حال ہی میں لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ بلال اکبر کو سعودی عرب کا سفیر نامزد کیا گیا ہے، جس کے بعد جہاں ایک طرف پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان محمد حفیظ نے اسے ’انتظامی‘ معاملہ کہا، وہیں دوسری جانب یہ بحث بھی شروع ہو گئی ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین بدلتے تعلقات میں ایک ریٹائرڈ جنرل کی متوقع تقرری کتنی مددگار ثابت ہو گی؟
لیفٹننٹ جنرل (ر) بلال اکبر سے پہلے راجہ علی اعجاز اسی عہدے پر فائز تھے جو کہ ایک کیریئر ڈپلومیٹ ہیں اور متعدد ممالک میں سفیر کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ اور اگر پاکستان کے سعودی عرب میں بھیجے گئے سفیروں کی تاریخ دیکھیں تو ان میں تین نیوی کے سابق ایڈمرل اور آئی ایس آئی کے سابق چیف اسد درانی کو بطور سفیر سعودی عرب بھیجا گیا تھا۔ ایڈمرل عزیز مرزا، حشام صدیق بھی اسی فہرست میں شامل ہیں۔ جس سے عمومی تاثر یہی ملتا ہے کہ پاکستان کی سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی بنیاد سفارتی سے زیادہ حفاظتی بنیادوں پر ہے۔
جبکہ اگر جنرل (ر) بلال اکبر کی بات کریں تو وہ پاکستان کی فوج میں بڑے عہدوں پر فائز رہے ہیں اور دسمبر 2020 میں ریٹائر ہوئے تھے۔
سفارتکاری کس کا کام ہے؟
پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ایک سابق افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’جب ہم سالہا سال سفارتکاروں کو مختلف ممالک میں رکھتے ہیں ان کی ٹریننگ ہوتی ہے، تو پھر ان کو ہی ان اہم عہدوں پر فائز بھی کیا جانا چاہیے۔ اگر آپ کے خیال میں سفارتکار اچھے نہیں ہیں تو بے شک سارے جنرل لگا دیں یا بزنس مین لگا دیں۔ بات یہ ہے کہ آپ نے ملک کا کام کس سے کرانا ہے۔ اور ملک کو کس سے فائدہ ہو رہا ہے۔ اس طرح آپ مجھے واہگہ بارڈر بھیج دیں گے تو کیا فائدہ ہو گا؟ میں نے تو کبھی لڑائی نہیں لڑی۔’
دوسری جانب ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی اعلانیہ پالیسی یہ ہے کہ بزنس بڑھانا ہے۔ ’ہمیں یہ روز سننے کو ملتا ہے لیکن آپریشنل پالیسی یہ ہے کہ آپ دفاعی امور کو ترجیح دینا چاہتے ہیں۔ اب یہ بذاتِ خود ایک بڑا واضح فرق ہے۔ اگر آپ سفارتی عہدے پر حفاظتی امور کے ماہر کو بھجوائیں گے تو تاثر یہی ملے گا کہ آپ کی ترجیح حفاظتی امور ہیں نہ کہ ملک کے سفارتی تعلقات۔’
انھوں نے کہا کہ ’سفیر کا کام دو چار فون گھمانا یا فنکشن کرانا نہیں ہے۔ اگر آپ سعودی عرب نہیں بھیجیں گے تو کہیں اور بھیج دیں گے۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ وہاں (یعنی سعودی عرب) بھیجنے کے پیچھے وجہ پرفارمنس سے منسلک ہے۔ یا پھر پریشر ہے۔‘
اب سوال یہ ہے کہ کیا کوئی کوٹہ وضح کیا گیا ہے؟
