کرونا ایک وبا اور بیماری ہے جس کے علاج کے لیے دعا کے ساتھ ساتھ احتیاط اور دیگر ذرائع اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ویکسین موثر علاج کی طرف ایک اہم قدم ہے اور حکومت پاکستان نے ویکسین فراہم کرنے کے لیے اب تک جو اقدامات اٹھائے ہیں وہ غیر معمولی نوعیت کے ہیں۔ میں نے ویکسین پالیسی اور پرائسنگ کے حوالے سے کئی تنقیدی پوسٹس کی ہیں اور روسی ساختہ ویکسین کی مہنگے داموں نجی سیکٹر میں فراہمی کے بارے میں حکومتی غفلت ایک حقیقت ہے۔ مگر جو بات خوش آئند ہے وہ چالیس سال سے زائد عمر کے لوگوں کو رجسٹر کرنے کے ایک ہفتے کے اندر ہی ویکسین لگانے کے عمل کا آغاز ہے۔ یہ بہت بڑی اچیومنٹ ہے جس کی تحسین لازم ہے۔ انڈیا جیسے ملک میں جسے فارمیسی آف ڈیویلپنگ ورلڈ کہا جاتا ہے ویکسین کی فراہمی کے سلسلے میں مشکلات اور رکاوٹیں موجود ہیں۔
پاکستان کی حکومت و عوام کو چین کا خاص طور ہر شکر گذار ہونا چاہیئے کہ پوری دنیا میں ویکسین کی خریداری کے لیے حکومتیں پیسے لیے منتظر ہیں مگر ویکسین کی سپلائی میسر نہیں ہو رہی۔ چین نے پاکستان کو ترجیحی بنیادوں پر ویکسین فراہم کی ہے جو مفت میں عوام کو لگائی جا رہی ہے۔ بعض اطلاعات کے مطابق پاکستان کی وزارت صحت بعض دوست ممالک سے ویکسین لینے کے لیے اقدامات صرف اس لیے نہیں کررہی کہ وہ ازخود دینے کی بجائے ،انہیں درخواست بھجوانے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ ان حالات میں جس سے ایشیائی ممالک گزررہے ہیں، میرے خیال میں اپنی انا کے مسائل کو پس پشت ڈالنے اور دوست ممالک کے ساتھ دوستانہ رویہ اپنانے کی ضرورت ہے۔ اس وقت ہم حالت اضطرار میں ہیں اور محض لکھ کر بھیجنے میں ہماری ناک کے نیچےہونے کا کوئی اندیشہ نہیں۔
عوام کو اس سہولت پر اللہ کا شکرگزار ہونے کے بعد چین و پاکستان کی حکومتوں کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہیئے۔ میں آج ہی ویکسین کے پہلے مرحلے سے گذر کر آیا ہوں اور بغیر کسی تکلیف کے آدھ گھنٹے میں پورے پراسس کو مکمل کر کے گھر پہنچ گیا۔ اپنی باری پر ویکسین لگوائیں کہ چینی ساختہ ویکسین عنقریب عالمی ادارہ صحت کی منظور شدہ فہرست میں شامل ہونے جا رہی ہیں۔ اس وقت تمام دستیاب شدہ ویکسینز کے بارے میں ڈیٹا شائع ہو چکا ہے اور بہت سا مزید ڈیٹا آنے والے دنوں میں شائع ہوگا۔ یہ ویکسینز محفوظ ہیں۔ کسی بھی دوا کی طرح ویکسین کے بھی ممکنہ سائڈ ایفیکٹس ہوتے ہیں مگر دوا کو سارے پہلوؤں سے جانچنے کے بعد ہی انسانی استعمال کے لیے منظور کیا جاتا ہے۔ عام روٹین میں ادوایات و ویکسین کی تیاری کے لیے کئی سال درکار ہوتے ہیں۔ کرونا کی وبا کے پیش نظر فاسٹ ٹریک تحقیقی مراحل سے گذر کر ویکسینز ہمارے پاس آچکی ہیں۔
باقی فارماسوٹیکل مافیا اپنی جگہ پر موجود ہے اور وہ موجود رہے گا۔ اس وبا سے بھی وہ مناپلی و منافع کے حصول کے لیے سرگرم عمل ہے۔ جس طرح باقی تمام امراض کے علاج کے لیے ہم کمپنیوں کی دو نمبری کے باوجود ادوایات استعمال کرتے ہیں اسی طرح کرونا ویکسین کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ صحت عامہ، امراض اور ادوایات کی جو بین الاقوامی سیاست ہے وہ اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہے۔
باقی اللہ کریم ہے اور ہم سب اس کے لطف و کرم کے امیدوار ہیں۔