پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ وہ فوج پر بطور ادارہ جمہوری عمل کو کمزور بنانے کا الزام عائد نہیں کرتے بلکہ ’یہ کچھ لوگوں کی خواہش اور منصوبہ ہے، وہی لوگ جو پاکستان میں مارشل لا نافذ کرتے ہیں۔‘
لندن میں مقیم مسلم لیگ نواز کے رہنما اسحاق ڈار نے بی بی سی کے شو ’ہارڈ ٹاک‘ میں پاکستان کو درپیش معاشی مسائل، اپوزیشن کی حکومت مخالف حکمت عملی اور مسلم لیگ نواز کے سربراہ نواز شریف کے فوجی قیادت پر سنگین الزامات پر بات کی ہے۔
ان سے پوچھا گیا کہ اب ان کی حکمت عملی کیا ہو گی ایک ایسے وقت میں جب نواز شریف ہزاروں لوگوں کے سامنے ویڈیو لنک پر کہہ چکے کہ ’آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ 2018 کے انتخابات میں دھاندلی، انھیں وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹانے اور ملک میں معاشی بدحالی کے ذمہ دار ہیں؟‘
اسحاق ڈار نے جواب دیا کہ ’یہ حقیقت ہے۔ ڈیپ سٹیٹ کے بارے میں سب کو علم ہے کہ وہ ایسا کرتی ہے۔ ہیلری کلنٹن بھی ڈیپ سٹیٹ سے متعلق پاکستان کی مثال دے چکی ہیں۔ بات ڈان لیکس سے شروع ہوئی۔ نواز شریف جمہوریت اور پارلیمان کی بالادستی کے لیے لڑ رہے ہیں۔۔۔ کیا اس میں کوئی برائی ہے؟ برطانیہ بھی تو جمہوریت اور جمہوری اقدار کی حمایت کرتا ہے۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ آپ تو ہمارا ساتھ دیں گے۔‘
یاد رہے کہ ماضی قریب میں پاکستانی فوج کا شعبہ تعلقات عامہ اور حکمراں جماعت واضح انداز میں پاکستانی سیاست میں فوج کے مبینہ کردار اور سنہ 2018 کے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کو مسترد کر چکے ہیں۔
ان سے پوچھا گیا کہ ’کیا وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستانی فوج اور آرمی چیف پاکستان میں تمام جمہوری عمل کو کمزور بنا رہے ہیں؟ اس پر اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ’یہی تو عالمی رپورٹس کہہ رہی ہیں۔ صرف ہم یہ نہیں کہہ رہے۔‘
فوج کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ’پاکستانی فوج کا پورا ادارہ نہیں، ہمیں کچھ افراد کی بات کرنی ہو گی۔ یہ پورے ادارے کی بات نہیں ہو رہی۔ ہمیں اس میں فرق کرنا ہو گا۔ یہ کچھ لوگوں کی خواہش اور منصوبہ ہے۔ جو پاکستان میں مارشل لا لگاتے ہیں۔‘
ان سے مزید وضاحت کے لیے پوچھا گیا کہ ’کیا آرمی چیف باجوہ کی قیادت میں جمہوری عمل کو کمزور کیا جا رہا ہے؟‘
اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ’ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے، اور اگر یہ بغیر کسی شبہ کے اب ثابت ہو گیا ہے۔۔۔ کوئی تو منصوبہ بندی کر رہا تھا۔ یہ ہم نہیں بلکہ پاکستان کے وزیر داخلہ کہہ رہے ہیں کہ اگر نواز شریف کے اداروں اور ڈیپ سٹیٹ سے مسائل نہ ہوتے تو وہ چوتھی بار بھی وزیر اعظم بن سکتے تھے۔ وہ ایسا کیوں کہیں گے؟‘
