رپورٹ: ریاض سہیل
پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم میر ظفر اللہ خان جمالی 76 برس کی عمر میں راولپنڈی کے ایک ہسپتال میں وفات پا گئے ہیں۔
قیامِ پاکستان کے بعد سے وہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پہلے منتخب وزیرِ اعظم تھے۔
میر ظفر اللہ خان جمالی کو چار روز قبل دل کا دورہ پڑا تھا جس کے بعد انھیں راولپنڈی کے آرمڈ فورسز انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں وینٹی لیٹر پر منتقل کر دیا گیا تھا۔
کوئٹہ میں ہمارے نامہ نگار ممد کاظم نے ان کی قریبی رشتہ دار اور سابق وزیرِ اعلیٰ میر جان محمد جمالی نے اس بات کی تصدیق کی اور انھوں نے بتایا ہے کہ کل ان کی میت ان کے آبائی علاقے ضلع جعفرآباد روجھان جمالی میں لائی جائے گی اور وہیں سپرد خاک کیا جائے گا۔
میر ظفر اللہ جمالی کا شمار بلوچستان کے ان چند بلوچ سیاست دانوں میں ہوتا ہے جنھوں نے وفاقی جماعتوں کے ساتھ سیاست کو ترجیح دی اور صوبے میں مقبول قوم پرستی کے رجحان سے خود کو دور رکھا۔ انھیں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پہلے منتخب وزیر اعظم ہونے کا اعزاز بھی حاصل رہا۔
ابتدائی زندگی
میر ظفر اللہ جمالی کی پیدائش قیام پاکستان سے تین سال قبل یعنی 1944 میں ڈیرہ مراد جمالی کے قصبے روجھان جمالی میں ہوئی۔ انھوں نے پرائمری تعلیم مقامی طور پر حاصل کی اور اس کے بعد گھوڑا گلی مری میں بورڈنگ سکول چلے گئے جس کے بعد اے لیول انھوں نے لاہور کے ایچی سن کالج سے کیا۔
انھوں نے کالج کے بعد مزید تعلیم پنجاب میں ہی جاری رکھی اور پنجاب یونیورسٹی کے شعبے سیاست سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ وہ اردو، پنجابی، سندھی، پشتو اور براہوی زبان پر بھی عبور رکھتے تھے۔
سیاسی گھرانہ
ظفر اللہ جمالی کا گھرانہ مسلم لیگ سے تعلق رکھتا تھا۔ ان کے چچا جعفر خان جمالی محمد علی جناح اور بعد میں ان کی بہن فاطمہ جناح کے قریب رہے۔ ظفر اللہ جمالی کا دعویٰ تھا کہ ان کے چچا نے فاطمہ جناح کو رضامند کیا تھا کہ وہ ایوب خان کے خلاف انتخاب لڑیں جبکہ اس سے قبل وہ خواجہ ناظم الدین اور حسین سہرودری کو انکار کر چکی تھیں۔
ظفر اللہ جمالی نے فاطمہ جناح کے انتخابی دورے کے وقت ان کے گارڈ کے طور پر بھی فرائض سر انجام دیے اور بعد میں ان کے پولنگ ایجنٹ بھی مقرر ہوئے۔
سیاست میں آمد
روجھان جمالی کے جمالی خاندان کی سیاسی شناخت جعفر خان جمالی تھے۔ ان کی وفات کے بعد یہ ذمہ داری میر ظفراللہ جمالی نے سنبھالی اور پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔ ظفراللہ جمالی نے اس شمولیت کے بارے میں کہا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو چچا کی تعزیت کے لیے آئےتھے اور والد کے کہنے پر انھوں نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔
1970 کے انتخابات میں انھیں سردار چاکر خان نے شکست دی اس کے بعد وہ 1977 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے، جنرل ضیاالحق نے جب مارشل لا نافذ کیا تو وہ ان سیاست دانوں میں شامل تھے جنھوں نے جنرل ضیاالحق کا ساتھ دیا۔
1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں وہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ان کو پانی و بجلی کی وزارت دی گئی جب جنرل ضیاالحق نے محمد خان جونیجو حکومت کو برطرف کر دیا تو انھیں بلوچستان کا وزیر اعلیٰ مقرر کیا گیا۔ سنہ 1988 میں دوبارہ پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے اور انتخابات میں کامیابی کے بعد وزیراعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے۔
