امریکہ کی جانب سے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق خفیہ رپورٹ کا افشا کیا جانا، مشرق وسطیٰ کے سب سے طاقتور ترین شخص شہزادہ محمد بن سلمان کی طاقت، عزت اور بین الاقوامی سطح پر حیثیت کے لیے ایک دھچکہ ہے۔
اس رپورٹ کی وجہ سے آنے والی دہائیوں میں سعودی عرب کے مغربی ممالک کے ساتھ روابط پر مضر اثرات پڑ سکتے ہیں۔
اس دعوے کہ ولی عہد محمد بن سلمان جنھیں ایم بی ایس کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، سنہ 2018 میں ہونے والے اس بہیمانہ قتل میں ملوث تھے، کے بعد مغربی رہنماؤں کے لیے عوامی سطح پر خود کو محمد بن سلمان کے ساتھ وابستہ کرنا، پہلے سے کہیں زیادہ مشکل بنا دے گا۔
آج کے حالات دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ محمد بن سلمان بہت طویل عرصے تک سعودی سلطنت کے تخت پر براجمان رہیں گے۔
وہ فقط 35 برس کے ہیں اور انھیں سعودی عرب میں بہت مقبولیت حاصل ہے جہاں کی آبادی کا زیادہ تر حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ ملک میں اب تک ولی عہد کے حوالے سے عوامی سطح پر تنقید نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کی وجہ کچھ حد تک حب الوطنی ہے اور بڑے پیمانے پر شہری آزادیوں پر پابندیاں ہیں۔
سعودی سلطنت میں ابھی تک ولی عہد شہزادے پر تنقید، نہ ہونے کے برابر ہے۔
صدر بائیڈن نے اشارہ دیا ہے کہ وہ ولی عہد محمد بن سلمان کے بجائے شاہ سلمان کے ساتھ معاملات طے کرنا چاہتے ہیں، لیکن شاہ سلمان اور ان کا بیٹا انتہائی قریبی رابطے میں رہتے ہوئے ہر کام کرتے ہیں، لہذا اس حوالے سے صدر بائیڈن کی کوئی تخصیص عملی طور پر بے کار ہو گی۔
شاہ سلمان کی عمر85 برس ہو گئی ہے۔ ان کی صحت خراب رہتی ہے اس لیے انھوں نے زیادہ تر اختیارات محمد بن سلمان کو سونپ دیے ہیں۔
خفیہ ٹیپ
خاشقجی کے قتل میں ولی عہد کے ملوث ہونے کے متعلق، مغربی انٹیلیجنس ایجنسیوں کو بہت پہلے سے معلوم تھا لیکن اس حقیقت کو منظرِعام پر نہیں لایا گیا تھا۔
جینا ہاسپل جو سنہ 2018 سے رواں برس کے آغاز تک سی آئی اے کی سربراہی کر رہی تھیں۔ پہلے انقرہ گئیں جہاں انھیں ترکش اننٹیلیجنس نے آڈیو ٹیپ سنوائی۔ یہ سعودی قونصلیٹ میں خاشقجی کے مایوسی میں گھرے آخری لمحات تھے۔ وہاں انھیں ریاض سے آنے والے ایجنٹوں کی جانب سے قابو کیا جا چکا ہے اور ان کا سانس بند کیا جا رہا تھا۔
سعودی قونصلیٹ کے اندر ترکی کی جانب سے خفیہ ریکارڈنگ کرنا، ایک سفارتی غلطی تھی جسے خاشقجی کے خوفناک قتل کے باعث نظر انداز کیا گیا۔ اس ویڈیو کو دوسری مغربی انٹیلجنس ایجنسیوں کے ساتھ شیئر کیا گیا ہے۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ سی آئی اے اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ ’درمیانے درجے سے اعلیٰ سطح تک‘ محمد بن سلمان اس قتل میں ملوث تھے۔
لیکن جب صدر ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں تھے تو اس خفیہ امریکی رپورٹ پر پردہ ڈال کر رکھا گیا تاکہ ریاض میں ان کے قریبی اتحادی کو خفت نہ اٹھانی پڑے۔ لیکن اب وہ پردہ ہٹ چکا ہے۔