اسی عہدے کے بارے میں پاکستان کے قانون میں کوٹہ وضح ہوا ہے۔ جس کے مطابق 20 فیصد کوٹہ غیر پیشہ ور سفیروں کے لیے مختص ہے۔ دس فیصد پاکستان کی فوج، نیوی اور ائیر فورس کے لیے جبکہ دس فیصد پرائیوٹ اداروں سے منتخب ہو سکتے ہیں۔ پرائیوٹ اداروں سے لگنے والے سفیروں کی مثال اگر لیں تو ان میں مسلم لیگ نواز کے دورِ حکومت میں عطا الحق قاسمی کو بطور سفیر نامزد کیا گیا تھا۔
‘تعلقات میں کوئی خاص پیشرفت نہیں ہوتی’
اب یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر پاکستان سے سعودی عرب جانے والے سفیروں کی تعداد میں زیادہ تر جنرل یا ایڈمرل رہے ہیں تو کیا ان کی تعیناتی کے دوران پاکستان کو سفارتی سطح پر کوئی خاص مدد ملی ہے؟ اور اب کیا توقع کی جارہی ہے؟
اس کے بارے میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی نے، جو سعودی عرب میں سنہ 2000 سے 2002 تک بطور سفیر تعینات رہے، بتایا کہ ‘یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں کہ کسی سابق جنرل کو اس عہدے پر نامزد کر لیا جائے۔ اس سے پہلے جانے والوں نے وہ ہی کیا جو سفیر کرتے ہیں۔ بطورِ سفیر ہمارا کام آفس ورک ہے جو ہم نے کیا۔ اس سے زیادہ ہم سے امید نہیں کرنی چاہیے۔’
تعلقات کی تاریخ
دوسری جانب، پاکستان اور سعودی عرب کے مابین سفارتی اور حفاظتی تعلقات کی ایک طویل تاریخ ہے۔ جس میں دونوں ممالک ایک دوسرے کے خطے میں مفادات کا خیال رکھتے آ رہے ہیں۔ لیکن اسی دوران ایک وقت ایسا بھی آیا جب سعودی عرب نے پاکستان سے دیا ہوا قرضہ واپس مانگ کر پاکستان میں یہ تشویش بڑھا دی کہ تعلقات کی نویت اب بدل چکی ہے۔
اس کے بارے میں پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے ایک انٹرویو کے دوران بتایا کہ ‘دونوں ممالک کے تعلقات میں تبدیلی تو آئی ہے۔ لیکن اس تبدیلی کی وجہ کوئی ایک ملک نہیں بلکہ دنیا کی بدلتی ہوئی صورتحال ہے۔‘
معید یوسف نے کہا کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ دونوں ممالک کے تعلقات ستّر سال پہلے جیسے تھے ویسے ہی رہیں۔ ‘ان تعلقات میں تبدیلی آئے گی اور اگلے چھ ماہ تک پاکستان سعودی عرب تعلقات کا توازن خراب نظر آئے گا۔ جبکہ قرضے کی جلد ادائیگی کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ چونکہ سعودی عرب ایک خود مختا ر ملک ہے تو انھوں نے پاکستان کو دی ہوئی رقم کی واپسی کا مطالبہ کیا جو پاکستان نے پورا کیا۔
اسی طرح اگر تاریخ دیکھیں تو کئی ایسے مواقع آئے ہیں جہاں سعودی عرب نے پاکستان کی مدد کی اور پاکستان نے اس کا بدلہ بھی پورا کیا۔
مثال کے طور پر سنہ 1982 میں جنرل ضیا الحق کے دور میں سعودی عرب اور پاکستان کا سیکیورٹی معاہدہ ہوا تھا، جس کے بعد یہ فیصلہ ہوا تھا کہ ضرورت پڑنے پر سعودی عرب اندرونی دفاع اور سلامتی کے لیے پاکستان کی فوج کو بلا سکتا ہے۔
اس کی مثال بھی سنہ 1983 سے 1987 میں دیکھی گئی جب پاکستان کے تقریباً 15ہزار فوجی سعودی عرب میں مقیم رہے۔
اسی طرح جب 1990 سے 1991 میں خلیجی جنگ چھڑی اور صدام حسین نے کویت پر حملہ کیا تو اس وقت بھی پاکستان نے حفاظتی سطح پر سعودی عرب کے مؤقف کا ساتھ دیا اور فوج بھی بھیجی تھی۔