اکتوبر 2018 اور نومبر 2019 میں دیے گئے اپنے انٹرویوز میں پاکستانی فوج کے اُس وقت کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہا تھا کہ فوج ایک غیر جانبدار ادارہ ہے، فوج پر انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگایا جاتا ہے مگر الزام لگانے والوں کو شواہد پیش کرنے چاہییں۔ انھوں نے کہا تھا کہ تاریخ سے ثابت ہو گا کہ سنہ 2018 کے عام انتخابات صاف اور شفاف طریقے سے ہوئے تھے۔
ان سے سوال پوچھا کہ ’ان کے باس نواز شریف کئی سالوں تک ضیا کے ساتھ کام کر رہے تھے اور اب ایسا کہہ رہے ہیں، کیا یہ منافقت کے مترادف ہے؟‘
اس پر ان کا جواب تھا کہ ’میں آپ سے متفق نہیں ہوں۔ یہ ارتقا کا عمل ہے۔‘
اینکر نے پوچھا کہ ’کیا یہ اس لیے ہے کہ اب وہ اقتدار میں نہیں؟‘ تو سابق وزیر خزانہ پاکستان ان کا جواب تھا کہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ ’وہ تین بار وزیر اعظم رہے ہیں۔‘ انھوں نے اس سوال پر دوبارہ وزیر داخلہ کے بیان کی مثال دی۔
اینکر سٹیفن سیکر نے سب سے پہلے ان سے سوال کیا کہ ’اسحاق ڈار صاحب آپ پاکستان میں اشتہاری اور مطلوب ہیں۔ تو کیا آپ قانون سے بچنے کے لیے لندن آئے ہیں؟‘
اسحاق ڈار کا جواب تھا کہ ’نہیں، ایسا بالکل نہیں ہے۔ میرے خیال میں آپ پاکستان کی سیاسی تاریخ سے واقف ہوں گے کہ گذشتہ 73 برسوں کے دوران مختلف آمریت کے ادوار میں کرپشن کے بیانیے کو بار بار استعمال کیا گیا ہے۔ اور یہ اس مرتبہ بھی اس سے کچھ مخلتف نہیں ہے کیونکہ موجودہ حکومت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ایک پوشیدہ آمریت ہے، ایک جوڈیشل مارشل لا ہے۔‘
رواں ماہ پاکستان میں انتخابی اصلاحات کے اعلان کے موقع پر وزیر اعظم عمران خان نے سنہ 2018 کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کو مسترد کیا تھا۔
اکتوبر میں سما نیوز کے پروگرام ‘ندیم ملک لائیو’ میں گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے کہا تھا کہ نواز شریف کبھی جمہوری نہیں تھے، انھیں فوجی جرنیلوں نے ہی سیاستدان بنایا تھا اور اب چونکہ وہ اور ان کی پارٹی حکومت سے باہر ہے اس لیے فوج ہو ہدف تنقید بنا رہے ہیں۔‘ عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اپوزیشن کے رہنما ‘باہر بیٹھ کر فوج اور عدلیہ کو نشانہ بنا رہے ہیں تاکہ دباؤ بڑھا کر کسی نہ کسی طرح بیٹھ کر مشرف کی طرح این آر او (بدعنوانی کے مقدمات سے نجات) مل جائے۔‘
اسحاق ڈار کا انٹرویو میں مزید کہنا تھا کہ ’میں یہ ثابت کر سکتا ہوں کہ میرے پر لگائے گئے الزام بے بنیاد ہیں، میرا نام پاناما پیپرز میں نہیں تھا۔ میں اپنے خلاف الزامات کے خلاف ثبوت پیش کر سکتا ہوں۔‘
اینکر نے سوال کیا کہ ’آپ کہہ رہے ہیں کہ آپ کا نام پانامہ پیپرز میں نہیں تھا۔ لیکن سنہ 2016 میں جاری ہونے والی دستاویزات کے مطابق پاکستان سے بڑی تعداد میں پیسہ باہر منتقل کیا گیا اور اس میں ملک کے چند بااثر اور اعلیٰ خاندان ملوث تھے، تو ہمارے پاس یہ ماننے کی وجہ ہے کہ کیا اس میں صرف نواز شریف کا خاندان ہی نہیں بلکہ آپ کا خاندان بھی ملوث ہے؟