واشنگٹن کے ناپسندیدہ شخص
سعودی عرب کے اگلے بادشاہ بننے کے لیے ولی عہد محمد بن سلمان، واشنگٹن کا ترجیحی انتخاب نہیں تھے۔ دراصل شہزادہ محمد بن نائف بادشاہ بننے جا رہے تھے لیکن سنہ 2017 میں محمد بن سلمان نے انھیں ان کے عہدے سے ہٹا دیا۔
محمد بن نائف کے متعلق یہی بتایا گیا ہے کہ اس وقت وہ حراست میں ہیں اور ان پر بدعنوانی اور ولی عہد شہزادے محمد بن سلمان کے خلاف سازش کا الزام ہے، تاہم ان کا خاندان اس کی تردید کرتا ہے۔
برسوں تک سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سعودی شاہی خاندان میں امریکہ کے سب سے اہم حلیف تھے اور بطور وزیر داخلہ انھوں نے کامیابی سے القاعدہ کو شکست دی۔ اپنے انٹیلیجنس چیف سعد الجبری کے ذریعے انھوں نے سی آئی اے کے ساتھ قریبی تعلق قائم کیا۔
الجبری اس وقت کینیڈا میں خود ساختہ جلا وطنی کاٹ رہے ہیں انھوں نے عدالت میں الزام عائد کیا ہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان نے انھیں قتل کرنے کے لیے ایک سکواڈ بھجوایا تھا۔
لہذا جب محمد بن سلمان کی بات کی جائے تو سی آئی اے کی پاس ان کی زندگی کے متعلق معلومات کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے۔
عالمی سطح پر شدت پسند تنظیم نام نہاد دولتِ اسلامیہ اور القاعدہ کی جانب سے دہشت گردی کے عالمی خطرے کے باعث، امریکہ اب بھی سعودی عرب کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہش مند ہے اور وہ یہی چاہیں گے کہ مستحکم ذہن اور بہترین انداز میں فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھنے والے محمد بن نائف سے معاملات طے کیے جائیں ناکہ ایک ایسے شخص سے جس کے مزاج کا کوئی اعتبار نہیں۔۔۔ یعنی محمد بن سلمان۔
ایران کے لیے تحفہ
ایسا کوئی بھی موقع جو امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات اور شراکت داری میں خرابی کا باعث بنے، وہ سعودی عرب کے علاقائی حریف ایران کے لیے ایک تحفہ ہے۔
حال ہی میں ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کئی برسوں کی پابندیوں کے باوجود، ایران نے مشرقِ وسطیٰ میں بالادستی حاصل کر لی ہے اور لبنان، شام، عراق اور یمن میں اپنی پراکسی ملیشیا کے ذریعے اپنی سٹریٹجک رسائی کو بڑھا دیا ہے اور سعودیوں کو ہر طرف سے گھیرے میں لے لیا ہے۔
جب صدر بائیڈن نے یمن میں سعودی عرب کی زیرقیادت جنگ میں امریکی ہتھیاروں کا استعمال معطل کرنے کا اعلان کیا تو اس کا فائدہ ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں کو ہوا۔ یہ جانتے ہوئے کہ ان کا دشمن اسلحے کی پابندی کا شکار ہے، انھوں نے متعدد محاذوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔
ممکنہ طور پر اس کا طویل مدتی اثر یہ ہو سکتا ہے کہ سعودی قیادت اپنی دفاعی اور سکیورٹی ضروریات کے لیے روس اور چین کی جانب دیکھنے اور ان سے شراکت پر مجبور ہو جائے۔
ریاض، اسرائیل کے ساتھ بھی زیادہ قریبی تعلقات استوار کر سکتا ہے، دونوں ممالک میں ایران کی بڑھتی ہوئی بالا دستی اور جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کا خوف، مشترکہ ہے۔