افغان جہاد کی مثال بھی سب کے سامنے ہے جب امریکہ، سعودی عرب اور پاکستان نے سابقہ سوویت یونین کے خلاف اتحاد بنایا اور امریکی سی آئی اے نے پاکستان کو دو ارب ڈالر خفیہ طور پر دیے تھے جس کے بعد سعودی عرب نے بھی میچنگ فنڈز کے طور پر پاکستان کو دو ارب ڈالر دیے تاکہ پاکستان افغان مجاہدین کی حمایت کر سکے۔
1998 میں جب پاکستان نے جوہری تجربہ کیا تھا تو اس وقت سعودی عرب نے پاکستان کی خاصی مدد کی تھی۔ اس دوران پاکستان پر بین الاقوامی سطح پر پابندیاں لگادی گئی تھیں۔ جس کے نتیجے میں جہاں چین نے سفارتی اور سیاسی لحاظ سے پاکستان کا ساتھ دیا وہیں سعودی عرب نے اقتصادی لحاظ سے پاکستان کا ساتھ دیتے ہوئے پاکستان کو تیل کے ساتھ ساتھ پیسے بھی دیے۔
ان سب باتوں کے تناظر میں سینیٹر مشاہد حسین نے بتایا کہ ‘جنرل بلال اکبر اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ ایک تاثر یہ تھا کہ حالیہ دنوں میں تعلقات میں سردمہری کا عنصر نہ بڑھ جائے اسی لیے غالباً ایک ہائی پروفائل فوجی کو بھیجا جا رہا ہے۔ کیونکہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ سیاستدانوں کے برعکس سعودی عرب پاکستان کی فوج سے بات چیت کرنے کو اہمیت دیتا ہے۔’
سفارتی اور اقتصادی تعلقات کی بات کرتے ہوئے سینیٹر مشاہد حسین نے بتایا کہ ‘1974 میں وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اسلامک سمٹ کرائی تھی تب سعودی حکمراں شاہ فیصل نے شرکت بھی کی اور حمایت بھی۔ اور یہ پاکستان کے 1971 میں دو لخت ہونے کے بعد کا واقعہ ہے اسی لیے پاکستان کے لیے سعودی حمایت کی اہمیت بہت ہے۔’
دوسری جانب، 1977 میں جب اس وقت کے وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک چلی تھی تب سعودی سفیر ریاض الخطیب نے پاکستان کی حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان مصالحت کا کردار ادا کیا تھا۔
جہاں تک سردمہری کی بات ہے تو وہ 2015 میں دیکھنے میں آئی۔
یمن کی جنگ میں سعودی عرب نے پاکستان کی فوجی امداد مانگی جس کا فیصلہ پاکستان کی افواج نے پارلیمان پر چھوڑ دیا اور پارلیمان نے متفقہ طور پر طے کیا کہ پاکستان یمن کی جنگ میں سعودی عرب کا ساتھ نہیں دے گا۔
اب اگر موجودہ صورتحال کی بات کریں تو پاکستان کے لیے سعودی حمایت بہت ضروری ہے کیونکہ پاکستان کے تقریباً 30 لاکھ ورکر سعودی عرب کام کے غرض سے مقیم ہیں۔ اسی سلسلے میں 2019 میں سعودی شہزادے کی پاکستان آمد اور حمایت معنی خیز تو ثابت ہوئی لیکن معاملات پھر زوال کا شکار ہو گئے۔
اس کے بارے میں دفترِ خارجہ کے سابق افسر نے کہا کہ ‘فوج کی طرز پر کام کرنا اپنی جگہ لیکن اب جو بھی نامزد ہو کر سعودی عرب جائے گا انھیں پاکستان کی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنا پڑے گا۔ ایسا کرنا ممکن ہو سکے گا یا نہیں، اس کی اپنی ایک طویل تاریخ ہے۔’