انٹرنیشنل ریسرچ کونسل مذہبی امور کی ایک این جی او ہے جس کا مقصد امن اور سماجی ہم آہنگی کے لئے کام کرنا ہے ۔یہ این جی او محترم اسرار مدنی اور مولانا تحمید جان ازہری کی زیر نگرانی بہت فعال کردار اداء کررہی ہے ۔ ان کی نگرانی میں یہ این جی او مختلف مفید موضوعات پر تربیتی ورکشاپس کرواتی رہتی جس میں علماء کرام کو مختلف سکالرز ، جید علماء ، صحافی اور دانشوران قوم کے ساتھ مل بیٹھ کر گفتگوکرنے کا موقع ملتاہے۔ ان کی ورکشاپس میں تمام فرقوں سے لوگوں کو شریک کیا جاتاہے جس سے ان کے درمیان مکالمے کی راہیں کھلتی ہیں۔ مجھے بھی ان کی بعض ورکشاپس میں شریک ہونےکا موقع ملا۔ ورکشاپس کی اہمیت اور افادیت سے بہت متاثر ہوا ۔ ان کا طریق کا ر ، حسن تنظیم ، مہمان اسپیکرز کا انتخاب ،اور شرکاء کے لئے ہر ممکن اچھی سہولیات سب چیزیں ایسی تھیں جن کی کوئی شخص داد دیے بنا نہیں رہ سکتا۔
کچھ ہی عرصہ قبل ان کی ایک ورکشاپ ” اشتعال انگیز مواد کو کنٹرول کرنے اور امن کو پھیلانے میں مذہبی میڈیا کا کردار ” کے عنوان سے لاہور میں منعقد ہوئی جس میں شرکت کا موقع ملا ۔ اس ورکشاپ کے تمام شرکاء مذہبی پس منظر کے ساتھ میڈیا کے ساتھ منسلک افراد تھے ۔ شرکاء کو اسائنمنٹ کے طور پر میڈیا کے کسی عنوان پر ایک تحریر لکھنے کا کہاگیا ۔ اسی پس منظر میں میں نے سوشل میڈیا کےبڑھتے ہوئے رحجان اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل کو موضوع بناتے ہوئے یہ تحریر لکھی ۔
سوشل میڈیا کا بڑھتا ہوا استعمال اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل سنجیدہ صورت اختیار کرچکے ہیں جن پر دنیا بھر میں مختلف حوالوں سے غور و فکر ہورہا ہے ۔ کسی بھی نئی چیز کی آمد اپنے ساتھ کئی مسائل لاتی ہے ، ٹیلی ویژن ، ٹیلی فون ، موبائل پھر کیبل ، ڈش انٹینا ان سب چیزوں سے مسائل پیدا ہوئے ۔ یہ مسائل سماجی ، سیاسی ، اخلاقی ، معاشی ہر نوعیت کے تھے ۔ لیکن سوشل میڈیا کے مسائل ان سب سے مختلف ہیں اور دن بدن خطرناک صورت اختیار کرتے جارہے ہیں ۔
سوشل میڈیا کی لوگوں کو لت پڑ چکی ہے اور اس وقت دنیا کے قریبا دو ارب لوگ اس سے متاثر ہیں اتنی بڑی سطح پر لوگ پہلے کبھی متاثر نہیں ہوئے اور نہ ہی اس سے قبل کسی چیز نے اس قدر شدید لت کی صورت اختیار کی ہے ۔ یہ لت انسان کو دوسروں سے بیگانہ کرنے میں کافی ہے ۔ ایک ہی گھر میں رہنے والے افراد سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کے فرینڈز یا فالورز ہوں تو ان کی دوستی یا تعلق شاید کسی حد برقرار رہ سکے ورنہ اس کے کوئی چانس نہیں ۔ ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھے ہوئے بھی کچھ دیر بعد ہی موبائل آن ہوجاتا ہے اور پھر وقت کا پتہ ہی نہیں لگتا ۔ موجودہ دور کا انسان ایک حقیقی دنیا کی بجائے ایک کھوکھلی دنیا میں جی رہا ہے ۔ جس میں اس کو دوسروں کو اپنا سب کچھ اچھا دکھانا ہے ۔ اس کی صورت کیسی ہو ، معاشرتی حالت کیسی ہو ، لیکن سوشل میڈیا پر فلٹر لگا کر یا کسی بھی طرح ایک خوبصورت فوٹوڈالنا ہے ، اور لوگوں کو یہ شو کروانا ہے کہ میں ایک لگژ ری لائف گزار رہا ہوں ۔ سبھی اسی ہیجان میں ہیں ۔ اور پھر لائک یا کمنٹ کا مسلسل انتظار کرنا ہے ، ایک ایک لائک اور کمنٹ کو دیکھنا ان کا جواب دینا انسانوں کو مسلسل مصروف بنائے ہوئے ہے ۔ اگر کوئی برا کمنٹ آجائے تو دل میں اس کی نفرت پال لینا ، یا اپنی صورت اور حالت کو کوسنے لگنا ۔ اپنی حالت کا مسلسل دوسروں کے ساتھ تقابل کرتے رہنا اور پھر پریشانی ، ہیجانی ، اداسی کا شکار رہنا موجودہ دور کے انسان کا المیہ بن چکا ہے ۔
