سے رعایت ملنی چاہیے، جس کا ایک مطلب ماہرین یہ بھی نکال رہے ہیں کہ ان رہ جانے والے اہداف کا ادارے کی طرف سے دیے گیے وقت میں مکمل ہونا ممکن نہیں لگتا۔
ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں پاکستان کی شمولیت سے دو سال پہلے حکومت اور فوج کے درمیان ہونے والی میٹنگ کے نکات سامنے آئے تھے جنھیں بعد میں ’ڈان لیکس‘ کا نام دیا گیا تھا۔ اس میٹنگ میں حکمراں جماعت نے فوج کو کہا تھا کہ اگر دہشتگردی پر قابو نہیں کیا گیا تو بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو تنہائی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
ہارون شریف نے کہا کہ ’اب پاکستان کے لیے واضح راستہ یہ ہے کہ اگر ان رہ جانے والے اہداف کو پورا کرنے کے لیے کوئی کمی ہے تو اس کے لیے ایف اے ٹی ایف سے مدد طلب کریں کیونکہ گرے لسٹ میں رہنا بھی ایک غیر یقینی صورتحال ہے جس سے ملک کو اب نکلنا چاہیے۔‘