اس کے بعد وہ ہر اس سیاسی جماعت میں شامل رہے جو حکومت میں رہی، اس دوران انہوں نے مسلم لیگ ، مسلم لیگ ق اور حالیہ دنوں تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی۔
بلوچستان کا پہلا وزیراعظم
میر ظفراللہ جمالی کو پاکستان کا 13واں اور بلوچستان سے پہلا وزیراعظم ہونے کا اعزاز حاصل رہا۔ ان کی نامزدگی سے قبل مسلم لیگ ق اور متحدہ مجلس عمل میں اتحادی حکومت سازی کے لیے مذاکرات جاری تھے۔
مسلم لیگ ق کے رہنما اور سابق وزیراعظم چوہدری شجاعت حسین اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان جمالی کے خلاف تھے کیونکہ بلوچستان کی سیاست میں مولانا فضل الرحمان اور جمالی ایک دوسرے کے حریف تھے دوسری وجہ یہ تھی کہ مولانا فضل الرحمان خود بھی امیدوار تھے۔
ایم ایم اے سے مذاکرات میں کامیابی کے بعد پرویز مشرف نے وزیر اعظم کی نامزدگی چوہدری شجاعت پر چھوڑ دی اور ان کی رائے تھی کہ بلوچستان میں ہمیشہ سے احساس محرومی کا شکار رہا ہے وہاں سے کوئی وزیراعظم نہیں ہوا اس لیے وہیں سے کسی کا انتخاب کرنا چاہیے۔
‘پارٹی نے تجویز منظور کر دی اور مشرف نے کہا کہ وہ انھیں نہیں جانتے لیکن آپ لوگوں نے فیصلہ کیا ہے تو اس طرح جمالی کا نام حتمی ہو گیا۔ انھوں نے محسوس کیا کہ انٹیلیجنس ایجنسیوں کو ظفر اللہ جمالی کےنام پر کچھ تحفظات ہیں، ان کی سوچ تھی کہ بطور وزیراعلیٰ ان کا ریکارڈ درست نہیں تھا۔’
بلوچستان کے سینئر صحافی شہزادہ ذوالفقار لکھتے ہیں کہ انھوں نے وزیراعظم کا خواب تو دو دہائی پہلے دیکھا تھا لیکن جنرل ضیاالحق نے محمد خان جونیجو کا انتخاب کیا تاکہ سندھ میں بھٹو کی پھانسی کے بعد موجود جذبات کو ٹھنڈا کیا جا سکے۔
رمز فیلڈ کے ساتھ ملاقات اور مشرف کی ناراضگی
یکم اکتوبر 2003 میں میر ظفر اللہ جمالی بطور وزیراعظم امریکہ کے دورے پر گئے، جہاں انھوں نے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش اور سیکریٹری دفاع ڈونلڈ رمز فیلڈ سے ملاقاتیں کیں۔ بعد میں ان کا یہ دورہ ان کی وزارت عظمی کے خاتمے کی ایک بڑی وجہ بنا کیونکہ اس دورے سے اس وقت کے فوجی صدر پرویز مشرف شدید ناراض ہوئے تھے۔
اس امریکی دورے میں موجودہ وفاقی وزیر شیخ رشید احمد بطور وفاقی وزیر اطلاعات ان کے ہمراہ تھے وہ اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ وزیر خارجہ خورشید قصوری بھی ساتھ تھے، رمز فیلڈ کے ساتھ ملاقات میں جمالی نے کہا کہ میں نے اکیلے میں بات کرنی ہے اس طرح تقریباً تیس سے چالیس منٹ رمز فیلڈ اور جمالی کی ون ٹو ون ملاقات ہوئی۔
‘ابھی میں باہر بیٹھا ہوا تھا کہ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل احسان کا فون آیا کہ شیخ رشید آپ کہاں ہیں؟ میں نے بتایا کہ میں میٹنگ کے باہر بیٹھا ہوں اور جمالی صاحب کا انتظار کر رہا ہوں انھوں نے پوچھا کہ اندر میٹنگ میں جمالی صاحب کے ساتھ اور کون ہے؟ خارجہ سیکریٹری اور وزیر خارجہ ہیں۔ تو میں نے کہا کہ کوئی نہیں حالانکہ سفیر نے اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا کہ اگر وزیر خارجہ بھی ساتھ ہوں تو بہتر ہے، لیکن جمالی صاحب نے ون ٹو ون ملاقات کو ہی ترجیح دی۔