موجودہ دور کا انسان یہ سمجھتا ہے کہ سوشل میڈیا پر ہر چیز وہ خود چنتا ہے ، اس کے چناؤ کا بھی شاید کسی حد تک عمل دخل ہو لیکن اس کے لئے سب کچھ چنا جارہا ہوتاہے جس سے مقصود اس کو مسلسل اس طرف متوجہ رکھنا ہے ۔ سوشل میڈیا کے مختلف فیچرز میں باہمی مقابلے کی فضا اور کاروباری دوڑ میں انسانوں کا بری طرح استحصال کیا جارہا ہے ۔ ہم سوشل میڈیا میں مصروف نہیں رہتے بلکہ ہمیں مصروف رکھنے کے لئے محنت کی جارہی ہوتی ہےدنیا کے ذہین ترین دماغ اس کی پلاننگ کررہے ہوتے ہیں ۔ کوئی فرد سوشل میڈیا سے دور تو ہو ، اس کو مختلف حیلوں بہانوں کے ذریعے دوبارہ اس کی طرف کھینجا جاتاہے ، اسی طرح کوئی بندہ دو منٹ کے لئے بھی موبائل استعمال کرنا چاہے تو اس کے لئے ایسی جاذبیت پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اس کے دوگھنٹے اسی میں پار ہوجائیں۔ اس چیز نے رشتوں ، اور تعلقات میں ایسی دوریاں پیدا کی ہیں کہ تھکا ہارا باپ گھر آئے تو اس کو بھی موبائل استعمال کرنا ہے اور دودھ پیتے بچے کی ماں کو بھی موبائل استعمال کرنا ہے ، صبح اٹھتے ہی موبائل ، رات کو سوتے وقت موبائل، سفر، حضر ، سوتے جاگتے یہاں تک کہ واش روم میں بھی موبائل ساتھ نبھارہا ہوتا ہے ۔
سوشل میڈیا اور میڈیا کی جاذبیت کو برقرار رکھنے کے لئے جھوٹ کا مسلسل سہارا لیا جارہا ہوتاہے ، جھوٹی خبروں کے پھیلنے کے چانسزکئی گناہ زیادہ ہوتے ہیں جتنے افراد دیکھیں یا آگے پھیلائیں اتنا ہی کاروبار مزید مضبوط ہوتاہے ۔ اسی طرح دوسروں کا مذاق ، ہتک ، تحقیر ،توہین والی ویڈیوز ، یا جس میں کوئی سکینڈل ہو ان کے پھیلنے کاچانس زیادہ ہوتاہے ۔ اسی طرح اخلاقیات سے گری ہوئی اور فحش تصاویر یا ویڈیوز زیادہ دیکھی جاتی ہیں تو ان کی مانگ کے حساب سے ان کی مارکیٹ بھی بڑی ہوتی ہے ۔
سوشل میڈیا کے ساتھ برتاؤ کے حوالے سےا یک رویہ اس سے روکنے کا پایا جاتا ہے ، ان سے رکے رہنے سے تمام خرابیاں دور ہوسکتی ہیں ۔ بہت سے لوگ اسی سوچ سے اپنے بچوں کو ان چیزوں سے دور رکھتے ہیں ، لیکن وہ ان کے مثبت اور اچھے اثرات سے بھی محفوٖظ رہتے ہیں ، اسی طرح بچوں میں احساس کمتری یا محرومی اگر پیدا ہوجائے تو وہ دیگر کئی خرابیوں کو جنم دیتاہے ، ایک ایسی چیز جس سےآپ خود کو روک نہ پائیں ، اور وہ تمام معاشرے میں پھیل چکی ہو اور آپ بھی استعمال کریں تو اس کی لت پڑجائے تو ایسی چیز سے روکنے کا عمل وقتی طور پر تو شاید مفید ہو لیکن دیر پا طور پر اس کے اچھے اثرات کی بجائے مزید خرابیاں جنم لینے کا اندیشہ ہو تو اس سے روکنے کی بجائے اس کوقبول کرکے اس کے بہتر استعمال بارے سوچنا چاہیے ۔
ایک دوسرا رویہ بچوں کو آزادانہ چھوڑ دینے کا ہے کہ ہم ان کی پرائیویسی میں دخل نہیں سے سکتے ہیں ۔ بچے ہوں یا بڑے کچھ وقت ہمیں مخصوص کرنا چاہیے جس میں ہم حقیقی زندگی میں رہ اور جی رہے ہوں ، بلکہ خود اپنے آپ اور بچوں کی عادت یہ بنانی چاہیئے کہ ایک مخصوص وقت ہی ان چیزوں کو استعمال کریں اور استعمال کو مثبت ، کارآمد ، بہتر اور مفید بنانے کی بھی باقاعدہ پلاننگ کرنی چاہیے ۔