اسحاق ڈار نے جواب دیا کہ ’میرا نام ان دستاویزات میں کہیں درج نہیں ہے۔‘
اس پر اینکر نے ان سے سوال کیا کہ ’لیکن پاکستان کے قومی احتساب بیورو (نیب) نے پانامہ دستاویزات جاری ہونے کے بعد بہت غور سے آپ کے اکاؤنٹس کا جائزہ لیا ہے اور وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ آپ کے اکاؤنٹس کے ساتھ سنگین مسائل ہیں۔‘
سابق وزیر خزانہ کا جواب تھا کہ ’نہیں، بالکل بھی نہیں۔ آپ یقیناً جانتے ہوں گے کہ پاکستان کی سپریم کورٹ کی ہدایت پر ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کا قیام کیا گیا تھا، جو سپریم کورٹ کی جانب سے ماورائے عدالت اقدام تھا۔۔۔ اس مشترکہ تحقیقاتی ٹیم میں دو فوجی افسران بھی شامل تھے جو دراصل اس پوری ٹیم کی نگرانی کر رہے تھے۔
نیب سے متعلق ایک جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’یہ اپنی اہمیت بہت پہلے ہی کھو چکا ہے۔ یہ ایک ایسا ادارہ ہے جو سیاسی مخالفین کے خلاف انتقام کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔۔۔ میں حکومت میں رہتے ہوئے بھی اس پر پریس کانفرنس کر چکا ہوں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’جے آئی ٹی میں میرے خلاف الزام یہ تھا کہ میں نے سنہ 1981 سے سنہ 2001 تک 20 سال کے عرصے میں پاکستان میں اپنے ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کروائے۔ میں برطانیہ سے چارٹرڈ اکاؤنٹننٹ ہوں، جب میں برطانیہ میں تھا تو میں نے کبھی اپنے گوشوارے جمع کروانے میں کوتاہی نہیں کی۔ لہذا میرے خلاف یہ نہایت غلط الزام ہے۔‘
اسحاق ڈار سے پوچھا گیا کہ ’آپ کی اور آپ کے خاندان کی کل کتنی جائیدادیں ہیں؟‘
اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ’میں شفافیت پر یقین رکھتا ہوں اور میں نے اپنے تمام اثاثے اپنے گوشواروں میں ظاہر کیے ہوئے ہیں۔ میرے پاس صرف ایک پراپرٹی ہے، پاکستان میں میرا گھر ہے جو موجودہ حکومت نے مجھ سے چھین لیا ہے۔‘
اس پر ان سے پوچھا گیا کہ ’لیکن خبروں میں بتایا جاتا ہے کہ آپ کی دبئی اور لندن میں جائیدادیں ہیں۔ کیا آپ اور آپ کے خاندان کے پاس صرف ایک پراپرٹی ہے؟‘
اس پر اسحاق ڈار نے جواب دیا کہ ’یہ (الزامات) درست نہیں۔ میرے بچوں کا صرف ایک ولا ہے جو اُن کی ملکیت ہے کیونکہ وہ 17 سال سے کاروبار کر رہے ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ ’میرے بچے آزاد ہیں اور میری سرپرستی میں نہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے تفتیش سے کوئی مسئلہ نہیں۔‘
پاکستان واپس آنے کے بارے میں اسحاق ڈار نے کہا کہ وہ تقریباً تین سال سے لندن میں ہیں اور ان کے وکلا پاکستان میں مقدمات کو دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان میں کیا ہو رہا ہے؟ انسانی حقوق کہاں ہیں؟ نیب کی حراست میں لوگوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ درجنوں لوگوں کو مار دیا گیا ہے۔‘