شیخ رشید کے مطابق دو تین منٹ منٹ ہی گزرے تھے کہ جنرل پرویز مشرف کا بھی فون آ گیا اور پرویز مشرف نے کہا کہ ”شیخو’ کدھر ہو، تو میں نے کہا جمالی صاحب کے ساتھ۔ انھوں نے کہا کہ جمالی صاحب کدھر ہیں تو میں نے کہا کہ رمز فیلڈ کے ساتھ۔ پھر پرویز مشرف نے پوچھا کہ رمز فیلڈ کے ساتھ اور کون ہے تو میں نے کہا کہ اور کوئی نہیں ہے تو انھوں نے کہا کہ خورشید قصوری اور سفیر کہاں ہیں تو میں نے بتایا کہ وہ دونوں میرے ساتھ کھڑے ہیں، تو انھوں نے کہا کہ ‘آل رائٹ، اوکے’ ۔ ایک دم میں کھنکا اور سمجھ گیا۔’
شیخ رشید کا خیال ہے کہ چوہدری برادران نے جمالی کو اس لیے چنا تھا کہ ان کے خیال میں ایک چھوٹے صوبے کا وزیر اعظم "پر” نہیں نکال سکے گا اور جس طرح چوہدری کہیں گے ویسے ہی ہو گا لیکن ایسا نہ ہوا۔ جمالی وزیراعظم نظر آنا شروع ہو چکے تھے اور امریکی دورے کے بعد تو ان کا خیال تھا کہ وہ بہترین پوزیشن میں ہیں۔ وہ مسلم لیگ ق کا کوئی عہدہ لینا چاہتے تھے اور چوہدری کسی صورت میں دینے کے لیے تیار نہیں تھے۔
چوہدری شجاعت حسین اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں صدر کو پہلی شکایت یہ تھی کہ وہ سست آدمی ہیں سرکاری فائلیں کئی کئی روز تک ان کے دفتر میں ان کے دستخطوں کی منتظر رہتی ہیں لیکن ان کو کوئی پرواہ نہیں۔
دوسری شکایت اس وقت پیدا ہوئی جب جمالی بطور وزیراعظم امریکہ کےدورے پر گئے اور واپسی پر انھوں نے صدر پرویز مشرف کو جو بریفنگ دی وہ اس بریفنگ سے مختلف تھی جو پرویز مشرف کو ذرائع سے ملی تھی۔
چوہدری شجاعت مزید لکھتے ہیں کہ صدر پرویز مشرف نے انھیں اور پرویز الٰہی کو بتایا کہ وزیراعظم اٹھتے ہی بارہ بجے ہیں دوسرا ان کا دورہ امریکہ کے بارے میں طرح طرح کی باتیں ہو رہی ہیں بطور وزیراعظم وہ ان کی کارکردگی سے مطمئن نہیں آپ ان سے کہیں کہ فوری مستعفی ہو جائیں۔
صدر کا یہ پیغام لے کر جب وہ وزیراعظم ہاؤس پہنچے تو جمالی نے کہا کہ آپ صدر صاحب سے کہیں انھیں اس طرح بے توقیر کر کے نہ نکالیں وہ خود ہی مستعفی ہو جاتے ہیں۔
صدر مشرف کی خواہش تھی کہ جمالی خود شوکت عزیز کا نام تجویز کریں جمالی نے کہا کہ میں آپ کا نام تجویز کر سکتا ہوں شوکت عزیز کا نہیں۔
’گھر میں لمبی چوڑی ٹیبل تک نہ تھی‘
میر ظفر اللہ جمالی نے شان و شوکت کے بجائے سادہ زندگی گزاری اور کسی کو ذاتی اور سیاسی طور پر رنج نہیں پہنچایا۔
پی ٹی وی کے سابق ایم ڈی اختر وقار عظیم اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ سادگی کے معاملے میں وزیراعظم میر ظفر اللہ جمالی کم نہ تھے عام دنوں کی طرح وزارت عظمی کے زمانے میں بھی ان کے مزاج اور رہن سہن میں سادگی برقرار رہی۔
‘وہ جتنے عرصے وزیراعظم رہے ان کے بیوی بچوں نے وزیراعظم ہاؤس کا رخ نہیں کیا۔ بدستور کراچی کے گلشن اقبال میں اپنے گھر میں مقیم رہے۔ ان کے گھر کے پاس سیکیورٹی کا کوئی بھرپور انتظام نہیں تھا۔’
‘ایک بار وزیراعظم کراچی ہی میں تھے کہ کسی ہنگامی نوعیت کے معاملے پر قوم سے خطاب کرنے کی ضرورت پڑ گئی وزیراعظم کے گھر پر ہی ریکارڈنگ کا وقت طے ہوگیا۔’
‘میں نے سنا اور دیکھا ہے کہ عام طور پر سرکاری افسر اور سیاست دان اپنے ذاتی گھروں کی تزئین و آرائش بھی سرکاری خزانے سے کروا لیتے ہیں کیونکہ وقتاً فوقتاً انہیں وہاں رہنا ہوتا ہے۔ جمالی صاحب کے یہاں ایسا کچھ نہ تھا۔ہم ان کے گھر پہنچے تو وہاں کوئی ایسی چوڑی اور بڑی میز نہ مل سکی جس پر مناسب طریقے سے مائیکرو فون رکھ کر ریکارڈنگ کی جا سکتی۔’
