دہشت گرد تنظیم دولت اسلامیہ نے نام نہاد ‘پاکستان صوبے’ کے نام سے اپنی پہلی ویڈیو جاری کی ہے جس میں جنوری میں کیے گئے ایک حملے کا ذکر کیا گیا ہے۔
بی بی سی مانیٹرنگ کے مطابق نو منٹ 18 سیکنڈز کی اس ویڈیو کو جس کا عنوان ‘ بڑی جنگوں کے کھلاڑی’ رکھا گیا ہے، 19 مارچ کو ٹیلی گرام پر جاری کیا گیا تھا۔ اس ویڈیو میں ایک نامعلوم نقاب پوش شدت پسند کو دیکھا جاسکتا ہے۔
اس ویڈیو میں یہ شخص نام نہاد دہشت گرد تنظیم دولت اسلامیہ کی جانب سے دو جنوری کو پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کو پکڑنے اور بعدازاں انھیں ہلاک کرنے کے واقعے کا ذکر کرتا ہے۔
یاد رہے کہ دو جنوری کو پاکستان کے صوبہ مچھ میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے کم از کم دس کان کنوں کو قتل کر دیا گیا تھا اور اس کی ذمہ داری نام نہاد دہشت گرد تنظیم دولت اسلامیہ نے قبول کی تھی۔
پاکستان میں اس دہشت گرد تنظیم نے مئی 2019 میں ‘ولایت پاکستان’ کے نام سے اپنی نئی شاخ قائم کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد رواں برس کے آغاز میں ہزارہ کان کنوں کو قتل کرنے کا واقعہ تنظیم کی جانب سے اب تک کا سب سے بڑا حملہ تھا۔ البتہ حالیہ چند ماہ سے ان کے حملوں کی شدت میں کمی دیکھی گئی ہے۔
ویڈیو میں کیا ہے؟
اس ویڈیو میں ایک نامعلوم نقاب پوش شخص دو دیگر افراد کے درمیان ایک کھلے مقام پر کھڑا دکھائی دیتا ہے۔
بی بی سی مانیٹرنگ کے مطابق اس ویڈیو میں یہ شخص اردو زبان میں بول رہا ہے۔
اس ویڈیو میں بظاہر ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کے گلے کاٹے جانے کے دلخراش مناظر بھی دکھائے گئے ہیں۔ جہاں ان افراد کو قتل کیا گیا وہاں پس منظر میں نام نہاد دہشت گرد تنظیم کا سیاہ اور سفید رنگ والا جھنڈا بھی دکھائی دیتا ہے۔
اس واقعے کی مقامی حکومت، سیاستدانوں اور وزیر اعظم عمران خان نے مذمت کی تھی جبکہ اس کے ساتھ ساتھ دہشت گرد تنظیم دولت اسلامیہ کی حریف کالعدم تنظیم القاعدہ نے بھی اس حملے کی مذمت کی تھی۔
بی بی سی مانیٹرنگ کے مطابق اس ویڈیو میں براہ راست یہ نہیں کہا گیا کہ جن افراد کو اس ویڈیو میں قتل کرتے دکھایا گیا ہے وہ دو جنوری کے حملے میں ہلاک ہونے والے افراد ہیں لیکن بظاہر یہی لگتا ہے کہ یہ جنوری والا واقعہ ہی ہے۔
اس ویڈیو میں نام نہاد ‘پاکستان صوبے’ کے نام سے ایک لوگو بھی لگا نظر آتا ہے۔ اس میں اسلامی مہینے شعبان کی تاریخ درج ہے جس کا آغاز رواں ماہ 14 مارچ کو ہوا ہے۔
دہشت گرد تنظیم داعش کا پاکستان میں قیام
پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت پہلے بھی یہ کہتی رہی ہے کہ ملک میں پہلے سے موجود دہشت گرد گروہ دولتِ اسلامیہ( داعش) کا نام استعمال کر رہے ہیں۔
تاہم داعش نے مئی 2019 میں انڈیا اور پاکستان کے لیے اپنی دو نئی شاخوں ‘ولایت ہند’ اور ‘ولایت پاکستان’ کے قیام کا اعلان اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے کیا تھا۔
پاکستان میں دولتِ اسلامیہ کی نئی شاخ کے قیام کا اعلان انڈیا میں ‘ولایت ہند’ کے قیام کے پانچ روز بعد کیا گیا تھا۔ پاکستان میں نئی شاخ کے قیام کے اعلان کے فوراً بعد 15 مئی 2019 کو جاری ہونے والے دو الگ الگ اعلامیوں میں ‘ولایت پاکستان’ نے 13 مئی کو بلوچستان کے ضلع مستونگ میں ایک پولیس افسر کو ہلاک کرنے اور کوئٹہ میں پاکستانی طالبان کے ایک شدت پسند کو ہلاک کرنے کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی۔
داعش کے پرانے نظام کے تحت پاکستان دولتِ اسلامیہ کی ‘ولایت خراسان’ برانچ کے ماتحت ہوتا تھا اور ملک میں ہونے والے دولتِ اسلامیہ کے حملوں کی ذمہ داری ولایت خراسان ہی قبول کرتی تھی۔
ولایت خراسان کے قیام کا اعلان دولتِ اسلامیہ نے سنہ 2015 میں کیا تھا اور اس کے زیر اثر علاقوں میں افغانستان، پاکستان اور دیگر قریبی علاقے آتے تھے۔
دولتِ اسلامیہ ہے کیا؟
دولتِ اسلامیہ ایک دہشت گرد اسلامی گروہ ہے جس نےگذشتہ چند برسوں میں شام اور عراق کے بڑے علاقوں کو اپنے زیر نگیں کیا اور بعدازاں امریکہ، شام اور عراق کی افواج نے ان کے خلاف ایک طویل لڑائی کر کے ان کے کنٹرول کو کمزور کر دیا ہے۔ دولت اسلامیہ کے جنگجو مشرقی شام اور عراق کے شمالی اور مغربی علاقوں میں اقلیتی عقائد اور اقلیتی نسلوں کے افراد کے اغوا اور سرعام قتل جیسی بہیمانہ کارروائیوں کے علاوہ اب تک کئی فوجیوں اور صحافیوں کے سر بھی قلم کر چکے ہیں۔
دولت اسلامیہ (داعش) کا ہدف ایک اسلامی خلافت کا قیام ہے۔
دولت اسلامیہ کے ارکان ان جہادیوں پر مشتمل ہیں جو سنی اسلام کی سخت گیر تعبیر پر یقین کرتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ ان کے علاوہ باقی دنیا مذہب سے عاری ان لوگوں پر مشتمل ہے جو اسلام کو تباہ کرنے کے درپے ہیں۔
یہ تنظیم ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اپنے مخالفین کے سر قلم کرنے، سرعام مصلوب کرنے اور کئی لوگوں کو قطار میں کھڑے کر کے گولیاں مارنے جیسے اقدامات سے مقالی لوگوں اور باقی دنیا میں خوف ہراس پھیلانے میں کامیاب ہو چکی ہے۔
اگرچہ دولتِ اسلامیہ کا کہنا ہے کہ وہ قرآنی احکامات کی پیروی کر رہے ہیں، لیکن باقی دنیا کے مسلمان ان سے اتفاق نہیں کرتے۔ یہاں تک کہ القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری نے بھی الزرقاوی کو سنہ 2005 میں کہہ دیا تھا کہ اس قسم کی بہیمانہ کارروائیوں سے مسلمانوں کے دل و دماغ نہیں جیتے جا سکتے۔