’آپ ساری معلومات گوگل کر سکتے ہیں۔ اس ادارے کو سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ (میرے اثاثوں سے متعلق) ساری معلومات ٹیکس دستاویزات میں درج ہیں اور یہ لاپتہ نہیں۔ تو مسئلہ کیا ہے؟ مسئلہ کچھ الگ ہے۔ نواز شریف سویلین بالادستی کے لیے لڑ رہے ہیں۔‘
’دونوں مقدمات جن میں نواز شریف کو سزا ہوئی ہے، دونوں فیصلوں میں لکھا گیا ہے کہ استغاثہ کوئی بدعنوانی ثابت نہیں کر سکی۔ تو اور کیا چاہیے؟‘
اس پر اینکر کی جانب سے ان سے کہا گیا کہ ’نواز شریف اور آپ سزا یافتہ ہیں اور علاج کی غرض سے لندن میں بیٹھے قبل از وقت انتخابات کی بات کر رہے ہیں، تو آپ دونوں کی کیا ساکھ ہے؟‘
اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ’عمران خان کی حکومت کی کیا ساکھ ہے؟ دنیا دھاندلی اور چوری شدہ انتخابات دیکھ چکی ہے۔ ہم نے تجربہ کیا ہے، سنہ 2018 میں رائے عامہ کے تمام جائزوں نے پیشگوئی کی تھی کہ مسلم لیگ نواز جیت جائے گی۔ لیکن مبصرین اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے انھیں تاریخ کے بدترین انتخابات قرار دیا۔ یہ سب کو معلوم ہے کہ ہم سے الیکشن چُرایا گیا۔‘
سٹیفن سیکر نے ان کو بتایا کہ ’یورپی یونین مانیٹرنگ ٹیم نے اپنی رپورٹ میں الیکشن کے دوران کچھ مخصوص جگہوں پر ایک نہیں بلکہ کئی جماعتوں کی جانب سے کی گئی خلاف وزریوں کا ذکر کیا تھا لیکن مجموعی طور پر نتائج کو قابل اعتماد قرار دیا تھا۔‘
اسحاق ڈار نے کہا کہ ’شاید آپ نے تمام رپورٹس نہیں پڑھیں۔‘ تو انھیں بتایا گیا کہ ’آپ اپنی مرضی سے کوئی بھی رپورٹ دیکھ سکتے ہیں، ہم تو صرف آپ کو ایک آزاد اور انتہائی قابل احترام ادارے کی رپورٹ بتا رہے ہیں۔‘
’فافین کا نیٹ ورک عالمی سطح پر کام کرتا ہے۔۔۔ (اس کے مطابق) اس الیکشن کو چُرایا گیا ہے۔ قبل از وقت دھاندلی ہوئی۔ نیب کا استعمال کر کے ہماری جماعت سے الیکٹیبلز ان کی جماعت (پی ٹی آئی) میں دھکیلے گئے۔ آر ٹی ایس سسٹم رُک گیا تھا اور اسے کئی گھنٹوں تک بند رکھا گیا۔‘
اینکر نے سوال کیا کہ ہو سکتا ہے ’عمران خان اس وقت اپنی پذیرائی کھو چکے ہوں لیکن جب انھوں نے گذشتہ ماہ جلسے میں نواز شریف کا بیان سنا تو انھوں نے فوراً کہا کہ نواز شریف کی جرات کیسے ہوئی کہ ایک جنرل پر انگلی اٹھائے اور اسے پاکستان کے حالات کا ذمہ دار قرار دے، نواز شریف تو خود کئی سالوں تک فوجیوں کے جوتے چمکاتے رہا۔۔۔ یعنی اس بیان نے پاکستانی عوام میں کافی حمایت حاصل کی ہو گی جو کہ منافقت جانچ لیتے ہیں۔‘
اسحاق ڈار کا جواب: ’شاید آپ نے عمران خان کے 21 ویڈیو کلپس نہیں دیکھے جن میں وہ فوج، آرمی چیف اور آئی ایس آئی کو بدنام کر رہے ہیں۔۔۔ گذشتہ سال امریکہ میں انھوں نے کہا تھا کہ آئی ایس آئی اسامہ بن لادن کی ذمہ دار ہے۔ جب وہ اقتدار میں نہیں تھے تو انھیں ’طالبان خان‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ کیا ہم یہاں ان کی کارکردگی اور ہماری کارکردگی کا موازنہ کرنے نہیں آئے؟‘
اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ’نواز شریف وزیر اعظم یا (عام شہری کی) حیثیت سے فوج کے مخالف نہیں۔ وہ کچھ افراد کو قصور وار ٹھہراتے ہیں۔۔۔ یہ چیز اعلیٰ قیادت میں شروع ہوتی ہے۔ ڈان لیکس کی تاریخ سے آپ واقف ہوں گے۔ ہم نے ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالا۔ مجھے لگتا ہے نواز شریف اگر حلف اور آئین کی خلاف وزری کے بارے میں بات کرتے ہیں تو اس میں کیا غلط ہے؟‘
انھوں نے کہا کہ ’ہم پاکستانیوں کے مفاد میں ہی یہ سب کر رہے ہیں۔ ہمارے دور میں دگنی آمدن جمع ہوئی، کم ترین مہنگائی، سب سے کم سود کی شرح، جنوبی ایشیا میں سٹاک مارکیٹ کی بہترین کارکردگی، سب سے مستحکم کرنسی، مجموعی قومی پیداوار کی بلند ترین سطح۔۔۔ مغربی اداروں نے ہماری تعریف ہی کی۔‘
’پاکستان 2030 میں جی 20 کا حصہ بننے جا رہا تھا اور ہم جلد ایسا ممکن بنانے کی کوششیں کر رہے تھے۔ ’ہم پُرامید تھے کہ لوڈ شیڈنگ ختم ہو گی، ہم پاکستان میں دہشت گردی سے لڑ رہے تھے، میکرو اکانومک انڈیکیٹرز میں بہتری آئی تھی۔‘
اینکر نے ان کی توجہ اس طرف مرکوز کی کہ ’وہ صرف یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ عمران خان کے پاس پانچ سال کا مینڈیٹ ہے۔ آپ کے پاس دو راستے ہیں۔ پاکستان جا کر اگلے انتخاب میں حصہ لے سکتے ہیں یا لندن میں عمران خان کی حکومت کو کمزور کر سکتے ہیں۔ (اور ایسا کرنے سے) پاکستان میں نیا معاشی و سیاسی عدم استحکام پیدا کر سکتے ہیں۔ کیا وہ ایسا کرنا چاہتے ہیں؟‘
اسحاق ڈار کا جواب تھا کہ ’یہ سیاسی عدم استحکام کی بات نہیں۔ یہ نالائقی، کارکردگی نہ ہونے، دو سال میں پاکستان کی معیشت تباہ کرنے کی بات ہے، وہ بھی کورونا سے پہلے۔۔۔ سنہ 1952 کے بعد پہلی بار پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار منفی ہوئی۔ 5.8 فیصد سے، (عمران خان حکومت کے) پہلے سال 1.9 فیصد اور رواں سال منفی 0.4 فیصد۔ (ملک میں) بیروزگاری ہے۔ ہم نے چھ فیصد لوگوں کو غربت سے نکالا، انھوں نے واپس چھ فیصد کو غربت کی لکیر سے نیچے دھکیل دیا۔‘
’عمران خان نے ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ کیا تھا لیکن انھوں نے اب تک ایک کروڑ 20 لاکھ لوگوں کو بیروزگار بنا دیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں اس وقت ایک فاشست حکومت ہے۔۔۔ ہمارا حتمی مقصد جمہوریت کی بالادستی، فری اینڈ فیئر الیکشن اور قانون پر عمل درآمد ہے۔‘
اس پر اینکر نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ قانون پر عملدرآمد کے لیے پاکستان واپس جائیں گے، تو اسحاق ڈار کا جواب تھا کہ بالکل وہ ایسا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
’تمام اداروں کو پاکستان کے آئین کی حدود میں کام کرنا ہو گا۔ ہم اس سے بہت خوش ہوں گے۔۔۔ ایسا وزیر اعظم جو ڈی جی ایف آئی اے کو ناموں کی فہرست دے کر کہے کہ ’جاؤ انھیں گرفتار کرو‘۔ یہ کیسی گورننس ہے؟‘