‘ایک چھوٹے سے سٹول پر بہت سی کتابیں رکھ کر اس حد تک اونچا کیا گیا کہ اس پر مائیکروں فون لایا جا سکے۔ کتابوں کے سائیز مختلف تھے اس لیے عارضی طور پر بنائی گئی میز کی شکل چوکور یا مستطیل ہونے کے بجائے مخروطی بن گئی۔’
‘وزیراعظم نے خاموشی سے اس پر ریکارڈنگ کروائی اور ٹی وی عملے کا شکریہ ادا کیا۔ایک آدھے مرتبہ تو وہ کراچی میں گاڑی چلاتے ہوئے بھی دیکھے گئے۔ ایسے سادہ مزاج اور صاف گو آدمی کا زیادہ عرصہ تک حکمران رہنا ممکن نہ رہا جلد ہی مقتدر حلقے ان سے ناراض ہوگئے۔’
ہاکی کے میدان کے کھلاڑی
میرظفر اللہ خان جمالی سیاسی میدان کے ساتھ ساتھ کھیلوں کے میدان میں بھی خاصے متحرک رہے۔ پاکستان کی ہاکی کے بہت قریب رہے اس کھیل سے ان کے والہانہ لگاؤ کی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے خود زمانۂ طالب علمی میں ہاکی کھیلی تھی۔ انھوں نے قومی ہاکی چئمپین شپ میں پنجاب کی نمائندگی بھی کی تھی۔
1984 کے لاس اینجلز اولمپکس میں پاکستانی دستے کے سربراہ تھے اور انھوں نے پاکستان ہاکی فیڈریشن میں چیف سلیکٹر کی ذمہ داری طویل عرصے تک نبھائی جس کے بعد انھیں پاکستان ہاکی فیڈریشن کا صدر بنا دیا گیا۔
وہ سنہ 2004 سے 2008 تک صدر کے عہدے پر فائز رہے لیکن بیجنگ اولمپکس میں پاکستانی ٹیم کی مایوس کن کارکردگی کے نتیجے میں سابق کھلاڑیوں نے انھیں صدر کے عہدے سے ہٹانے کی مہم چلائی اور یوں میرظفراللہ جمالی کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا جس کے بعد اس وقت کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق اولمپئن قاسم ضیا کو فیڈریشن کا صدر مقرر کیا گیا تھا۔
سنہ 2015 میں میرظفراللہ خان جمالی کے دوبارہ ہاکی فیڈریشن کا صدر بننے کے امکانات پیدا ہوگئے تھے جب اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے انھیں قومی ہاکی کے معاملات میں دلچسپی لینے کے لیے کہا تھا لیکن میرظفراللہ جمالی کو اس بات کا بے حد افسوس تھا کہ وزیراعظم کی ہدایت کے باوجود فیڈریشن میں تقرریاں ان سے مشاورت کے بغیر کی گئیں جنھیں انھوں نے مسترد کر دیا تھا۔
‘اور وہ انگاروں پر نہیں چلے’
بلوچستان سے سیاست کے میناروں نواب خیربخش مری، سردار عطااللہ مینگل اور میر غوث بخش بزنجو کی ان کی ذاتی اور سیاسی قربت نہیں رہی۔ ان سیاست دانوں کا شمار ترقی پسند قوم پرست سیاست دانوں میں کیا جاتا ہے۔
میر ظفر اللہ جمالی اور نواب اکبر بگٹی کے خاندانوں میں قریبی اور سیاسی مراسم رہے لیکن 1992 میں ان کے دوسرے بیٹے سلال بگٹی کوئٹہ میں ایک حملے میں ہلاک ہو گئے۔
چوہدری شجاعت حسین لکھتے ہیں کہ ‘اکبر بگٹی ظفر اللہ جمالی کو بھی اپنے بیٹے کے قتل کا ذمہ دار سمجھتے تھے واقعے کے کچھ عصے کے بعد جمالی انھیں ڈیرہ بگٹی لے گئے تاکہ وہ انھیں بتائیں کہ ان کا اس قتل میں کوئی ہاتھ نہیں۔ لہذا انھیں معاف کر دیں۔’
‘بگٹی مجھے دوسرے کمرے میں لے گئے اور کہا کہ جمالی کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے، میں نے کہا کہ ان کا کوئی قصور نہیں۔ ان کو معاف کردیں۔ کہنے لگے ٹھیک ہے، میں ان کو معاف کردیتا ہوں لیکن میری ایک شرط ہے۔ جمالی سچے ہیں تو دہکتے انگاروں (بے گناہی ثابت کرنے کے لیے قبائلی رسم) پر ننگے پاؤں چل کر دکھائیں۔ جب یہ بات ظفر اللہ جمالی کے علم میں آئی تو انھوں نے دہکتے انگاروں پر چلنے سے معذرت کر لی۔’